ضیاءپیپلزپارٹی سے جو نہ کراسکےوہ بھٹو کے داماد نےکردیا

کاشفی

محفلین
ضیاءپیپلزپارٹی سے جو نہ کراسکےوہ بھٹو کے داماد نےکردیا
اسلام آباد (ظفر ملک)17اگست1988 کی سہ پہر 3بجکر58منٹ پر پاک فضائیہ کے ”پاک ون“ نامی سی130 طیارہ بہاولپور کے قریب خیر پور ٹامیوالی کے مقام پر گر کر تباہ ہو گیا، اس طیارے میںاس وقت کے صدر پاکستان جنرل محمد ضیاءالحق اور ان کے رفقاءسوار تھے، امریکی سفیر رابن رافیل بھی ان کے ہمراہ سفر آخرت اختیار کرنے والوں میں شامل تھے۔ ربع صدی گذر چکی لیکن جنرل ضیاءالحق کی اختیار کردہ پالیسیوں کا آسیب آج بھی پاکستانی قوم کا پیچھا کر رہا ہے، جنرل ضیاءنے اپنے گیارہ سالہ دور میں بے شمار فیصلے کیے جن میں کئی فیصلوں نے قوم کے مستقبل پر دور رس اثرات مرتب کیے، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ اس دور کے سیاسی فیصلوں میں سب سے متنازعہ فیصلہ تھا جس نے پیپلز پارٹی اور بھٹو ازم کے جن کو ایسا بے قابو کیا کہ کہ اسے بوتل میں بند کرنے میں 25سال لگ گئے لیکن اس کا کریڈٹ بھی بھٹو کے داماد آصف علی زرداری کو جاتا ہے، ضیاءالحق کی باقیات میں سے کوئی اس اعزاز کو حاصل نہ کر سکا۔ یہ پیپلز پارٹی ہی تھی جس کا راستہ روکنے کے لیے جنرل ضیاءنے 1985میں غیر جماعتی انتخابات کا تجربہ کیا، بیشتر سیاسی کارکن اس عمل سے باہر ہو گئے، رہی سہی کسر آرٹیکل 62اور 63 نے پوری کر دی جو جنرل ضیاءنے آئین میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے داخل کی تھیں، لیکن اپنے نام کے ساتھ ”حاجی “کا لاحقہ لگا کر انتخابی میدان میں کودنے والے بعض ایسے بھی تھے جنہں نے محض ایک دنیاوی رسم کے طور پر یہ فریضہ ادا کر رکھا تھا اور اس کے ان کی زندگی پر دور دور تک کوئی اثرات نہ تھے۔جنرل ضیاءنے دینی جماعتوںکو اپنے عزائم اور مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا ، وہ سیاست کاروں سے سخت متنفر تھے، یہ وجہ ہے کہ جب انہیں ایک بار کسی نے سیاسی رہنماو¿ں کی اہمیت کی جانب توجہ دلائی تو انہوں نے جواب دیا ” میں جب چاہوں گا یہ میرے پیچھے دم ہلاتے آئیں گے“۔ سانحہ اوجڑی کیمپ کے بعد رپورٹ منظر عام پر لانے اورذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنے کا ارادہ ظاہر کرنے پر جنرل ضیاءنے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو بیک بینی و دو گوش حکومت سے نکال باہر کیا، آئین میں آرٹیکل58(2) بی انہوں نے اسی مقصد کے لیے رکھوائی تھی، جنرل ضیاءنے 90دن میں انتخابات کے حوالے سے آئین کی یہ تشریح متعارف کرائی کہ 90دن میں انتخابات نہیںبلکہ90دن میں تاریخ کا اعلان ضروری ہے۔ جنرل ضیاءایک ریفرنڈم کے ذریعے ملک کے صدر بن گئے، ریفرنڈم کا سوال ایسا تھا کہ کوئی بھی ہوشمند پاکستانی اس کا جواب نہ میں نہیں دے سکتا تھا،کیا آپ پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی مملکت دیکھنا چاہتے ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو جنرل ضیاءالحق آئندہ پانچ سال کے لیے ملک کے صدر ہوں گے، پولنگ سٹیشن ویران رہے اور بیلٹ باکس بھر گئے، اور جنرل ضیاءکی حمایت میں 98فیصد ووٹ نکلے ۔ جنرل ضیاءالحق نے پاکستان کے اسلامی تشخص کو ایک نعرے کے طور پر فروغ دیا اور اسے اپنا عرصہ اقتدار بڑھانے کے لیے استعمال کیا،دفاتر میں نماز کا وقفہ اور نماز باجماعت کا اہتمام ضروری ہو گیا، وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی، واحد نیوز چینل سرکاری ٹی وی پر نیوز اینکرز بلیٹن کا آغاز بسم اللہ سے کرنے لگے، انہی دنوں ٹی وی کی ایک مقبول پروگرام کی خاتون اینکر نے دوپٹہ لازمی کرنے کی پالیسی کو چیلنج کیا انہوں نے کیئرئر ترک کر دیا اور کہا کہ ”میں اگر عام زندگی میں دوپٹہ نہیں لیتی تو محض ٹی سکرین پر دوپٹہ اوڑھنا منافقت ہو گی“۔ ایک طرف تو جنرل ضیاءپانچ وقت کے نمازی تھے، سفر میں بھی نماز قضا نہ ہوتی، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے ائر پورٹ کی جانب جاتے ہوئے ہائی وے پر ضیاءمسجد اسی دور کی یادگار ہے کیونکہ سفر لمبا ہونے کی وجہ سے نماز میں تاخیر انہیں برادشت نہ تھی۔جنرل ضیاءنے اپنا ایک حلقہءاثر پید اکیا جسے اسلام پسند کہا جا سکتا ہے، انہوں نے قراداد مقاصد کو آئین پاکستان کا فعال حصہ بنا دیا، ہر سرکاری تقریب کا آغاز تلاوت اورنعت سے ہوتا تھا، نعت خوانوں اور قاری حضرات نے سرکاری خزانے سے جی بھر کے حج اور عمرے کیے ۔دوسری جانب بالی وڈ کے اس زمانے کے بڑے ولن شترو گھن سنہا جنرل ضیاءکے ذاتی مہمان کے طور پر ایوان صدر میں کئی کئی روز تک ٹھہرتے رہے ، مسرت نذیر کا گانا ”میرا لونگ گواچا“ انہی دنوں مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچا اور جنرل ضیاءبھی ان کے مداحوں میں شامل تھے۔سیاچن پر بھارتی قبضہ بھی اسی دور میں ہوااور ” سیاچن پرتو گھاس کی پتی بھی نہیں اگتی“ جیسا جملہ جنرل ضیاءسے منسوب ہوا، کرکٹ ڈپلومیسی کے ذریعے انہوں نے تب بھارت وزیر اعظم راجیو گاندہی کو زچ کر دیا۔یہ کوئی انہونی نہیں تھی کہ ان کے دور میںسوویت یونین افغانستان میں گھس بیٹھا اور پھر جنرل ضیاءالحق جیسے ذہین جرنیل کو موقع ہاتھ آگیا، اسلحہ امریکا کا، فنڈز عرب ملکوں کے اور تقسیم کے ادارے پاکستان کے، بس وارے نیارے ہو گئے،ڈالروں کی ریل پیل ہو گئی ، جہاد کے تربیتی کیمپ گلی گلی ، محلے محلے کھل گئے ، کلاشنکوف کھلونے کی طرح اور گولیاں ٹافیوں کی طرح دستیاب ہو گئیں ۔کلاشنکوف کلچر کا لفظ تبھی وجود میں آیا اور مملکت پاکستان کے وجود میں زہر کی طرح سرایت کر گیا۔افغانستان میں مزاحمتی تحریک کی کامیابی نے جنرل ضیاءکو نئی سوچ دی۔ انہوں نے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار کا نیا تصور دیا، پیشہ ور جہادی تیار کیے اس عمل میں کئی سیاسی جماعتوں نے بھی ان کا بھر پور ساتھ دیا، عسکریت پسندوں کی ایک متبادل فوج تیار ہو گئی جو بوسنیا اور چیچنیا تک پھیل گئی اور مقبوضہ کشمیر تو ہمسائے میں تھا ، اسی زمانے میں بنک کھاتوں سے زکوةٰ کی کٹوتی لازمی قرار دے کر” جہاد “ کے لیے سرمایہ فراہم کیا گیا، جنرل ضیاءافغان مزاحمت کاروں پر اس قدر اثر رسوخ قائم کر چکے تھے کہ سوویت یونین کے انخلاءکے بعد امریکا کو اندیشہ تھا کہ امن قائم ہو گیا تو افغانستان ،پاکستان کے ایک صوبے کی حیثیت اختیار کر لے گا اسی طرح کے خدشات کو ضیاءالحق کے طیارے کی حادثے کی وجہ قرار دیا جاتا ہے کہ وہ امریکی ایجنڈے کی تکمیل کے بعد خطے میں اپنا ایجنڈا ترتیب دے چکے تھے۔17اگست1988کوجب ضیاءالحق کا طیارہ تباہ ہوا تب جونیجو حکومت رخصت ہو چکی تھی اور عام انتخابات کا اعلان جا چکا تھا، اگر ضیاءالحق زندہ رہتے تو وہ خلافت راشدہ کی طرف پرنظام خلافت قائم کرنے جا رہے تھے اس کی تصدیق ان کے تمام قریبی حلقے کرتے ہیں، اس لیے یہ فیصلہ کرنامشکل ہے کہ 17اگست کو طیارے کی تباہی اسلامیان پاکستان کے لیے کیسا پیغام لائی۔۔ مثبت یا منفی؟
 
