ضیاءالحق کی پھر ضرورت ہے

کہتے ہیں کہ شیخ سعدی ایک مرتبہ کسی دوسرے شہر گئے۔ اجنبی پا کر اس شہر کے کتے ان پر بھونکے اور ان کی طرف لپکے تو انہوں نے بچنے کے لئے زمین سے پتھر اٹھانا چاہا کہ کتوں کو ماروں.... لیکن پتھر زمین میں دھنسا ہوا تھا ،سو اٹھایا نہ جا سکا تو انہوں نے بے ساختہ کہا کہ ”عجیب شہر ہے، یہاں کتے آزاد ہیں اور پتھر بندھے ہوئے ہیں“ شیخ سعدی کی یہ بات ہمیں آج اس موقع پر یاد آئی ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے معروف ترین مقام تبت سنٹر شاہراہ قائدین پر اتوار کے روز ”جئے سندھ“ نامی تنظیم نے صوبہ بھر سے پوری قوت استعمال کر کے لگ بھگ 3 سو لوگ جمع کئے اور پھر وہاں کھلے عام پاکستان سے علیحدگی کے نعرے بلند کرنے شروع کر دیئے۔ تحریک کے ایک لیڈر ڈاکٹر صفدر سرکی نے کہا کہ سندھ کی ”آزادی“ کے لئے ریفرنڈم کرایا جائے۔ آئندہ انتخابات میں وہ تحریک چلائیں گے کہ سندھ کے عوام اقتدار کے لئے نہیں، سندھ کی آزادی کے لئے ووٹ دیں۔ خودارادیت ہمارا بنیادی حق ہے۔ ہم 1940ءکی قرارداد کو تسلیم نہیں کرتے۔ سندھ کی 1843ءسے پہلے کی صورتحال بحال کی جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس موقع پر قوم پرستوں نے جدید اسلحہ بھی اٹھا رکھا تھا جسے وہ کھلے عام لہراتے رہے اور پولیس ان کا تماشہ دیکھتی رہی۔
جی ہاں.... یہ ہے پاکستانی حکومت اور آزاد میڈیا کہ جو دفاع پاکستان کونسل پر دن رات اس لئے برستے ہیں کہ وہ ملک کے دفاع کی بات کیوں کرتے ہیں؟ اور کہتے پھرتے ہیں کہ ان کو کسی اور کی آشیر باد حاصل ہے۔ یہ تو ملک دوست ہو ہی نہیں سکتے لیکن جو کھلے عام سامنے آ کر سرکاری سکیورٹی میں ملک کے خلاف بات کرتے ہیں، ان پر نہ تو کہیں کوئی تنقید ہے اور نہ کوئی تبصرہ.... بلکہ انہیں ”محب وطن“ میڈیا بھرپور کوریج دے رہا ہے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ انہیں جس کی حمایت حاصل ہے اس کے اصل ترجمان تو ہمارے حکمران اور ہمارا ”آزاد میڈیا“ ہے۔
کیا مجال اور کیا کمال ہے اس جمہوریت اور آزاد میڈیا کا کہ جنہوں نے دن کو رات اور رات کو دن بنا رکھا ہے۔ آج ملک کا بڑا مسئلہ بلوچستان ہے کہ جس کے بارے میں امریکی کانگریس قرارداد تک پیش کر چکی ہے۔ امریکی حکومت پاکستانی احتجاج پر قرارداد واپس لینے، بحث نہ کروانے کی باتیں تو کرتی ہے لیکن تاحال ایسا کوئی عملی اقدام سامنے نہیں آیا جس کا صاف مطلب کیا ہے یہ کہ یہ سب کچھ سوچی سمجھی پالیسی اور سازش کا حصہ ہے جسے اب مزید سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں آج اس نازک صورتحال میں پھر یاد آئے ہیں جنرل ضیاءالحق....؟
