کاشفی
محفلین
ضیاءپیپلزپارٹی سے جو نہ کراسکےوہ بھٹو کے داماد نےکردیا
اسلام آباد (ظفر ملک)17اگست1988 کی سہ پہر 3بجکر58منٹ پر پاک فضائیہ کے ”پاک ون“ نامی سی130 طیارہ بہاولپور کے قریب خیر پور ٹامیوالی کے مقام پر گر کر تباہ ہو گیا، اس طیارے میںاس وقت کے صدر پاکستان جنرل محمد ضیاءالحق اور ان کے رفقاءسوار تھے، امریکی سفیر رابن رافیل بھی ان کے ہمراہ سفر آخرت اختیار کرنے والوں میں شامل تھے۔ ربع صدی گذر چکی لیکن جنرل ضیاءالحق کی اختیار کردہ پالیسیوں کا آسیب آج بھی پاکستانی قوم کا پیچھا کر رہا ہے، جنرل ضیاءنے اپنے گیارہ سالہ دور میں بے شمار فیصلے کیے جن میں کئی فیصلوں نے قوم کے مستقبل پر دور رس اثرات مرتب کیے، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ اس دور کے سیاسی فیصلوں میں سب سے متنازعہ فیصلہ تھا جس نے پیپلز پارٹی اور بھٹو ازم کے جن کو ایسا بے قابو کیا کہ کہ اسے بوتل میں بند کرنے میں 25سال لگ گئے لیکن اس کا کریڈٹ بھی بھٹو کے داماد آصف علی زرداری کو جاتا ہے، ضیاءالحق کی باقیات میں سے کوئی اس اعزاز کو حاصل نہ کر سکا۔ یہ پیپلز پارٹی ہی تھی جس کا راستہ روکنے کے لیے جنرل ضیاءنے 1985میں غیر جماعتی انتخابات کا تجربہ کیا، بیشتر سیاسی کارکن اس عمل سے باہر ہو گئے، رہی سہی کسر آرٹیکل 62اور 63 نے پوری کر دی جو جنرل ضیاءنے آئین میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے داخل کی تھیں، لیکن اپنے نام کے ساتھ ”حاجی “کا لاحقہ لگا کر انتخابی میدان میں کودنے والے بعض ایسے بھی تھے جنہں نے محض ایک دنیاوی رسم کے طور پر یہ فریضہ ادا کر رکھا تھا اور اس کے ان کی زندگی پر دور دور تک کوئی اثرات نہ تھے۔جنرل ضیاءنے دینی جماعتوںکو اپنے عزائم اور مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا ، وہ سیاست کاروں سے سخت متنفر تھے، یہ وجہ ہے کہ جب انہیں ایک بار کسی نے سیاسی رہنماو¿ں کی اہمیت کی جانب توجہ دلائی تو انہوں نے جواب دیا ” میں جب چاہوں گا یہ میرے پیچھے دم ہلاتے آئیں گے“۔ سانحہ اوجڑی کیمپ کے بعد رپورٹ منظر عام پر لانے اورذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنے کا ارادہ ظاہر کرنے پر جنرل ضیاءنے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو بیک بینی و دو گوش حکومت سے نکال باہر کیا، آئین میں آرٹیکل58(2) بی انہوں نے اسی مقصد کے لیے رکھوائی تھی، جنرل ضیاءنے 90دن میں انتخابات کے حوالے سے آئین کی یہ تشریح متعارف کرائی کہ 90دن میں انتخابات نہیںبلکہ90دن میں تاریخ کا اعلان ضروری ہے۔ جنرل ضیاءایک ریفرنڈم کے ذریعے ملک کے صدر بن گئے، ریفرنڈم کا سوال ایسا تھا کہ کوئی بھی ہوشمند پاکستانی اس کا جواب نہ میں نہیں دے سکتا تھا،کیا آپ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی مملکت دیکھنا چاہتے ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو جنرل ضیاءالحق آئندہ پانچ سال کے لیے ملک کے صدر ہوں گے، پولنگ سٹیشن ویران رہے اور بیلٹ باکس بھر گئے، اور جنرل ضیاءکی حمایت میں 98فیصد ووٹ نکلے ۔ جنرل ضیاءالحق نے پاکستان کے اسلامی تشخص کو ایک نعرے کے طور پر فروغ دیا اور اسے اپنا عرصہ اقتدار بڑھانے کے لیے استعمال کیا،دفاتر میں نماز کا وقفہ اور نماز باجماعت کا اہتمام ضروری ہو گیا، وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی، واحد نیوز چینل سرکاری ٹی وی پر نیوز اینکرز بلیٹن کا آغاز بسم اللہ سے کرنے لگے، انہی دنوں ٹی وی کی ایک مقبول پروگرام کی خاتون اینکر نے دوپٹہ لازمی کرنے کی پالیسی کو چیلنج کیا انہوں نے کیئرئر ترک کر دیا اور کہا کہ ”میں اگر عام زندگی میں دوپٹہ نہیں لیتی تو محض ٹی سکرین پر دوپٹہ اوڑھنا منافقت ہو گی“۔ ایک طرف تو جنرل ضیاءپانچ وقت کے نمازی تھے، سفر میں بھی نماز قضا نہ ہوتی، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے ائر پورٹ کی جانب جاتے ہوئے ہائی وے پر ضیاءمسجد اسی دور کی یادگار ہے کیونکہ سفر لمبا ہونے کی وجہ سے نماز میں تاخیر انہیں برادشت نہ تھی۔جنرل ضیاءنے اپنا ایک حلقہءاثر پید اکیا جسے اسلام پسند کہا جا سکتا ہے، انہوں نے قراداد مقاصد کو آئین پاکستان کا فعال حصہ بنا دیا، ہر سرکاری تقریب کا آغاز تلاوت اورنعت سے ہوتا تھا، نعت خوانوں اور قاری حضرات نے سرکاری خزانے سے جی بھر کے حج اور عمرے کیے ۔دوسری جانب بالی وڈ کے اس زمانے کے بڑے ولن شترو گھن سنہا جنرل ضیاءکے ذاتی مہمان کے طور پر ایوان صدر میں کئی کئی روز تک ٹھہرتے رہے ، مسرت نذیر کا گانا ”میرا لونگ گواچا“ انہی دنوں مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچا اور جنرل ضیاءبھی ان کے مداحوں میں شامل تھے۔سیاچن پر بھارتی قبضہ بھی اسی دور میں ہوااور ” سیاچن پرتو گھاس کی پتی بھی نہیں اگتی“ جیسا جملہ جنرل ضیاءسے منسوب ہوا، کرکٹ ڈپلومیسی کے ذریعے انہوں نے تب بھارت وزیر اعظم راجیو گاندہی کو زچ کر دیا۔یہ کوئی انہونی نہیں تھی کہ ان کے دور میںسوویت یونین افغانستان میں گھس بیٹھا اور پھر جنرل ضیاءالحق جیسے ذہین جرنیل کو موقع ہاتھ آگیا، اسلحہ امریکا کا، فنڈز عرب ملکوں کے اور تقسیم کے ادارے پاکستان کے، بس وارے نیارے ہو گئے،ڈالروں کی ریل پیل ہو گئی ، جہاد کے تربیتی کیمپ گلی گلی ، محلے محلے کھل گئے ، کلاشنکوف کھلونے کی طرح اور گولیاں ٹافیوں کی طرح دستیاب ہو گئیں ۔کلاشنکوف کلچر کا لفظ تبھی وجود میں آیا اور مملکت پاکستان کے وجود میں زہر کی طرح سرایت کر گیا۔افغانستان میں مزاحمتی تحریک کی کامیابی نے جنرل ضیاءکو نئی سوچ دی۔ انہوں نے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار کا نیا تصور دیا، پیشہ ور جہادی تیار کیے اس عمل میں کئی سیاسی جماعتوں نے بھی ان کا بھر پور ساتھ دیا، عسکریت پسندوں کی ایک متبادل فوج تیار ہو گئی جو بوسنیا اور چیچنیا تک پھیل گئی اور مقبوضہ کشمیر تو ہمسائے میں تھا ، اسی زمانے میں بنک کھاتوں سے زکوةٰ کی کٹوتی لازمی قرار دے کر” جہاد “ کے لیے سرمایہ فراہم کیا گیا، جنرل ضیاءافغان مزاحمت کاروں پر اس قدر اثر رسوخ قائم کر چکے تھے کہ سوویت یونین کے انخلاءکے بعد امریکا کو اندیشہ تھا کہ امن قائم ہو گیا تو افغانستان ،پاکستان کے ایک صوبے کی حیثیت اختیار کر لے گا اسی طرح کے خدشات کو ضیاءالحق کے طیارے کی حادثے کی وجہ قرار دیا جاتا ہے کہ وہ امریکی ایجنڈے کی تکمیل کے بعد خطے میں اپنا ایجنڈا ترتیب دے چکے تھے۔17اگست1988کوجب ضیاءالحق کا طیارہ تباہ ہوا تب جونیجو حکومت رخصت ہو چکی تھی اور عام انتخابات کا اعلان جا چکا تھا، اگر ضیاءالحق زندہ رہتے تو وہ خلافت راشدہ کی طرف پرنظام خلافت قائم کرنے جا رہے تھے اس کی تصدیق ان کے تمام قریبی حلقے کرتے ہیں، اس لیے یہ فیصلہ کرنامشکل ہے کہ 17اگست کو طیارے کی تباہی اسلامیان پاکستان کے لیے کیسا پیغام لائی۔۔ مثبت یا منفی؟
