طارق شاہ
محفلین
غزلِ
ضیا جالندھری
جب اُنہی کو نہ سُنا پائے غمِ جاں اپنا
چُپ لگی ایسی، کہ خود ہو گئے زنداں اپنا
نا رسائی کا بیاں ہے، کہ ہے عرفاں اپنا
اس جگہ اَہْرَمن اپنا ہے، نہ یزداں اپنا
دم کی مُہلت میں ہے، تسخیرِ مہ و مہر کی دُھن !
سانس، اِک سلسلۂ خوابِ درخشاں اپنا
ہے طلب اُس کی ، کہ جو سرحدِ اِمکاں میں نہیں
میری ہر راہ میں، حائل ہے بیاباں اپنا
کیسی دُوری، اُسی شعلے کی ہے ضُو میرا جمال
جس سے تابندہ رہا دیدۂ گریاں اپنا
ارمغاں ہیں تِری چاہت کے شگفتہ لمحے !
بیخودی اپنی، شب اپنی ، مہ تاباں اپنا
اس طرح عکس پڑا تیرے شفق ہونٹوں کا !
صُبحِ گُلزار ہُوا، سینۂ ویران اپنا
ایسی گھڑیاں کئی مجھ ایسوں پہ آئیں ہونگی
وقت نے جن سے سجا رکھا ہے ایواں اپنا
ضیا جالندھری