اللہ غریق رحمت کرے جنرل ضیاءالحق شہید رحمہ اللہ کو کہ جس نے بلوچستان میں علیحدگی اور سندھ میں جئے سندھ کی شورش پر قابو پانے کے لئے ایسی حکمت عملی اختیار کی کہ دنیا حیران رہ گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دوراقتدار میں بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک آج سے کہیں زیادہ زوروں پر تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تمام مخالفین کو ”پکڑو اور مارو“ کی پالیسی کے تحت اول دن سے زیرعتاب رکھا ہوا تھا۔ یہی کچھ بلوچستان میں بھی کیا تو بڑے بڑے بلوچ سردار باغی ہو گئے، پھر فوجی آپریشن شروع کروا دیا گیا۔ ساتھ ہی حیدرآباد ٹریبونل قائم کر کے بلوچ سرداروں پر بغاوت اور غداری کے مقدمات شروع کر دیئے گئے۔ یوں ملک بھر میں افراتفری اور انارکی کا دور دورہ تھا۔ ساتھ ہی ہر حال اور ہر صورت میں صرف اور صرف اقتدار کے رسیا ذوالفقار علی بھٹو نے مخالفین کے خلاف طاقت کا مسلسل بے دریغ استعمال کیا۔ اسی دوران بھٹو نے اپنی زیرنگرانی انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج نکلوائے تو معاملہ اور بگڑ گیا اور پورا ملک فتنہ و فساد میں جلنے لگا۔
تھک ہار کرفوج کے سربراہ جنرل ضیاءالحق نے ملک کو سنبھالنے کا فیصلہ کیا جس کے چند ہی ماہ بعد ہر طرف مکمل امن و سکون ہو گیا۔ جنرل ضیاءالحق کیونکہ فوجی سربراہ تھے اور بلوچستان آپریشن کی حقیقت سے بخوبی واقف تھے۔ سو وہ سیدھے بلوچ سرداروں کے پاس جیل میں ان سے ملنے جا پہنچے، ان کے پاس بیٹھ کر دن کا کھانا کھایا اور عطاءاللہ مینگل، سردار مری، ولی خان وغیرہ کو نہ صرف رہا کر کے انہیں محب وطن کہہ کر پکارا بلکہ حیدرآباد ٹریبونل سرے سے ہی ختم کر دیا۔ دشمنوں نے اس پر بہت لے دے کی کہ غدار اور قاتل رہا کر دیئے گئے لیکن شہید ضیاءالحق نے صرف ملک کے مفاد کو پیش نظر رکھا اور کسی کی پرواہ نہ کی۔ ساتھ ہی انہوں نے ساری فوج بلوچستان سے واپس بلا لی۔ وہ دن اور پھر 25 سال، بلوچستان میں مکمل امن و سکون رہا۔ صوبے سے علیحدگی اور بغاوت کا سرے سے نام ہی ختم ہوکر رہ گیا تبھی تو ولی خان اپنی بیگم کے ہمراہ مٹھائیوں کے ٹوکرے لے کر اسلام آباد ایوان صدر پہنچے تھے۔ پھر جنرل پرویز مشرف کا منحوس دوراقتدار آیا اور 2003ءمیں ایک بار پھر بلوچستان میں بغاوت اور جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے جو آج اس حال تک جا پہنچے ہیں کہ امریکہ قرارداد تک لے آیا ہے۔ یہی جنرل ضیاءالحق تھے کہ جنہوں نے اس جئے سندھ تحریک کے بانی سربراہ جی ایم سید سے ان کے آبائی علاقے سن سندھ میں اس کے گھر جا کر ملاقات کی۔ اسے سینے سے لگایا اور وہاں ایسی گفتگو کی کہ وہ دن اور پھر 25 سال، سندھ میں ”جئے سندھ تحریک“ کا صرف نام رہ گیا اور کبھی کہیں کوئی علیحدگی کی بات تک نہ ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنرل ضیاءالحق شہید کو اس فہم و فراست سے نوازا تھا کہ انہوں نے اندرونی باغی عناصر کی دلجوئی کی اور انہیں اپنے ساتھ ملا لیا اور گیارہ سال تک مضبوط و مستحکم حکومت کی۔ خاموشی سے پاکستان کو اسلحے سے مالا مال کر دیا، پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا دیا، افغان جہاد کی پشت پناہی کر کے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے دل جیت لئے۔ اقوام متحدہ میں قرآن پاک کی پہلی بار تلاوت کروانے کا شرف حاصل کیا اور وہاں پوری اسلامی دنیا کی نمائندگی کی۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مضبوط و مستحکم حکومتوں کے پیچھے دراصل تحمل و درگزر کی پالیسی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی جاری کردہ تھی کہ