ضیاءالحق کو اگر پاکستان کا دجال کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔۔
اسلحہ اور منشیات اسی کی مردِ مومن مردِ حق کی دین ہیں۔
آج ہر تیسرا جوان چرسی ہے۔ چاہے پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ اور جرائم تو ہوتے ہی اسلحہ کے زور پر ہیں۔
 

یوسف-2

محفلین
بارے کچھ بھٹو کا بیاں ہوجائے ۔ ۔ ۔​
ہمارے انقلابی بھائی مجاہد بریلوی نے کیا لکھ دیا کہ ٹیلیفون لائنوں کا تانتا بندھ گیا کہ اب کی بار جانے نہ پائے۔ خیر اس عزیز کو کیا کہنا، مگر دو چار تاریخی مغالطے ہیں جنہیں رفع کرنا ضروری ہے۔ ہمارے بائیں بازو کے ڈنڈی مار تاریخ کو ضیاء الحق سے شروع کرتے ہیں اور ایسی گرد اڑاتے ہیں کہ بھٹو شاہی کے کرتوت اس دھول میں چھپ جاتے ہیں۔ میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ اپنی نگاہوں کے سامنے تاریخ کو مسخ ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔ ضیاء الحق تو ایک فوجی تھا، مگر بھٹو ایک سویلین ڈکٹیٹر تھا۔ یہ سویلین ڈکٹیٹر شپ، فوجی ڈکٹیٹر شپ سے بھی خطرناک ہوتی ہے۔ اسے فاشزم یا فسطائیت کہتے ہیں۔ وہی جو ہٹلر کا طرۂ امتیاز تھا اور بھٹو کے تو اجزائے ترکیبی بھی ہو بہو وہی تھے۔ نیشنل سوشلزم، یہ ہٹلر کا فلسفہ تھا۔ کیا خیال ہے، بھٹو کے بارے میں اس نے ہماری نیشنلزم کو کیسے جگایا۔ سو سال تک لڑیں گے، ایٹم بم بنائیں گے چاہے گھاس کھانا پڑے۔ کیسے ولولہ انگیز انداز میں سلامتی کونسل میں پولینڈ کی قرار داد پھاڑ کر قومی ہیرو بنا اور کس طرح روٹی، کپڑا، مکان کا نعرہ لگا کر اس نے عوام کے دکھ درد کی تجارت کی۔ ہٹلر اور سویلین کے فلسفے کی ہوبہو تصویر ۔اگر کوئی ایک شخص ملک کی تباہی کا ذمہ دار قرار پا سکتا ہے تو وہ دنیا کی تاریخ کا یہ منفردسویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار بھٹو تھا جس نے سویلین کو بھی وردیاں پہنا دیں۔ عہدوں کے لحاظ سے الگ الگ بینڈ بھی سجا ڈالے۔ اس کے ذہن کی ساخت پر تو ہمارے ہاں کوئی کام ہی نہیں ہوا۔

