سیما علی
لائبریرین
طاقت پر دانش کی فتح
زاہدہ حنا
20 برس تک افغانستان پر قابض رہنے کے بعد امریکا اب وہاں سے جاچکا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے وہ ملک جو طاقت کے نشے میں چور ہوکر ملکوں پر قابض ہوجاتے ہیں اور پھر جب بالآخر انھیں وہاں سے جانا پڑتا ہے تو یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ ایسا کرنا دانش مندی کا تقاضا تھا۔
بیسوی صدی کے مشہور مورخ اور دانشور دل دیوراں اور ایریل دیوراں نے طاقت اور دانش کے درمیان اس کشاکش کا کمال جائزہ دس جلدوں پر محیط اپنی مشترک کتاب The Lesons of History میں لیا ہے۔ بیسویں صدی میں لکھی گئی، اس کتاب کی اہمیت اکیسویں صدی میں بہت بڑھ گئی ہے۔
ان دونوں کا کہنا ہے کہ ہر صدی میں فوجی جرنیلوں اور حکمرانوں نے جنگ کے خلاف فلسفیوں اور دانشوروں کے خیالات کا مذاق اڑایا ہے۔ ان جرنیلوں کے خیال میں تاریخ کی فوجی تعبیر یہ ہے کہ آخرکار جنگ ہی فیصلہ کن ٹہرتی ہے۔
ان کے خیال میں چند بزدل اور سادہ لوح انسانوں کے سوا سب ہی مانتے ہیں کہ جنگ انسانی فطرت کے عین مطابق بھی ہے اور ناگزیر بھی۔ ایسے لوگ سوال کرتے ہیں کہ چارلس مارٹیل کو اگر 732ء میں طولوس کے مقام پر فتح نصیب نہ ہوتی تو آخر فرانس کو حلقہ بگوش اسلام ہونے سے کون روک سکتا تھا ؟ اسی طرح ہمارے کلاسیکی ورثے کا کیا حشر ہوتا اگر منگولوں اور تاتاریوں کے حملوں کی جنگ کے ذریعے مزاحمت نہ کی جاتی؟
مانا کہ لڑائی کے میدان میں بہت سارے نوجوان مارے جاتے ہیں لیکن جرنیلوں کا کہنا ہے کہ موٹرکار کے حادثات میں اس سے کہیں زیادہ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ نوجوانوں کو چونکہ جلد یا بدیر موت آنی ہی ہے لہٰذا انھیں اپنے ملک کی خاطر میدان جنگ میں زخمی یا ہلاک ہوکر، ناموری کی تابناک آغوش میں جان دینے سے کیوں روکا جائے؟
ایک فلسفی جو تاریخ سے واقف ہے وہ بھی یقیناً یہی کہے گا کہ طویل عرصہ تک حالت امن میں رہنے سے کسی بھی قوم کے اعصاب مضمحل ہوجاتے ہیں اور وہ اپنی جنگجویانہ صلاحیتیں کھو بیٹھتی ہے۔ لہٰذا ہر قوم کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ ہر وقت اپنے دفاع کے لیے تیار رہے۔ اس کے علاوہ بنیادی نوعیت کے مفادات پر آنچ آرہی ہو تو اسے یہ حق ملنا چاہیے کہ اپنی بقا کے لیے ایسے تمام ذرایع استعمال کرے جنھیں وہ ضروری خیال کرتی ہے۔ گویا اپنی حفاظت کا مسئلہ درپیش ہو تو احکام عشرہ (Ten Commanents) کو تہہ کرکے رکھ دینا چاہیے۔
جرنیلوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا کو چاہیے کہ مغربی تمدن کو خارجی خطرات سے بچانے کا بیڑا اٹھائے، اسے اس اہم ذمے داری کو اسی طرح نبھانا چاہیے جس طرح برطانیہ انیسویں صدی میں اس ذمے داری سے عہدہ برآ ہوتا رہا ہے۔ یہ جرنیل بین الاقوامی سیاست کا جائزہ لے کر یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ایشیا ، افریقہ اور لاطینی امریکا کے ساتھ ساتھ یورپ پر بھی اپنے اقتدار اور بالادستی کو قائم رکھنے کی خاطر امریکا کو مستقبل کے معاملات پر نظر رکھنی چاہیے۔
اسے خود کو اپنی جغرافیائی حدود تک محدود نہیں کرنا چاہیے اور نہ دشمن ملکوں کو اپنے اطراف گھیرا ڈال دینے کی اجازت دینی چاہیے کہ وہ اس کی منڈیوں پر اور سامانِ تجارت تک اس کی رسائی کے راستوں پر قبضہ کرلیں۔ یہ جرنیل یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ کیا امریکا کو بھی محاصرے میں گھری ہوئی کسی قوم کی طرح اپنے دشمنوں کی پیروی میں ہر ہر قدم پر امریکا ایسے آزاد ملک پر ایک آمرانہ طرز حکومت مسلط کرنے پر مجبور ہوجانا پڑے ہوگا ؟
کیا یہ دانشمندی کا تقاضا نہیں کہ فی الفور اس خطرہ سے نمٹنے کا اہتمام کیا جائے اور جنگ کو دشمن کی اپنی سرحدوں میں پہنچا دیا جائے اور امریکا کے باہرکسی اور سرزمین پر جنگ لڑی جائے۔ اگر ضرورت پڑے تو امریکی سپاہیوں اور دس لاکھ کے قریب غیر فوجی شہریوں کی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا جائے تاکہ کسی قیمت پر بھی امریکا کی آزادی اور سلامتی سلب نہ ہونے پائے۔ کیا اس قسم کی دور اندیشانہ حکمت عملی تاریخ کے دیے ہوئے سبق سے مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں؟
دل دیوراں اور ایریل دیوراں نے جہاں جرنیلوں کی زبان سے یہ سوالات اٹھائے ہیں ، وہیں ان کی دلیلوں کے جواب میں فلسفی سے کہلوایا ہے کہ آپ حکمرانوں اور جرنیلوں کی مسلط کردہ جنگوں کے نتائج بھی تاریخ کے دہرائے ہوئے سبق کی طرح تباہ کن ثابت ہوں گے۔
فرق صرف اتنا ہوگا کہ لڑنے والی طاقتوں کی بڑھی ہوئی تعداد اور نقل و حمل کی سہولتوں اور بے پناہ مہلک ہتھیاروں کے استعمال کی بدولت ، کئی گنا زیادہ تباہی ہوگی۔ تاریخ سے بڑھ کر ایک اور چیز ہے یعنی کسی جگہ کسی وقت تو ہم انسانیت کے نام پر ہزارہا قسم کی برائیوں کو للکاریں اور چین میں سو کے لگ بھگ نئے ہیروشیما کی مثالیں قائم کرنے سے گریز کریں خواہ ہمیں اس کی کتنی ہی بڑی قیمت ادا کرنی پڑے۔
فلسفی جرنیلوں کو ایڈمنڈ برک کی بات یاد دلاتا ہے جس نے کہا تھا ’’سیاست میں فراخدلی اور وسیع القلبی ہی اصل دانشمندی ہے‘‘ فلسفی حکمرانوں اور جرنیلوں سے کہتا ہے کہ وہ اس خط پر بھی غورکرتے چلیں جو ایک امریکی صدر نے چین اور روس کے ارباب اقتدار کے نام لکھا تھا اورکہا تھا ’’ آئیے ! ہم ایک دوسرے کے لیے اپنے اپنے ملک کے دروازے کھول دیں اور ثقافتی وفود کے تبادلوں کا انتظام کریں تاکہ ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھنے اور ایک دوسرے کے مسائل سے واقف ہونے کی راہ ہموار ہو۔