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
نظر یہی آتا ہے کہ ضیاءالحق شہید نے بھی عنان حکومت سنبھالنے کے بعد مخالفین پر پیار محبت کے ذریعے قابو پانے کے لئے یہ بے مثل فہم وفراست حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے لی تھی کہ یوں امن و آشتی کا ماحول قائم رہا۔ وگرنہ جس طرح اپنے آخری ایام حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے جیالے کارکنوں میں بے تحاشہ اسلحہ کی تقسیم شروع کر دی تھی کہ ایجنسیاں اور فورسز ناکام ہو گئی تھیں تو پھر ملک بھر میں خانہ جنگی اور خونریزی کا وہ بازار گرم ہوتا کہ دنیا تاریخ ہی بھول جاتی۔
اس دور کے جریدے ”زندگی“ کے شمارے آج بھی اٹھا کر دیکھ لیں کہ کس طرح اسلامی تحریکوں کے کارکنوں کو الف ننگا کر کے سرعام سڑکوں پر مارا جاتا تھا۔ ایک بڑے دینی قائد کے ساتھ جیل میں ایسا سلوک ہوا کہ انہیں جج کے سامنے یہ کہنا پڑا کہ میرے ساتھ جو بیتی ہے وہ میں عدالت میں بیان نہیں کر سکتا۔ جج صاحب! آپ کے ساتھ صرف تنہائی میں بیان کر سکتا ہوں۔ آج انہی اسلامی تحریکوں کے قائدین کو جنرل ضیاءالحق کے بارے میں ”تحفظات“ ہیں کہ جس نے ان سب کو آزادی کی نعمت کے ساتھ بہرہ ور کر کے ایک مضبوط و مستحکم پاکستان دیا تھا۔ کل کی بات ہے کہ پشاور میں مظاہرہ ہوا کہ 9ویں جماعت کی اسلامیات سے سورتیں خارج کر دی گئی ہیں۔ یہی کچھ پنجاب میں بھی ہوا ہے کہ نصابی کتب سے قرآنی سورتیں نکال دی گئی ہیں.... ذرا سوچیے! یہ سورتیں اور اسلامیات کی تدریس کا سلسلہ کس نے شروع کروایا تھا....؟ جنرل ضیاءالحق سے پہلے کا تعلیمی نصاب اور اس دور کے رسائل و جرائد اٹھا کر دیکھ لیں۔ سرشرم سے جھک جاتا ہے کہ ہمارے بچوں کو کیا پڑھایا اور کیا دکھایا جاتا تھا....؟ پریشانی اس بات کی ہے کہ جب 1977ءمیں پاکستان پر ایسا ہی مشکل وقت تھا تو اس وقت بھی پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور آج بھی حالات ویسے ہی ہیں، حکومت بھی انہی کی ہے تو دل یوں پکارتا ہے کہ ملک کو آج پھر ضیاءالحق ہی کی ضرورت ہے کہ جوپرامن طریقے سے سب کچھ ٹھیک کر دے۔ آج ”جمہوری دیوی“ کے دیوانوں کو تنکا بھی شہتیر نظر آتا ہے۔ آزاد میڈیا کا نعرہ ہر وقت ہر طرف گونجتا ہے لیکن اس نام کی آڑ میں جو پردے اور اندھیری راتوں کی گھٹا ٹوپ سیاہیاں ہر طرف طاری کر دی گئی ہیں، کسی کو ان کی کوئی پروا نہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ آج کتے کھلے ہیں اور پتھر بندھے ہوئے ہیں، لیکن کب تلک....؟