ہمارے ملک میں سوخرابیاں تھیں، مگر معیشت ہماری درست جا رہی تھی۔ دنیا کے لئے رول ماڈل تھی۔ سوشلزم کے نام پر اس نے صنعتوں کوقومیانے کا عمل اس طرح شروع کیا کہ قومی اثاثے نوکر شاہی کے حوالے کر دیئے۔ افسوس کے بیچارے کو سوشلزم کا بھی مطلب نہ آتا تھا۔ آتا تھا تو بدنیت تھا۔ بدنیت تو ایسا تھا کہ انتقام کی آگ میں خود تو جلتا تھا، ملک کو بھی جلا ڈالا۔ کسی اصول کے تحت مثال کے طور پر چاول صاف کرنے کی فیکٹریاں قومیائی نہیں جانا چاہئے تھیں۔ اس نے یہ بھی کر دیا ، کیونکہ اس کے سیاسی مخالفین میں سے بعض ان کے مالک تھے مثلاًظہور الٰہی۔ ایسا منتقم مزاج کہ تاریخ نے نہ دیکھا ہوگا۔

صنعتیں نوکر شاہی کے حوالے کرنے کے بعد اس نے اس نوکر شاہی پر بھی قبضہ کرنے کی ٹھانی۔ ایسا قانون بنایا کہ سارا ڈھانچہ تلپٹ کر دیا۔ براہ راست بھرتی کا اصول منظور کرایا، لیٹرل انٹری۔ سیکرٹری، ایڈیشنل سیکرٹری، جائنٹ اور ڈپٹی سیکرٹری ایک ہی ہلے میں براہ راست بھرتی کر ڈالے۔ اپنے چہیتوں کے سپرد بڑی بڑی صنعتیں کر دیں۔صنعتیں بھی تباہ ہوئیں، انتظامیہ بھی ملیا میٹ ہوئی اور اس کی بادشاہی قائم ہوئی۔ رہ گئے انسانی حقوق، شہری آزادیاں اور جمہوری قدریں تو جیسا ان کا جنازہ اس نے نکالا، اس کی تو نظیر نہیں ملتی۔

میرے پیارے انقلابی، یاد کرو، ان دنوں کو۔ پہلی ہی پریس کانفرنس میں اس نے ایک صحافی کو برطرف کیا تھا، زیڈ اے سلیری کو۔ الطاف حسن قریشی، مجیب نظامی، حسین نقی اس کے اگلے شکار تھے۔ میں نے وہ جنگ اللہ کے فضل سے، پہلی صف میں کھڑے ہو کر لڑی ہے۔ کہاں تھے اس وقت وہ نام نہاد آزاد�ئصحافت کے علمبردار ، منہ نہ کھلواؤ ۔ ٹریڈ یونین والوں کو چھوڑو، جوش، فیض، فراز سب سرکاری ملازم تھے۔ اگر ان میں سے کوئی ملک سے بھاگا تھاتو ضیاء کے ڈر سے نہیں اس کرپشن کی وجہ سے جو انہوں نے بھٹو کے دور میں کی ہوگی۔ چلئے اپنی نااہلی کی وجہ سے ان سے ہوگئی تھی۔ یہ سبط حسن اس وقت کہاں تھے۔ روشن جی، بھیم جی کے نوکر ،کیوں ماضی کے چراغ جلوا رہے ہو۔ ایک ایک کہانی ازبر ہے۔ جزو یات تک یاد ہیں۔

