ایم اسلم اوڈ
محفلین
کہتے ہیں کہ شیخ سعدی ایک مرتبہ کسی دوسرے شہر گئے۔ اجنبی پا کر اس شہر کے کتے ان پر بھونکے اور ان کی طرف لپکے تو انہوں نے بچنے کے لئے زمین سے پتھر اٹھانا چاہا کہ کتوں کو ماروں.... لیکن پتھر زمین میں دھنسا ہوا تھا ،سو اٹھایا نہ جا سکا تو انہوں نے بے ساختہ کہا کہ ”عجیب شہر ہے، یہاں کتے آزاد ہیں اور پتھر بندھے ہوئے ہیں“ شیخ سعدی کی یہ بات ہمیں آج اس موقع پر یاد آئی ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے معروف ترین مقام تبت سنٹر شاہراہ قائدین پر اتوار کے روز ”جئے سندھ“ نامی تنظیم نے صوبہ بھر سے پوری قوت استعمال کر کے لگ بھگ 3 سو لوگ جمع کئے اور پھر وہاں کھلے عام پاکستان سے علیحدگی کے نعرے بلند کرنے شروع کر دیئے۔ تحریک کے ایک لیڈر ڈاکٹر صفدر سرکی نے کہا کہ سندھ کی ”آزادی“ کے لئے ریفرنڈم کرایا جائے۔ آئندہ انتخابات میں وہ تحریک چلائیں گے کہ سندھ کے عوام اقتدار کے لئے نہیں، سندھ کی آزادی کے لئے ووٹ دیں۔ خودارادیت ہمارا بنیادی حق ہے۔ ہم 1940ءکی قرارداد کو تسلیم نہیں کرتے۔ سندھ کی 1843ءسے پہلے کی صورتحال بحال کی جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس موقع پر قوم پرستوں نے جدید اسلحہ بھی اٹھا رکھا تھا جسے وہ کھلے عام لہراتے رہے اور پولیس ان کا تماشہ دیکھتی رہی۔
جی ہاں.... یہ ہے پاکستانی حکومت اور آزاد میڈیا کہ جو دفاع پاکستان کونسل پر دن رات اس لئے برستے ہیں کہ وہ ملک کے دفاع کی بات کیوں کرتے ہیں؟ اور کہتے پھرتے ہیں کہ ان کو کسی اور کی آشیر باد حاصل ہے۔ یہ تو ملک دوست ہو ہی نہیں سکتے لیکن جو کھلے عام سامنے آ کر سرکاری سکیورٹی میں ملک کے خلاف بات کرتے ہیں، ان پر نہ تو کہیں کوئی تنقید ہے اور نہ کوئی تبصرہ.... بلکہ انہیں ”محب وطن“ میڈیا بھرپور کوریج دے رہا ہے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ انہیں جس کی حمایت حاصل ہے اس کے اصل ترجمان تو ہمارے حکمران اور ہمارا ”آزاد میڈیا“ ہے۔
کیا مجال اور کیا کمال ہے اس جمہوریت اور آزاد میڈیا کا کہ جنہوں نے دن کو رات اور رات کو دن بنا رکھا ہے۔ آج ملک کا بڑا مسئلہ بلوچستان ہے کہ جس کے بارے میں امریکی کانگریس قرارداد تک پیش کر چکی ہے۔ امریکی حکومت پاکستانی احتجاج پر قرارداد واپس لینے، بحث نہ کروانے کی باتیں تو کرتی ہے لیکن تاحال ایسا کوئی عملی اقدام سامنے نہیں آیا جس کا صاف مطلب کیا ہے یہ کہ یہ سب کچھ سوچی سمجھی پالیسی اور سازش کا حصہ ہے جسے اب مزید سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں آج اس نازک صورتحال میں پھر یاد آئے ہیں جنرل ضیاءالحق....؟
اللہ غریق رحمت کرے جنرل ضیاءالحق شہید رحمہ اللہ کو کہ جس نے بلوچستان میں علیحدگی اور سندھ میں جئے سندھ کی شورش پر قابو پانے کے لئے ایسی حکمت عملی اختیار کی کہ دنیا حیران رہ گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دوراقتدار میں بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک آج سے کہیں زیادہ زوروں پر تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تمام مخالفین کو ”پکڑو اور مارو“ کی پالیسی کے تحت اول دن سے زیرعتاب رکھا ہوا تھا۔ یہی کچھ بلوچستان میں بھی کیا تو بڑے بڑے بلوچ سردار باغی ہو گئے، پھر فوجی آپریشن شروع کروا دیا گیا۔ ساتھ ہی حیدرآباد ٹریبونل قائم کر کے بلوچ سرداروں پر بغاوت اور غداری کے مقدمات شروع کر دیئے گئے۔ یوں ملک بھر میں افراتفری اور انارکی کا دور دورہ تھا۔ ساتھ ہی ہر حال اور ہر صورت میں صرف اور صرف اقتدار کے رسیا ذوالفقار علی بھٹو نے مخالفین کے خلاف طاقت کا مسلسل بے دریغ استعمال کیا۔ اسی دوران بھٹو نے اپنی زیرنگرانی انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج نکلوائے تو معاملہ اور بگڑ گیا اور پورا ملک فتنہ و فساد میں جلنے لگا۔
تھک ہار کرفوج کے سربراہ جنرل ضیاءالحق نے ملک کو سنبھالنے کا فیصلہ کیا جس کے چند ہی ماہ بعد ہر طرف مکمل امن و سکون ہو گیا۔ جنرل ضیاءالحق کیونکہ فوجی سربراہ تھے اور بلوچستان آپریشن کی حقیقت سے بخوبی واقف تھے۔ سو وہ سیدھے بلوچ سرداروں کے پاس جیل میں ان سے ملنے جا پہنچے، ان کے پاس بیٹھ کر دن کا کھانا کھایا اور عطاءاللہ مینگل، سردار مری، ولی خان وغیرہ کو نہ صرف رہا کر کے انہیں محب وطن کہہ کر پکارا بلکہ حیدرآباد ٹریبونل سرے سے ہی ختم کر دیا۔ دشمنوں نے اس پر بہت لے دے کی کہ غدار اور قاتل رہا کر دیئے گئے لیکن شہید ضیاءالحق نے صرف ملک کے مفاد کو پیش نظر رکھا اور کسی کی پرواہ نہ کی۔ ساتھ ہی انہوں نے ساری فوج بلوچستان سے واپس بلا لی۔ وہ دن اور پھر 25 سال، بلوچستان میں مکمل امن و سکون رہا۔ صوبے سے علیحدگی اور بغاوت کا سرے سے نام ہی ختم ہوکر رہ گیا تبھی تو ولی خان اپنی بیگم کے ہمراہ مٹھائیوں کے ٹوکرے لے کر اسلام آباد ایوان صدر پہنچے تھے۔ پھر جنرل پرویز مشرف کا منحوس دوراقتدار آیا اور 2003ءمیں ایک بار پھر بلوچستان میں بغاوت اور جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے جو آج اس حال تک جا پہنچے ہیں کہ امریکہ قرارداد تک لے آیا ہے۔ یہی جنرل ضیاءالحق تھے کہ جنہوں نے اس جئے سندھ تحریک کے بانی سربراہ جی ایم سید سے ان کے آبائی علاقے سن سندھ میں اس کے گھر جا کر ملاقات کی۔ اسے سینے سے لگایا اور وہاں ایسی گفتگو کی کہ وہ دن اور پھر 25 سال، سندھ میں ”جئے سندھ تحریک“ کا صرف نام رہ گیا اور کبھی کہیں کوئی علیحدگی کی بات تک نہ ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنرل ضیاءالحق شہید کو اس فہم و فراست سے نوازا تھا کہ انہوں نے اندرونی باغی عناصر کی دلجوئی کی اور انہیں اپنے ساتھ ملا لیا اور گیارہ سال تک مضبوط و مستحکم حکومت کی۔ خاموشی سے پاکستان کو اسلحے سے مالا مال کر دیا، پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا دیا، افغان جہاد کی پشت پناہی کر کے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے دل جیت لئے۔ اقوام متحدہ میں قرآن پاک کی پہلی بار تلاوت کروانے کا شرف حاصل کیا اور وہاں پوری اسلامی دنیا کی نمائندگی کی۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مضبوط و مستحکم حکومتوں کے پیچھے دراصل تحمل و درگزر کی پالیسی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی جاری کردہ تھی کہ
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