ہمیں ہرگز یہ خوف دامن گیر نہیں کہ آپ کا معاشی نظام ہمارے معاشی نظام کی جگہ لے لے گا اور نہ آپ کو اس اندیشے میں مبتلا رہنا چاہیے کہ ہمارا نظام آپ کے نظام کو بے دخل کردے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ دونوں نظاموں کے ایک دوسرے سے تعاون کے ذریعہ ہم دونوں پرامن طور پر ساتھ ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں۔ شاید ہم دونوں ہی اپنے دفاع کا معقول و مناسب انتظام کرتے ہوئے دوسری مملکتوں کے ساتھ عدم جارحیت اور دہشت گردی کے خاتمے کے معاہدوں کا بندوبست کرسکتے ہیں۔
ان معاہدوں کی بدولت ایک ایسا عالمی نظام معرض وجود میں آسکے گا کہ جس میں ہر قوم کی انفرادیت اور حاکمیت جوں کی توں قائم رہے اور اگر اس پر کوئی پابندی عائد بھی ہو تو صرف ان سمجھوتوں کی روشنی میں ہو جو کسی دباؤ کے بغیر آزادانہ طے کیے جائیں۔ ہم آپ سے کہتے ہیں کہ تاریخ کے معینہ راستوں سے انحراف کرتے ہوئے شائستگی اور مملکتوں کے مابین مہذب تعلقات کے فروغ کے لیے ہم نے جس عزم کا اظہار کیا ہے اس میں ہمارا ساتھ دیں۔
ہم اپنی عزت و توقیر کی خاطر پوری انسانی برادری سے یہ عہد کرتے ہیں کہ اس خطرناک کام کا بیڑا اٹھاتے ہوئے ہم پورے خلوص اور دیانت داری کا مظاہرہ کریں گے ، اگر یہ جوا ہے اور اگر ہم یہ بازی ہار بھی جائیں تو اس کے نتائج ان متوقع نتائج سے زیادہ برے نہیں ہوسکتے جو جنگ کی روایتی حکمت عملی پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں ظہور پذیر ہوں گے، اگر آپ اور ہم کامیاب ہوجائیں تو آنے والی نسلیں احسان مندی اور ممنونیت کے جذبات کے ساتھ صدیوں تک ہمیں یاد کرتی رہیں گی۔‘‘
یہ سن کر جرنیل کے لبوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے اور وہ یوں گویا ہوتا ہے ’’ تم فلسفیوں نے تاریخ کے پڑھائے ہوئے سارے سبق بھلا دیے ہیں۔ بعض تنازعات اس قدر بنیادی نوعیت کے ہوتے ہیں کہ گفت و شنید کے ذریعہ ان کا حل ناممکن ہے اور یہ بھی ہے کہ طویل مذاکرات کے دوران بھی تخریب کاری کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ کوئی عالمی نظام کسی ایسے سمجھوتے کے تحت جو دو شریف آدمیوں کے مابین طے پا رہا ہو معرض وجود میں نہیں آئے گا۔
اس کی ایک ہی صورت ہے کہ کوئی ایک بڑی طاقت فیصلہ کن کامیابی حاصل کرلے تب وہ بڑی طاقت اس کی اہل ہوگی کہ بین الاقوامی قوانین کو منوا سکے اور اسے نافذ بھی کرسکے۔ طویل عرصہ تک امن کا دور دورہ نہ صرف غیر فطری ہے بلکہ اس کی حیثیت استثنائی ہے اور جوںہی فوجی طاقتوں کا توازن بگڑ جائے وہ درہم و برہم ہوکر رہ جائے گا۔ پس مملکتوں کے اتحاد اور امداد باہمی کی ایک ہی بنیاد ہوسکتی ہے اور وہ یہ کہ ان پر کوئی بیرونی حملہ آور ایک ساتھ چڑھائی کردے۔ ہوسکتا ہے کہ دوسرے ستاروں اور سیاروں کی کسی حوصلہ مند مخلوق کے ساتھ ہماری مڈ بھیڑ ہو جائے اور سیاروں کے مابین جنگ کا سلسلہ شروع ہوجائے، صرف اسی صورت میں ہم دنیا والے سب کے سب ایک ہوجائیں گے۔ ‘‘
