ظفری

لائبریرین
گناہ گار ہوں یارب عذاب نازل کر
نہیں تو بے گناہی کا ثواب نازل کر

کتاب دے کے جو بھیجے ہیں تو نے پیغمبر
پیمبرانِ سخن پر کتاب نازل کر

ہمارے دور کے مہوش ادا سے باغی ہیں
تو کوئ آیت ِ شرم وحجاب نازل کر

ہے ایک زمانے سے کشت ِ سخن میری تشنہ
تو اس پہ عقل و فراست کا آب نازل کر

ہمارا علم جہالت کی وادیوں میں گم ہے
ہمارے ذہنوں پہ تازہ نصاب نازل کر

ہمارے دل سے گناہوں کےداغ سب دھو دے
اگر یہ دھل نہیں سکتے عتاب نازل کر

میں منتظر ہوں جزاوسزا کا یوں کب سے
میرے وجود پہ روزِ حساب نازل کر​
 

ظفری

لائبریرین
بے ربط سی تحریر عبارت نہیں ہوتی
ہاتھوں کی لکیروں میں تو قسمت نہیں ہوتی

سجدہ میں دکھاوا ہو تو سجدہ نہیں ہوتا
گردن جھکانے سے عبادت نہیں ہوتی

وہ شخص محبت سے ہمیشہ رہا محروم
اوروں کے لیے جس میں محبت نہیں ہوتی

شاہکار کی تکمیل میں شامل نہ ہو گر فکر
تصویر تو بن جاتی ہے مورت نہیں ہوتی

چہرے کا سنگھار اس کے کبھی کام نہ آیا
سیرت کے بناء کوئ بھی صورت نہیں ہوتی

سائنس نہ کھینچ دے کہیں سورج کی طنابیں
اب مجھ کو کسی بات پر حیرت نہیں ہوتی

زاہد بھی جانتا ہے شبِ وصل کے قصے
اس عمر میں مجھ سے تو شرارت نہیں ہوتی

وہ دل نہیں پتھر کا ہے بے جان سا ٹکڑا
جس دل کو گناہوں پہ خفت نہیں ہوتی

نکلو تو ضیاء خول سے تم اپنی انا کے
اس حبس میں تم کو کبھی وحشت نہیں‌ہوتی​
 

ظفری

لائبریرین
تغافل کی یہ عادت ترک کردو
نہیں تو اپنی قربت ترک کر دو

شرافت جب تمہیں بزدل بنادے
تو بہتر ہے شرافت ترک کر دو

اگر دشمن سر رکھ دے زمین پر
تو پھر دل سے عداوت ترک کر دو

چھپے ہوں جو آستنیوں میں خنجر
رفیقوں سے رفاقت ترک کر دو

اگر ہو گفتگو میں زہر ناکی
تو تم بھی پھر حلاوت ترک کردو

محبت ہی علاجِ دردِ دل ہے
کہا کس نے محبت ترک کر دو

گلے ملتے ہو لوگوں سے لیکن
ضیاء دل سے کدورت ترک کر دو​
 

ظفری

لائبریرین
مظالم کی بھی انتہا ہوگئ
مسموم بادِ صبا ہوگئ

مجھے موت سے تو نہیں کوئ شکوہ
مری زیست مجھ سے خفا ہوگئ

نہیں اب وہ تاثیر لفظوں میں میرے
میری ہر نوا بے نوا ہوگئ

میں صحرا بہ صحرا اذاں دے چکا ہوں
میری تشنگی اشتہا ہوگئ

خلاؤں میں ہر وقت گھورتا رہتا ہوں
مرے عشق کی ابتداء ہوگئ

اسے پوجتا میں پجاری بھی بن کر
مری راہ کا پتھر انا ہوگئ

جہاں بھر سے کیسے اکیلا میں لڑتا
خدائ تیری ہم نوا ہوگئ​

 

ظفری

لائبریرین
زندگی کی راحتیں مجھ پر عیاں ہوجائیں گی
میرے دل کی خواہشیں جب بے زباں ہوجائیں گی

راستوں میں ہونگے روشن خونِ دل سے جب چراغ
دیکھنا تاریکیوں پھر کہکشاں ہوجائیں گی

گر زباں پر اس طرح پابندیاں لگتیں رہیں
ایک دن خاموشیاں شعلہ فشاں ہوجائیں گی

یہ زمیں زادے اگر سہتے رہے جور و جنا
آنے والی ساری نسلیں آسماں ہوجائیں گی

میری غزلوں میں اگر تاثیرِ بیداری نہیں
پھر یہی غزلیں میری آہ وفغاں ہوجائیں گی

جو نہ اپنی منزلوں تک کا تعین کرسکیں
ایسی بس اقوامِ عالم بے نشاں ہوجائیں گی

کیا بگاڑیں گی ضیاء تیرا یہ باطل قوتیں
تابہ منزل یہ تو گردِ کاراوں ہوجائیں گی​
 

الف عین

لائبریرین
کیا ظفری تم یہ سب شاعری اپنی یادداشت سے لکھ رہے ہو۔ اس لئےکہ اکثر اشعار تمھارے اشعار کی طرح بحر سے خارج ہیں۔ بقول شارق مستقیم کے ان کے اوزان خطا ہو رہے ہیں۔۔۔۔
 
Top