نظر یہی آتا ہے کہ ضیاءالحق شہید نے بھی عنان حکومت سنبھالنے کے بعد مخالفین پر پیار محبت کے ذریعے قابو پانے کے لئے یہ بے مثل فہم وفراست حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے لی تھی کہ یوں امن و آشتی کا ماحول قائم رہا۔ وگرنہ جس طرح اپنے آخری ایام حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے جیالے کارکنوں میں بے تحاشہ اسلحہ کی تقسیم شروع کر دی تھی کہ ایجنسیاں اور فورسز ناکام ہو گئی تھیں تو پھر ملک بھر میں خانہ جنگی اور خونریزی کا وہ بازار گرم ہوتا کہ دنیا تاریخ ہی بھول جاتی۔
اس دور کے جریدے ”زندگی“ کے شمارے آج بھی اٹھا کر دیکھ لیں کہ کس طرح اسلامی تحریکوں کے کارکنوں کو الف ننگا کر کے سرعام سڑکوں پر مارا جاتا تھا۔ ایک بڑے دینی قائد کے ساتھ جیل میں ایسا سلوک ہوا کہ انہیں جج کے سامنے یہ کہنا پڑا کہ میرے ساتھ جو بیتی ہے وہ میں عدالت میں بیان نہیں کر سکتا۔ جج صاحب! آپ کے ساتھ صرف تنہائی میں بیان کر سکتا ہوں۔ آج انہی اسلامی تحریکوں کے قائدین کو جنرل ضیاءالحق کے بارے میں ”تحفظات“ ہیں کہ جس نے ان سب کو آزادی کی نعمت کے ساتھ بہرہ ور کر کے ایک مضبوط و مستحکم پاکستان دیا تھا۔ کل کی بات ہے کہ پشاور میں مظاہرہ ہوا کہ 9ویں جماعت کی اسلامیات سے سورتیں خارج کر دی گئی ہیں۔ یہی کچھ پنجاب میں بھی ہوا ہے کہ نصابی کتب سے قرآنی سورتیں نکال دی گئی ہیں.... ذرا سوچیے! یہ سورتیں اور اسلامیات کی تدریس کا سلسلہ کس نے شروع کروایا تھا....؟ جنرل ضیاءالحق سے پہلے کا تعلیمی نصاب اور اس دور کے رسائل و جرائد اٹھا کر دیکھ لیں۔ سرشرم سے جھک جاتا ہے کہ ہمارے بچوں کو کیا پڑھایا اور کیا دکھایا جاتا تھا....؟ پریشانی اس بات کی ہے کہ جب 1977ءمیں پاکستان پر ایسا ہی مشکل وقت تھا تو اس وقت بھی پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور آج بھی حالات ویسے ہی ہیں، حکومت بھی انہی کی ہے تو دل یوں پکارتا ہے کہ ملک کو آج پھر ضیاءالحق ہی کی ضرورت ہے کہ جوپرامن طریقے سے سب کچھ ٹھیک کر دے۔ آج ”جمہوری دیوی“ کے دیوانوں کو تنکا بھی شہتیر نظر آتا ہے۔ آزاد میڈیا کا نعرہ ہر وقت ہر طرف گونجتا ہے لیکن اس نام کی آڑ میں جو پردے اور اندھیری راتوں کی گھٹا ٹوپ سیاہیاں ہر طرف طاری کر دی گئی ہیں، کسی کو ان کی کوئی پروا نہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ آج کتے کھلے ہیں اور پتھر بندھے ہوئے ہیں، لیکن کب تلک....؟
بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام۔۔۔علی اوڈراجپوت
alioad rajput
جی ہاں.... یہ ہے پاکستانی حکومت اور آزاد میڈیا کہ جو دفاع پاکستان کونسل پر دن رات اس لئے برستے ہیں کہ وہ ملک کے دفاع کی بات کیوں کرتے ہیں؟ اور کہتے پھرتے ہیں کہ ان کو کسی اور کی آشیر باد حاصل ہے۔ یہ تو ملک دوست ہو ہی نہیں سکتے لیکن جو کھلے عام سامنے آ کر سرکاری سکیورٹی میں ملک کے خلاف بات کرتے ہیں، ان پر نہ تو کہیں کوئی تنقید ہے اور نہ کوئی تبصرہ.... بلکہ انہیں ”محب وطن“ میڈیا بھرپور کوریج دے رہا ہے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ انہیں جس کی حمایت حاصل ہے اس کے اصل ترجمان تو ہمارے حکمران اور ہمارا ”آزاد میڈیا“ ہے۔
کیا مجال اور کیا کمال ہے اس جمہوریت اور آزاد میڈیا کا کہ جنہوں نے دن کو رات اور رات کو دن بنا رکھا ہے۔ آج ملک کا بڑا مسئلہ بلوچستان ہے کہ جس کے بارے میں امریکی کانگریس قرارداد تک پیش کر چکی ہے۔ امریکی حکومت پاکستانی احتجاج پر قرارداد واپس لینے، بحث نہ کروانے کی باتیں تو کرتی ہے لیکن تاحال ایسا کوئی عملی اقدام سامنے نہیں آیا جس کا صاف مطلب کیا ہے یہ کہ یہ سب کچھ سوچی سمجھی پالیسی اور سازش کا حصہ ہے جسے اب مزید سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں آج اس نازک صورتحال میں پھر یاد آئے ہیں جنرل ضیاءالحق....؟