دل دیوراں نے جرنیل اور فلسفی کے درمیان ہونے والا مکالمہ اسی جملے پر ختم کیا ہے لیکن دنیا کو ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ دنیا میں طاقت پر دانش کی فتح کب ہوتی ہے ، کیونکہ امریکا کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد عالمی سطح پر امریکا اور چین کے درمیان طاقت کا ٹکراؤ صاف نظرآ رہا ہے۔
زاہدہ حنا
20 برس تک افغانستان پر قابض رہنے کے بعد امریکا اب وہاں سے جاچکا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے وہ ملک جو طاقت کے نشے میں چور ہوکر ملکوں پر قابض ہوجاتے ہیں اور پھر جب بالآخر انھیں وہاں سے جانا پڑتا ہے تو یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ ایسا کرنا دانش مندی کا تقاضا تھا۔
بیسوی صدی کے مشہور مورخ اور دانشور دل دیوراں اور ایریل دیوراں نے طاقت اور دانش کے درمیان اس کشاکش کا کمال جائزہ دس جلدوں پر محیط اپنی مشترک کتاب The Lesons of History میں لیا ہے۔ بیسویں صدی میں لکھی گئی، اس کتاب کی اہمیت اکیسویں صدی میں بہت بڑھ گئی ہے۔
ان دونوں کا کہنا ہے کہ ہر صدی میں فوجی جرنیلوں اور حکمرانوں نے جنگ کے خلاف فلسفیوں اور دانشوروں کے خیالات کا مذاق اڑایا ہے۔ ان جرنیلوں کے خیال میں تاریخ کی فوجی تعبیر یہ ہے کہ آخرکار جنگ ہی فیصلہ کن ٹہرتی ہے۔
ان کے خیال میں چند بزدل اور سادہ لوح انسانوں کے سوا سب ہی مانتے ہیں کہ جنگ انسانی فطرت کے عین مطابق بھی ہے اور ناگزیر بھی۔ ایسے لوگ سوال کرتے ہیں کہ چارلس مارٹیل کو اگر 732ء میں طولوس کے مقام پر فتح نصیب نہ ہوتی تو آخر فرانس کو حلقہ بگوش اسلام ہونے سے کون روک سکتا تھا ؟ اسی طرح ہمارے کلاسیکی ورثے کا کیا حشر ہوتا اگر منگولوں اور تاتاریوں کے حملوں کی جنگ کے ذریعے مزاحمت نہ کی جاتی؟
مانا کہ لڑائی کے میدان میں بہت سارے نوجوان مارے جاتے ہیں لیکن جرنیلوں کا کہنا ہے کہ موٹرکار کے حادثات میں اس سے کہیں زیادہ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ نوجوانوں کو چونکہ جلد یا بدیر موت آنی ہی ہے لہٰذا انھیں اپنے ملک کی خاطر میدان جنگ میں زخمی یا ہلاک ہوکر، ناموری کی تابناک آغوش میں جان دینے سے کیوں روکا جائے؟
