ضیاءؔ اب اسی بھی خلوت خدا کسی کو نہ دے ۔۔۔

یہ خواب ہے کہ حقیقت خدا کسی کو نہ دے
عجیب شے ہے محبت خدا کسی کو نہ دے

ہر اک نظر کو میسرہوآئینہ لیکن
ملی ہے مجھ کو جو حیرت خدا کسی کو نہ دے

خوشی ملی تو اداسی سے دل کو گھیر لیا
غموں سے ایسی رفاقت خدا کسی کو نہ دے

پلٹ کے دیکھ لیا اس نے اپنے قاتل کو
کہا پھر اس نے یہ مہلت خدا کسی کو نہ دے

وصال پر بھی مجھے ہجر کا گمان ٹہرے
کسی سے اتنی محبت خدا کسی کو نہ دے

جو مجھ سے مل کے گیا پھر یہی کہا اس نے
ہے عشق ایک اذیت خدا کسی کو نہ دے

سنائی دینے لگیں دل کی دھڑکنیں ہرسو
ضیاءؔ اب ایسی بھی خلوت خدا کسی کو نہ دے

پروفیسر ضیاء شاہدؔ


 
Top