اسلام آباد (ظفر ملک)17اگست1988 کی سہ پہر 3بجکر58منٹ پر پاک فضائیہ کے ”پاک ون“ نامی سی130 طیارہ بہاولپور کے قریب خیر پور ٹامیوالی کے مقام پر گر کر تباہ ہو گیا، اس طیارے میںاس وقت کے صدر پاکستان جنرل محمد ضیاءالحق اور ان کے رفقاءسوار تھے، امریکی سفیر رابن رافیل بھی ان کے ہمراہ سفر آخرت اختیار کرنے والوں میں شامل تھے۔ ربع صدی گذر چکی لیکن جنرل ضیاءالحق کی اختیار کردہ پالیسیوں کا آسیب آج بھی پاکستانی قوم کا پیچھا کر رہا ہے، جنرل ضیاءنے اپنے گیارہ سالہ دور میں بے شمار فیصلے کیے جن میں کئی فیصلوں نے قوم کے مستقبل پر دور رس اثرات مرتب کیے، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ اس دور کے سیاسی فیصلوں میں سب سے متنازعہ فیصلہ تھا جس نے پیپلز پارٹی اور بھٹو ازم کے جن کو ایسا بے قابو کیا کہ کہ اسے بوتل میں بند کرنے میں 25سال لگ گئے لیکن اس کا کریڈٹ بھی بھٹو کے داماد آصف علی زرداری کو جاتا ہے، ضیاءالحق کی باقیات میں سے کوئی اس اعزاز کو حاصل نہ کر سکا۔ یہ پیپلز پارٹی ہی تھی جس کا راستہ روکنے کے لیے جنرل ضیاءنے 1985میں غیر جماعتی انتخابات کا تجربہ کیا، بیشتر سیاسی کارکن اس عمل سے باہر ہو گئے، رہی سہی کسر آرٹیکل 62اور 63 نے پوری کر دی جو جنرل ضیاءنے آئین میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے داخل کی تھیں، لیکن اپنے نام کے ساتھ ”حاجی “کا لاحقہ لگا کر انتخابی میدان میں کودنے والے بعض ایسے بھی تھے جنہں نے محض ایک دنیاوی رسم کے طور پر یہ فریضہ ادا کر رکھا تھا اور اس کے ان کی زندگی پر دور دور تک کوئی اثرات نہ تھے۔جنرل ضیاءنے دینی جماعتوںکو اپنے عزائم اور مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا ، وہ سیاست کاروں سے سخت متنفر تھے، یہ وجہ ہے کہ جب انہیں ایک بار کسی نے سیاسی رہنماو¿ں کی اہمیت کی جانب توجہ دلائی تو انہوں نے جواب دیا ” میں جب چاہوں گا یہ میرے پیچھے دم ہلاتے آئیں گے“۔ سانحہ اوجڑی کیمپ کے بعد رپورٹ منظر عام پر لانے اورذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنے کا ارادہ ظاہر کرنے پر جنرل ضیاءنے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو بیک بینی و دو گوش حکومت سے نکال باہر کیا، آئین میں آرٹیکل58(2) بی انہوں نے اسی مقصد کے لیے رکھوائی تھی، جنرل ضیاءنے 90دن میں انتخابات کے حوالے سے آئین کی یہ تشریح متعارف کرائی کہ 90دن میں انتخابات نہیںبلکہ90دن میں تاریخ کا اعلان ضروری ہے۔ جنرل ضیاءایک ریفرنڈم کے ذریعے ملک کے صدر بن گئے، ریفرنڈم کا سوال ایسا تھا کہ کوئی بھی ہوشمند پاکستانی اس کا جواب نہ میں نہیں دے سکتا تھا،کیا آپ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی مملکت دیکھنا چاہتے ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو جنرل ضیاءالحق آئندہ پانچ سال کے لیے ملک کے صدر ہوں گے، پولنگ سٹیشن ویران رہے اور بیلٹ باکس بھر گئے، اور جنرل ضیاءکی حمایت میں 98فیصد ووٹ نکلے ۔ جنرل ضیاءالحق نے پاکستان کے اسلامی تشخص کو ایک نعرے کے طور پر فروغ دیا اور اسے اپنا عرصہ اقتدار بڑھانے کے لیے استعمال کیا،دفاتر میں نماز کا وقفہ اور نماز باجماعت کا اہتمام ضروری ہو گیا، وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی، واحد نیوز چینل سرکاری ٹی وی پر نیوز اینکرز بلیٹن کا آغاز بسم اللہ سے کرنے لگے، انہی دنوں ٹی وی کی ایک مقبول پروگرام کی خاتون اینکر نے دوپٹہ لازمی کرنے کی پالیسی کو چیلنج کیا انہوں نے کیئرئر ترک کر دیا اور کہا کہ ”میں اگر عام زندگی میں دوپٹہ نہیں لیتی تو محض ٹی سکرین پر دوپٹہ اوڑھنا منافقت ہو گی“۔ ایک طرف تو جنرل ضیاءپانچ وقت کے نمازی تھے، سفر میں بھی نماز قضا نہ ہوتی، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے ائر پورٹ کی جانب جاتے ہوئے ہائی وے پر ضیاءمسجد اسی دور کی یادگار ہے کیونکہ سفر لمبا ہونے کی وجہ سے نماز میں تاخیر انہیں برادشت نہ تھی۔جنرل ضیاءنے اپنا ایک حلقہءاثر پید اکیا جسے اسلام پسند کہا جا سکتا ہے، انہوں نے قراداد مقاصد کو آئین پاکستان کا فعال حصہ بنا دیا، ہر سرکاری تقریب کا آغاز تلاوت اورنعت سے ہوتا تھا، نعت خوانوں اور قاری حضرات نے سرکاری خزانے سے جی بھر کے حج اور عمرے کیے ۔دوسری جانب بالی وڈ کے اس زمانے کے بڑے ولن شترو گھن سنہا جنرل ضیاءکے ذاتی مہمان کے طور پر ایوان صدر میں کئی کئی روز تک ٹھہرتے رہے ، مسرت نذیر کا گانا ”میرا لونگ گواچا“ انہی دنوں مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچا اور جنرل ضیاءبھی ان کے مداحوں میں شامل تھے۔سیاچن پر بھارتی قبضہ بھی اسی دور میں ہوااور ” سیاچن پرتو گھاس کی پتی بھی نہیں اگتی“ جیسا جملہ جنرل ضیاءسے منسوب ہوا، کرکٹ ڈپلومیسی کے ذریعے انہوں نے تب بھارت وزیر اعظم راجیو گاندہی کو زچ کر دیا۔یہ کوئی انہونی نہیں تھی کہ ان کے دور میںسوویت یونین افغانستان میں گھس بیٹھا اور پھر جنرل ضیاءالحق جیسے ذہین جرنیل کو موقع ہاتھ آگیا، اسلحہ امریکا کا، فنڈز عرب ملکوں کے اور تقسیم کے ادارے پاکستان کے، بس وارے نیارے ہو گئے،ڈالروں کی ریل پیل ہو گئی ، جہاد کے تربیتی کیمپ گلی گلی ، محلے محلے کھل گئے ، کلاشنکوف کھلونے کی طرح اور گولیاں ٹافیوں کی طرح دستیاب ہو گئیں ۔کلاشنکوف کلچر کا لفظ تبھی وجود میں آیا اور مملکت پاکستان کے وجود میں زہر کی طرح سرایت کر گیا۔افغانستان میں مزاحمتی تحریک کی کامیابی نے جنرل ضیاءکو نئی سوچ دی۔ انہوں نے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار کا نیا تصور دیا، پیشہ ور جہادی تیار کیے اس عمل میں کئی سیاسی جماعتوں نے بھی ان کا بھر پور ساتھ دیا، عسکریت پسندوں کی ایک متبادل فوج تیار ہو گئی جو بوسنیا اور چیچنیا تک پھیل گئی اور مقبوضہ کشمیر تو ہمسائے میں تھا ، اسی زمانے میں بنک کھاتوں سے زکوةٰ کی کٹوتی لازمی قرار دے کر” جہاد “ کے لیے سرمایہ فراہم کیا گیا، جنرل ضیاءافغان مزاحمت کاروں پر اس قدر اثر رسوخ قائم کر چکے تھے کہ سوویت یونین کے انخلاءکے بعد امریکا کو اندیشہ تھا کہ امن قائم ہو گیا تو افغانستان ،پاکستان کے ایک صوبے کی حیثیت اختیار کر لے گا اسی طرح کے خدشات کو ضیاءالحق کے طیارے کی حادثے کی وجہ قرار دیا جاتا ہے کہ وہ امریکی ایجنڈے کی تکمیل کے بعد خطے میں اپنا ایجنڈا ترتیب دے چکے تھے۔17اگست1988کوجب ضیاءالحق کا طیارہ تباہ ہوا تب جونیجو حکومت رخصت ہو چکی تھی اور عام انتخابات کا اعلان جا چکا تھا، اگر ضیاءالحق زندہ رہتے تو وہ خلافت راشدہ کی طرف پرنظام خلافت قائم کرنے جا رہے تھے اس کی تصدیق ان کے تمام قریبی حلقے کرتے ہیں، اس لیے یہ فیصلہ کرنامشکل ہے کہ 17اگست کو طیارے کی تباہی اسلامیان پاکستان کے لیے کیسا پیغام لائی۔۔ مثبت یا منفی؟