خیر اسے چھوڑئیے، میں بھٹو کے انسانی حقوق کے کارنامے یاد کر رہا تھا۔ یاد ہے، ایک دلائی کیمپ تھا۔ یوں سمجھو اس زمانے میں پاکستان کا گوانتاناموبے ۔ جی ہاں، آزاد کشمیر میں قائم کیا گیا تھا۔ اپنے ہی لوگ اغوا کرکے وہاں پہنچائے جاتے تھے۔ افتخار نازی، چوہدری ارشاد، اپنے اخبار مساوات کے پبلشرز میاں اسلم، طالب علم رہنما ذوالفقار زلفی۔ عدالت کی پوری کارروائی موجود ہے۔ ابھی برادرم سعود ساحر سے بات ہو رہی تھی۔ وہ کیسے ان گمشدہ افراد کی تلاش میں وہاں تک پہنچے۔ سارا قصہ چھپا، عدالت حرکت میں آئی۔ آپ کو تو اپنا انقلابی بھائی مختار رانا بھول گیا ہوگا۔ بھٹو کے ظلم و ستم کا پہلا نشانہ، ایم این اے تھا، فیصل آباد سے پیپلزپارٹی کا، بالآخر جلا وطنی پر مجبور ہوا۔ ہاں ہاں جے اے رحیم یاد ہے، پارٹی کاسیکرٹری جنرل بزرگ قائد جس نے گویا ساری پارٹی اپنے ہاتھ سے بنائی۔ ایک کھانے میں تاخیر کی شکایت کر بیٹھا۔ رات کو دیوار پھلاند کر سرکاری غنڈہ نے دھنائی کر ڈالی۔ ایک نیم فوجی تنظیم بنا رکھی تھی نا اس نے جس کے پاس فوج جیسا اسلحہ تھا اور یہ وزارت دفاع کے ماتحت نہ تھی۔ اس کی ایک کارروائی مجھے یاد ہے، کراچی میں پی آئی اے کی یونین نے نعتیہ مشاعرہ کرایا۔ وزیر داخلہ خان قیوم خاں، جی ہاں ڈبل بیرل خاں کو مہمان خصوصی بنایا۔ این ایس ایف کیا نام تھا غنڈوں کی اس تنظیم کا۔ انہوں نے باقاعدہ گولیاں چلا کر دھاوا بول دیا۔ اپنے ہی وزیر داخلہ کے خلاف تھے ۔سوہنے منڈے حفیظ پیرزادہ نے حکم دیا تھا۔یونینوں کی لڑائی تھی۔ کراچی کے ادیبوں سے پوچھ لیجئے، کیسے میں انہیں ایک طرف گائیڈ کرتا گولیوں کی اس بوچھاڑ سے نکالنے میں کامیاب ہوا۔