بشکریہ ہفت روزہ جرار
والسلام۔۔۔علی اوڈراجپوت
alioad rajput
 
پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ہر وہ کام کر رہی ہے جس سے پاکستان کی تباہی و بربادی کا عمل یقینی بنایا جاسکے۔۔۔اگر صرف معاشی حوالے سے ہی بات کی جائے تو جس ملک کی منڈیاں ہمسایہ ملک یعنی چائینہ کے مال سے بھری ہوئی ہوں ان منڈیوں تک ایک اور ملک یعنی انڈیا کو بھی مکمل رسائی دے دینا اورپھر لوکل صنعتوں کو مکمل طور پر ختم کرنے کیلئے گیس اور بجلی کی مصنوعی قلت کا بحران قائم کرنا اور ہر ماہ بجلی کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ کرتے جانا۔۔۔۔تاکہ یہ ملک صرف غیر ملکی مال کی منڈی بن کر رہ جائے اور یہاں کے باسی بتدریج خط غربت کی سطح سے نچے دھکیل دئے جائیں۔۔۔ایسا ہی ہورہا ہے اور ایسا صرف ملک دشمن عنصر ہی کر سکتے ہیں کسی محب وطن کا یہ کام نہیں ہوسکتا۔۔۔
پھر وہی ہم ہیں وہی تیشہ و رسوائی ہے
دودھ کی نہر تو پرویز کے کام آئی ہے
 

mfdarvesh

محفلین
پی پی حکومت کا ٹریک ریکارڈ ایسا ہے، مشرقی پاکستان سے لے کر اب تک، ہمیشہ پاکستان توڑنے کی ہی بات کی ہے یہی بات بی بی کے قتل پہ ذوالفقار مرزا کہہ چکے ہیں
 

زیک

مسافر
کیا آپ میں سے کوئی بھی ضیاء دور میں نہیں تھا؟ سندھ میں ضیاء الحق امن کب لایا تھا؟
 

ساجد

محفلین
سیاسی مسائل سیاسی طریقے سے حل کرنا چاہئیں۔خدا نہ کرے کہ ہماری قوم کو ایک اور ضیاء سے واسطہ پڑے۔ آج پاکستان میں شدت پسندی کا جو دور دورہ ہے یہ انہی مرحوم کی پالیسیوں کا ثمر ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
یعنی کہ مزید ایک الطاف حسین، ایک اور نواز شریف۔ نہ بابا نہ۔
یعنی الطاف اور نواز میں کوئی فرق ہی نہیں :?:
1۔ نواز شریف نے ایٹمی دھماکہ کا فیصلہ کرکے پاکستان کوایٹمی قوت بنایا اور "سزا" کے طور پر جلاوطن ہوا

2۔ الطاف حسین نے "منی پاکستان" کو تقسیم در تقسیم کرکے پورے کراچی کو بارود کے دہانے پر لا کھڑا کیا اور بمبئی مافیا جیسی "کراچی مافیا" تشکیل دی۔

3۔ نواز اور الطاف دونوں یقینا" ضیاء الحق کی پیداوار ہیں۔ لیکن الطاف اور ایم کیو ایم کی تشکیل پر ضیاء الحق شہید شرمندہ تھے جبکہ نواز شریف کے ذریعہ انہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت ڈیکلیئر کروایا، جو یہود و ہنود اور ان کے پاکستانی "خیر خواہوں" کو آج بھی "گوارا" نہیں۔
4۔ ضیاءالحق نے پاکستان کو بھٹو جیسے شرمناک دور حکومت سے نجات دلائی۔ جو دینا کا واحد سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھا۔ جس نے پاکستان میں اپنی ہی پارٹی کے بانیوں پر ظلم و ستم کا آغآز کیا۔ ضیا الحق ہی کے دور میں ایٹمی پروجیکٹ اس طرح مکمل ہوا کہ سپر پاورز کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ ضیا ء الحق نے پاکستان آرمی کو مستحکم کیا، جس نے پس پردہ رہ کر دنیا کی دوسری بڑی عالمی قوت سویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں لیڈنگ رول ادا کیا۔

5۔ پاکستان کا واحد حکمران جو پنج وقتہ نمازی ہی نہیں بلکہ تہجد گزار بھی تھا۔ ضیاء الحق شہید کے چاربڑے کارنامے (1۔ آرمی کو مضبوط بنانا،2۔ ایٹمی پاور بنانا 3۔ افغانستان میں حملہ آور سویت یونین کو اس طرح ماربھگانا کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا 4۔ پاکستان کے آئین کو اسلامائز کرنا ) اتنے عظیم کارنامے کارنامے ہیں کہ ان کے آگے مرحوم کے سو خون بھی معاف کئے جاسکتے ہیں۔ خواہ وہ ایم کیو ایم کی تشکیل ہو، جی اے سندھ کی حوصلہ افزائی ہو (پی پی پی کے مقابلہ کی غیر دانشمندانہ حکمت عملی)، پاکستان میں پیروئین اور کلاشنکوف کلچر کا فروغ ہو ، یہ سب اس کے عظیم کام کے "سائیڈ افیکٹس" ہیں۔