اللہ غریق رحمت کرے جنرل ضیاءالحق شہید رحمہ اللہ کو کہ جس نے بلوچستان میں علیحدگی اور سندھ میں جئے سندھ کی شورش پر قابو پانے کے لئے ایسی حکمت عملی اختیار کی کہ دنیا حیران رہ گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دوراقتدار میں بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک آج سے کہیں زیادہ زوروں پر تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تمام مخالفین کو ”پکڑو اور مارو“ کی پالیسی کے تحت اول دن سے زیرعتاب رکھا ہوا تھا۔ یہی کچھ بلوچستان میں بھی کیا تو بڑے بڑے بلوچ سردار باغی ہو گئے، پھر فوجی آپریشن شروع کروا دیا گیا۔ ساتھ ہی حیدرآباد ٹریبونل قائم کر کے بلوچ سرداروں پر بغاوت اور غداری کے مقدمات شروع کر دیئے گئے۔ یوں ملک بھر میں افراتفری اور انارکی کا دور دورہ تھا۔ ساتھ ہی ہر حال اور ہر صورت میں صرف اور صرف اقتدار کے رسیا ذوالفقار علی بھٹو نے مخالفین کے خلاف طاقت کا مسلسل بے دریغ استعمال کیا۔ اسی دوران بھٹو نے اپنی زیرنگرانی انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج نکلوائے تو معاملہ اور بگڑ گیا اور پورا ملک فتنہ و فساد میں جلنے لگا۔
تھک ہار کرفوج کے سربراہ جنرل ضیاءالحق نے ملک کو سنبھالنے کا فیصلہ کیا جس کے چند ہی ماہ بعد ہر طرف مکمل امن و سکون ہو گیا۔ جنرل ضیاءالحق کیونکہ فوجی سربراہ تھے اور بلوچستان آپریشن کی حقیقت سے بخوبی واقف تھے۔ سو وہ سیدھے بلوچ سرداروں کے پاس جیل میں ان سے ملنے جا پہنچے، ان کے پاس بیٹھ کر دن کا کھانا کھایا اور عطاءاللہ مینگل، سردار مری، ولی خان وغیرہ کو نہ صرف رہا کر کے انہیں محب وطن کہہ کر پکارا بلکہ حیدرآباد ٹریبونل سرے سے ہی ختم کر دیا۔ دشمنوں نے اس پر بہت لے دے کی کہ غدار اور قاتل رہا کر دیئے گئے لیکن شہید ضیاءالحق نے صرف ملک کے مفاد کو پیش نظر رکھا اور کسی کی پرواہ نہ کی۔ ساتھ ہی انہوں نے ساری فوج بلوچستان سے واپس بلا لی۔ وہ دن اور پھر 25 سال، بلوچستان میں مکمل امن و سکون رہا۔ صوبے سے علیحدگی اور بغاوت کا سرے سے نام ہی ختم ہوکر رہ گیا تبھی تو ولی خان اپنی بیگم کے ہمراہ مٹھائیوں کے ٹوکرے لے کر اسلام آباد ایوان صدر پہنچے تھے۔ پھر جنرل پرویز مشرف کا منحوس دوراقتدار آیا اور 2003ءمیں ایک بار پھر بلوچستان میں بغاوت اور جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے جو آج اس حال تک جا پہنچے ہیں کہ امریکہ قرارداد تک لے آیا ہے۔ یہی جنرل ضیاءالحق تھے کہ جنہوں نے اس جئے سندھ تحریک کے بانی سربراہ جی ایم سید سے ان کے آبائی علاقے سن سندھ میں اس کے گھر جا کر ملاقات کی۔ اسے سینے سے لگایا اور وہاں ایسی گفتگو کی کہ وہ دن اور پھر 25 سال، سندھ میں ”جئے سندھ تحریک“ کا صرف نام رہ گیا اور کبھی کہیں کوئی علیحدگی کی بات تک نہ ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنرل ضیاءالحق شہید کو اس فہم و فراست سے نوازا تھا کہ انہوں نے اندرونی باغی عناصر کی دلجوئی کی اور انہیں اپنے ساتھ ملا لیا اور گیارہ سال تک مضبوط و مستحکم حکومت کی۔ خاموشی سے پاکستان کو اسلحے سے مالا مال کر دیا، پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا دیا، افغان جہاد کی پشت پناہی کر کے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے دل جیت لئے۔ اقوام متحدہ میں قرآن پاک کی پہلی بار تلاوت کروانے کا شرف حاصل کیا اور وہاں پوری اسلامی دنیا کی نمائندگی کی۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مضبوط و مستحکم حکومتوں کے پیچھے دراصل تحمل و درگزر کی پالیسی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی جاری کردہ تھی کہ
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
نظر یہی آتا ہے کہ ضیاءالحق شہید نے بھی عنان حکومت سنبھالنے کے بعد مخالفین پر پیار محبت کے ذریعے قابو پانے کے لئے یہ بے مثل فہم وفراست حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے لی تھی کہ یوں امن و آشتی کا ماحول قائم رہا۔ وگرنہ جس طرح اپنے آخری ایام حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے جیالے کارکنوں میں بے تحاشہ اسلحہ کی تقسیم شروع کر دی تھی کہ ایجنسیاں اور فورسز ناکام ہو گئی تھیں تو پھر ملک بھر میں خانہ جنگی اور خونریزی کا وہ بازار گرم ہوتا کہ دنیا تاریخ ہی بھول جاتی۔
اس دور کے جریدے ”زندگی“ کے شمارے آج بھی اٹھا کر دیکھ لیں کہ کس طرح اسلامی تحریکوں کے کارکنوں کو الف ننگا کر کے سرعام سڑکوں پر مارا جاتا تھا۔ ایک بڑے دینی قائد کے ساتھ جیل میں ایسا سلوک ہوا کہ انہیں جج کے سامنے یہ کہنا پڑا کہ میرے ساتھ جو بیتی ہے وہ میں عدالت میں بیان نہیں کر سکتا۔ جج صاحب! آپ کے ساتھ صرف تنہائی میں بیان کر سکتا ہوں۔ آج انہی اسلامی تحریکوں کے قائدین کو جنرل ضیاءالحق کے بارے میں ”تحفظات“ ہیں کہ جس نے ان سب کو آزادی کی نعمت کے ساتھ بہرہ ور کر کے ایک مضبوط و مستحکم پاکستان دیا تھا۔ کل کی بات ہے کہ پشاور میں مظاہرہ ہوا کہ 9ویں جماعت کی اسلامیات سے سورتیں خارج کر دی گئی ہیں۔ یہی کچھ پنجاب میں بھی ہوا ہے کہ نصابی کتب سے قرآنی سورتیں نکال دی گئی ہیں.... ذرا سوچیے! یہ سورتیں اور اسلامیات کی تدریس کا سلسلہ کس نے شروع کروایا تھا....؟ جنرل ضیاءالحق سے پہلے کا تعلیمی نصاب اور اس دور کے رسائل و جرائد اٹھا کر دیکھ لیں۔ سرشرم سے جھک جاتا ہے کہ ہمارے بچوں کو کیا پڑھایا اور کیا دکھایا جاتا تھا....؟ پریشانی اس بات کی ہے کہ جب 1977ءمیں پاکستان پر ایسا ہی مشکل وقت تھا تو اس وقت بھی پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور آج بھی حالات ویسے ہی ہیں، حکومت بھی انہی کی ہے تو دل یوں پکارتا ہے کہ ملک کو آج پھر ضیاءالحق ہی کی ضرورت ہے کہ جوپرامن طریقے سے سب کچھ ٹھیک کر دے۔ آج ”جمہوری دیوی“ کے دیوانوں کو تنکا بھی شہتیر نظر آتا ہے۔ آزاد میڈیا کا نعرہ ہر وقت ہر طرف گونجتا ہے لیکن اس نام کی آڑ میں جو پردے اور اندھیری راتوں کی گھٹا ٹوپ سیاہیاں ہر طرف طاری کر دی گئی ہیں، کسی کو ان کی کوئی پروا نہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ آج کتے کھلے ہیں اور پتھر بندھے ہوئے ہیں، لیکن کب تلک....؟
بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام۔۔۔علی اوڈراجپوت
alioad rajput