یہاں مجھے لیاقت باغ کا سانحہ یاد آرہا ہے۔ برادرم سعود ساحر اور میں وہاں سے بھی گولیوں کی بوچھاڑ میں سے نکلنے میں خدا کے فضل سے کامیاب ہوئے۔ چالیس لاشیں اٹھی تھیں۔ ولی خاں لاشیں لے کر تو سرحد چلے گئے اور اجمل خٹک نے افغانستان کی راہ لی۔ شام کو ڈیفنس آف پاکستان کے تحت حکمنامہ آگیا کہ اس کی خبر بھی چھاپی نہیں جا سکتی۔ تاجپورہ بھی یاد آرہا ہے جہاں ضمنی انتخاب ہو رہے تھے۔ جلسہ گاہ میں سانپ چھوڑ دیئے گئے۔ بھٹو نے کیا کیا نہیں کیا۔ شاہی قلعے کے عقوبت خانے آباد اس نے کئے، اگرچہ عرصے سے قائم تھے۔ ملک سلمان یاد آئے، سیالکوٹ سے پیپلزپارٹی ہی کے ایم این اے تھے۔ ان کی بیوی پر لحاف چوری کا مقدمہ بنا۔ بیٹیوں تک کو بھی نہ چھوڑا گیا۔ میاں طفیل کا معاملہ آپ بھول گئے۔ لاہور کے ایک نامور وکیل جو ایک بڑے سیاستدان تھے، انہیں دھمکی دی گئی، تمہاری بیٹیاں فلاں فلاں وقت کالج جاتی ہیں۔ کیا کیا باتیں یاد آ رہی ہیں۔ اور چھوڑو، اپنے معراج محمد خاں سے پوچھ لیجئے بھٹو نے انہیں اپنا جانشین قرار دیا تھا۔ ولی خاں کے ساتھ ان پر بھی غداری کا مقدمہ بنایا گیا۔ ایسے عذاب سے گزرے کہ عمر بھر صحت بحال نہ ہو سکی۔ یہ تو اپنے منہاج برنا کے بھائی ہیں۔ زخم مت کریدو، بہت کچھ یاد آرہا ہے۔ ہم نے بڑی جدوجہد کی ہے، اس ظالم کے خلاف۔

ہاں یاد آیا، کس نے کہابھٹو کو مغربی پاکستان میں اکثریت تھی۔ اس نام کی کوئی چیز اس وقت موجود ہی نہ تھی۔ ون یونٹ ٹوٹ چکا تھا۔ بھٹو کو صرف پنجاب میں اکثریت ملی تھی۔ سندھ میں بھی جام صادق علی کے بارہ لوگ شامل ہوئے تو یہ اکثریت میں آیا۔ سندھ اسمبلی کے ساٹھ میں سے28نشستیں پیپلزپارٹی کے پاس تھیں۔ ان میں بکاؤ مال بھی بہت تھا۔ ہاں، وہ اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے گا کا واقعہ یاد ہے۔ اس سے پہلے لانڈی میں مزدوروں پر بلڈوزر چڑھا دیئے گئے تھے۔ میرے پیارے بھولے بادشاہ، سب کچھ بھولے جا رہے ہو۔
یہ دکھ بھری کہانی بہت طویل ہے، اب چھڑ گئی ہے تو کسی وقت جم کر رکھوں گا۔ ان انقلابیوں کی کہانیاں ہیں جنہوں نے دونوں ہاتھوں سے لوٹ مچار رکھی تھی اور ظلم کے ساتھی تھے۔ ہاں چلتے چلتے، عرض کرتا چلوں کہ ہمارے سلیم احمد کبھی ضیاء الحق کے مشیر نہ تھے۔ وہ ریڈیو پاکستان کے ایک ’’ادنیٰ‘‘ ملازم تھے۔ اور اسی مجبوری میں انہیں وزارت اطلاعات نے طلب کر لیا تھا، پی این اے کے زمانے میں۔ وہ بھی اس لئے کہ یہ خیال پایا جاتا تھا کہ وہ الیکٹرانک میڈیا پر تخلیقی انداز میں رہنمائی کرنے کے بادشاہ ہیں۔ وہاں بھی وہ چند دن رہ پائے اور واپس آگئے۔ انہوں نے کبھی ضیاء الحق کی تقریر نہیں لکھی۔ ان ادبی کانفرنسوں کا حال بھی لکھوں گا جن میں ضیاء الحق نے یہ تقریر کی تھی۔ اس کے بھی اصل الفاظ پڑھتے جاؤ۔ میں صدیق سالک کو چھیڑتا تھا کہ میں ضیاء الحق کے ادبی نظر یے پر مضمون لکھنے والا ہوں۔ وہ جواب میں پاکستانی اور جانے کن کن ادیبوں کے حوالے دے کر میرامنہ بند کرنے کی کوشش کرتے۔ مگر بھائی یہ بھی خیال رہے کہ اس بہتی گنگا میں کون کون ہاتھ دھوتا رہا ہے۔ ان سے تو اتنا ہی کہنا ہے کہ:

اتنی نہ بڑھا پاکیئ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ​
اس وقت موڈ ہے تو ذرا تعلّی کے انداز میں دوسرا شعر بھی سہی۔
تردامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں​
فی الحال اتنا ہی۔۔۔ تاریخ مسخ ہوتی دیکھی نہیں جاتی۔
(بشکریہ روزنامہ نئی بات 18 اگست 2013))
 

یوسف-2

محفلین
حیرت ہے جنرل ضیا کا دور اور نہ "بھائی" کا ذکر اور نہ ہی شریف بردران کا۔
ہاہاہا کیا خوب یاد دلایا شمشاد ”بھائی“ آپ نے بھی۔ :)
جنرل ضیاء الحق شہید پاکستان کا وہ انوکھا حکمران ہے جس نے اپنے دور حکومت میں اپنے بچوں کو تو سیاست میں داخل نہیں ہونے دیا لیکن الطاف بھائی اور شریف برادران کو ”گود“ لے کر ان کی ایسی ”پرورش“ کی کہ آج کراچی کی سیاہ ست ہو یاپنجاب کی، دونوں میں سے جنرل ضیاء کی ان ”باقیات“ کو جدا کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ :D
 

کاشفی

محفلین
ضیاءالحق کو اگر پاکستان کا دجال کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔۔
اسلحہ اور منشیات اسی کی مردِ مومن مردِ حق کی دین ہیں۔
آج ہر تیسرا جوان چرسی ہے۔ چاہے پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ اور جرائم تو ہوتے ہی اسلحہ کے زور پر ہیں۔
آپ بالکل درست فرما رہے ہیں۔۔ انیس الرحمن بھائی۔۔
۔ اب ضیاء الحق کے مرید چرسی موالی اور کلاشنکوف کلچر کے پرویدا اور طالبانی ذہن والے منافق حضرات آئیں گے اور اس بدبخت کے حق میں بولنا شروع کردیں گے۔۔
منافق حضرت اسلام کا لبادہ اُڑھ کر عام انسانوں کو بیوقوف بناتے ہیں۔۔
 
بات بھٹو کے داماد سے شروع ہو کر ضیاء کی تعریفوں پر ختم ہوئی،
پتہ نہیں رائٹر صاحب عام قاری کو کیا بتانا چاہ رہے تھے یہ بھی واضع نہیں کیا اور عنوان سے جوڑ ہی نہیں پائے تحریر کو۔

پاکستان کی یہ حالت صرف اور صرف دو افراد کی مرہونِ منت ہے، بھٹو اور ضیاء۔
آج ہم جو چکی پیس رہے ہیں اس کے دانے ہمارے لیے بھٹو اور ضیا ء ہی چھوڑ کر گئے۔ اب دیکھیے کب ختم ہوتے ہیں یہ دانے۔
 

صرف علی

محفلین
آپ کو پتا نہیں چلا یہی بٹھو کے داماد کا کمال ہے اس نے کچھ کیا ہی نہیں اور قوم اس کو پانچ سال برداشت کرگئی
 

نایاب

لائبریرین
دونوں اپنا کیا اوپر بھگت رہے ہیں ۔
اور ان دونوں کا کیا ہم بھگت رہے ہیں ۔
اور ضیا کا کیا آج تک پاکستانی قوم اور پاکستان بھگت رہا ہے ۔۔۔۔
اور جانے کب تک بھگتنا ہے ۔۔۔۔۔۔؟
 
بھٹو کے داماد نے کیا کیا ہے سمجھ نہیں آیا۔۔۔ ۔
دراصل رائٹر صاحب نے بات تو یہ شروع کی تھی کہ ضیاء پورےزور کے باوجود پی پی پی کو ختم نہ کر سکا یا نقصان نہ پہنچا سکا اور بھٹو کے داماد نے کتنی آسانی سے یہ کام کر دیا، لیکن پھر ضیاء کے ذکر پر ان کو ضیاء کا اجلا کردار یاد آ گیا اور عنوان بھول گیا۔
 
Top