6۔ اگر پاکستان ایٹمی قوت نہ بنتا اور سویت یونین نہ ٹوٹتا تو سویت آرمی کابل تک نہ رکتی بلکہ گرم پانیوں کی تلاش مین کراچی تک پہنچ چکی ہوتی اور اب تک پاکستان کا وہی حشر ہوچکا ہوتا جو اس نے وسط ایشیائی مسلمان ریاستوں کا کیا تھا۔ آج وہ آزاد ہونے کے باوجود "مسلم شناخت" سے محروم ہیں۔ وہاں آج بھی قرآن کا مقامی زبان میں ترجمہ شائع کرنا جرم ہے۔

7۔ پاکستان ایٹمی طاقت نہ بنتا تو اسی 80 ء کی دہائی میں بھارت پاکستان پر حملہ کرچکا ہوتا اور سندھ میں ایم کیو ایم اور جے سندھ اور بلوچستان میں قوم پرست قوتیں بھارتی آرمی کا اسی طرح استقبال کرتیں جیسے مرحوم مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے کیا تھا۔

سچ ہے، ہم پاکستانی اپنے اصل ہیروز کو پہچاننے سے ہنوز قاصر ہیں کہ کون سا حکمران پاکستان کو مضبوط اور مستحکم بنا گیا اور کون سا حکمران اسے دو ٹکڑے اور کمزور سے کمزور تر کر گیا۔
 

یوسف-2

محفلین
ضیاءالحق شہید رحمہ اللہ؟کچھ بات سمجھ میں نہیں آئی
اگر کوئی کلمہ گو مسلمان جو پنج وقتہ نمازی اور جملہ اسلامی فرائض ادا کرنے والا ہو اور وہ دہشت گردی کے حملہ میں مارا جائے تو شریعت اسلامی کی رو سے وہ شہید ہوتا ہے۔ ضیاء الحق جہاد افغانستان کا غازی بھی تھا اور دہشت گردی میں اعلیٰ فوجی قیادت کے ساتھ جان دینے والا شہید بھی۔

نوٹ: شریعت اسلامی کا قانون "ظاہری شواہد" کی بنیاد پر ہی کسی کو مسلمان، اور شہید (وغیرہ) قرار دیتا ہے۔ ورنی اصل فیصلہ تو روز محشر اللہ تعالیٰ ہی کریں گے۔ اسی طرح کسی مسلمان کے "ظاہری بیان و عمل" کی بنیاد پر ہی اسے مرتد یا کافر ڈیکلیئر کیا جاتا ہے۔ دلون کا معاملہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔
 
اگر کوئی کلمہ گو مسلمان جو پنج وقتہ نمازی اور جملہ اسلامی فرائض ادا کرنے والا ہو اور وہ دہشت گردی کے حملہ میں مارا جائے تو شریعت اسلامی کی رو سے وہ شہید ہوتا ہے
یہاں تو ٹھیک ہے
ضیاء الحق جہاد افغانستان کا غازی بھی تھا اور دہشت گردی میں اعلیٰ فوجی قیادت کے ساتھ جان دینے والا شہید بھی۔
حسیب کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں :battingeyelashes:
 

یوسف-2

محفلین
یہاں تو ٹھیک ہے

حسیب کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں :battingeyelashes:
وہاں تک بھی ٹھیک ہوجائے گا ان شاء اللہ :biggrin:
حسیب بھائی!
یہ غالبا" واحد اردو فورم ہے، جہاں کسی کی رائے سے "غیر متفق" ہونے کا بھی آپشن موجود ہے۔ لہٰذا ہم ایک دوسرے کی رائے سے متفق بھی ہوسکتے ہیں اور غیر متفق بھی ۔ میں آپ سے اور آپ مجھ سے غیر متفق ہوسکتے ہیں۔ اختلافی رائے اگر دلیل اور شواہد کی بنیاد پر پیش کی جائے تو یہ ایک احسن فعل ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
اگر کوئی کلمہ گو مسلمان جو پنج وقتہ نمازی اور جملہ اسلامی فرائض ادا کرنے والا ہو اور وہ دہشت گردی کے حملہ میں مارا جائے تو شریعت اسلامی کی رو سے وہ شہید ہوتا ہے۔ ضیاء الحق جہاد افغانستان کا غازی بھی تھا اور دہشت گردی میں اعلیٰ فوجی قیادت کے ساتھ جان دینے والا شہید بھی۔

نوٹ: شریعت اسلامی کا قانون "ظاہری شواہد" کی بنیاد پر ہی کسی کو مسلمان، اور شہید (وغیرہ) قرار دیتا ہے۔ ورنی اصل فیصلہ تو روز محشر اللہ تعالیٰ ہی کریں گے۔ اسی طرح کسی مسلمان کے "ظاہری بیان و عمل" کی بنیاد پر ہی اسے مرتد یا کافر ڈیکلیئر کیا جاتا ہے۔ دلون کا معاملہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔
مضمون سے ہٹنے کے لئے معذرت، آپکا صدام حسین کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آخری وقت میں اس نے بھی داڑھی رکھ لی تھی اور خاصا نمازی ہو گیا تھا۔ کیا اس کو بھی شہید کہنا چاہیے؟
 

یوسف-2

محفلین
مضمون سے ہٹنے کے لئے معذرت، آپکا صدام حسین کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آخری وقت میں اس نے بھی داڑھی رکھ لی تھی اور خاصا نمازی ہو گیا تھا۔ کیا اس کو بھی شہید کہنا چاہیے؟
اسلام کا اصول یہ ہے کہ اگر کوئی آثار موت طاری ہونے سے قبل سچے دل سے اللہ سے توبہ کرلے تو اللہ اس کے سارے گناہ معاف کرسکتا ہے۔

داڑھی تو سکھ بھی رکھتے ہیں اور نماز تو منافقین بھی پڑھتے ہیں۔اور اب تو غیر مسلم بھی ’’شہید‘‘ کہلائے جاتے ہیں۔ اور مسلمانوں میں اسے بھی ’’شہید‘‘ کہا جانے لگا ہے جو قتل کے جرم میں اعلیٰ عدالتوں سے پھانسی کی سزا پا لے۔

آپ کو خاص طور سے صدام حسین کے بارے میں کوئی ’’فتویٰ‘‘ درکار ہو تو اپنے مسلک کے دارالفتویٰ سے رجوع کیجئے۔ حسب منشا فتویٰ مل جائے گا :biggrin:
 

سید ذیشان

محفلین
اسلام کا اصول یہ ہے کہ اگر کوئی آثار موت طاری ہونے سے قبل سچے دل سے اللہ سے توبہ کرلے تو اللہ اس کے سارے گناہ معاف کرسکتا ہے۔

داڑھی تو سکھ بھی رکھتے ہیں اور نماز تو منافقین بھی پڑھتے ہیں۔اور اب تو غیر مسلم بھی ’’شہید‘‘ کہلائے جاتے ہیں۔ اور مسلمانوں میں اسے بھی ’’شہید‘‘ کہا جانے لگا ہے جو قتل کے جرم میں اعلیٰ عدالتوں سے پھانسی کی سزا پا لے۔

آپ کو خاص طور سے صدام حسین کے بارے میں کوئی ’’فتویٰ‘‘ درکار ہو تو اپنے مسلک کے دارالفتویٰ سے رجوع کیجئے۔ حسب منشا فتویٰ مل جائے گا :biggrin:
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ نے ضیاءالحق کو "شہید" کہلائے جانے کے لئے اپنے مسلک کے دارالافتاء سے فتویٰ لیا ہے؟ اگر ایسا نہ ہوتا تو مجھے صدام کے سلسلے میں ایسا کرنے کا مشورہ نہ دیتے۔ کیا میں یہ فتویٰ دیکھ سکتا ہوں؟
 
Top