ایک فلسفی جو تاریخ سے واقف ہے وہ بھی یقیناً یہی کہے گا کہ طویل عرصہ تک حالت امن میں رہنے سے کسی بھی قوم کے اعصاب مضمحل ہوجاتے ہیں اور وہ اپنی جنگجویانہ صلاحیتیں کھو بیٹھتی ہے۔ لہٰذا ہر قوم کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ ہر وقت اپنے دفاع کے لیے تیار رہے۔ اس کے علاوہ بنیادی نوعیت کے مفادات پر آنچ آرہی ہو تو اسے یہ حق ملنا چاہیے کہ اپنی بقا کے لیے ایسے تمام ذرایع استعمال کرے جنھیں وہ ضروری خیال کرتی ہے۔ گویا اپنی حفاظت کا مسئلہ درپیش ہو تو احکام عشرہ (Ten Commanents) کو تہہ کرکے رکھ دینا چاہیے۔
جرنیلوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا کو چاہیے کہ مغربی تمدن کو خارجی خطرات سے بچانے کا بیڑا اٹھائے، اسے اس اہم ذمے داری کو اسی طرح نبھانا چاہیے جس طرح برطانیہ انیسویں صدی میں اس ذمے داری سے عہدہ برآ ہوتا رہا ہے۔ یہ جرنیل بین الاقوامی سیاست کا جائزہ لے کر یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ایشیا ، افریقہ اور لاطینی امریکا کے ساتھ ساتھ یورپ پر بھی اپنے اقتدار اور بالادستی کو قائم رکھنے کی خاطر امریکا کو مستقبل کے معاملات پر نظر رکھنی چاہیے۔
اسے خود کو اپنی جغرافیائی حدود تک محدود نہیں کرنا چاہیے اور نہ دشمن ملکوں کو اپنے اطراف گھیرا ڈال دینے کی اجازت دینی چاہیے کہ وہ اس کی منڈیوں پر اور سامانِ تجارت تک اس کی رسائی کے راستوں پر قبضہ کرلیں۔ یہ جرنیل یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ کیا امریکا کو بھی محاصرے میں گھری ہوئی کسی قوم کی طرح اپنے دشمنوں کی پیروی میں ہر ہر قدم پر امریکا ایسے آزاد ملک پر ایک آمرانہ طرز حکومت مسلط کرنے پر مجبور ہوجانا پڑے ہوگا ؟
کیا یہ دانشمندی کا تقاضا نہیں کہ فی الفور اس خطرہ سے نمٹنے کا اہتمام کیا جائے اور جنگ کو دشمن کی اپنی سرحدوں میں پہنچا دیا جائے اور امریکا کے باہرکسی اور سرزمین پر جنگ لڑی جائے۔ اگر ضرورت پڑے تو امریکی سپاہیوں اور دس لاکھ کے قریب غیر فوجی شہریوں کی قربانی سے بھی دریغ نہ کیا جائے تاکہ کسی قیمت پر بھی امریکا کی آزادی اور سلامتی سلب نہ ہونے پائے۔ کیا اس قسم کی دور اندیشانہ حکمت عملی تاریخ کے دیے ہوئے سبق سے مکمل طور پر ہم آہنگ نہیں؟
دل دیوراں اور ایریل دیوراں نے جہاں جرنیلوں کی زبان سے یہ سوالات اٹھائے ہیں ، وہیں ان کی دلیلوں کے جواب میں فلسفی سے کہلوایا ہے کہ آپ حکمرانوں اور جرنیلوں کی مسلط کردہ جنگوں کے نتائج بھی تاریخ کے دہرائے ہوئے سبق کی طرح تباہ کن ثابت ہوں گے۔
فرق صرف اتنا ہوگا کہ لڑنے والی طاقتوں کی بڑھی ہوئی تعداد اور نقل و حمل کی سہولتوں اور بے پناہ مہلک ہتھیاروں کے استعمال کی بدولت ، کئی گنا زیادہ تباہی ہوگی۔ تاریخ سے بڑھ کر ایک اور چیز ہے یعنی کسی جگہ کسی وقت تو ہم انسانیت کے نام پر ہزارہا قسم کی برائیوں کو للکاریں اور چین میں سو کے لگ بھگ نئے ہیروشیما کی مثالیں قائم کرنے سے گریز کریں خواہ ہمیں اس کی کتنی ہی بڑی قیمت ادا کرنی پڑے۔
فلسفی جرنیلوں کو ایڈمنڈ برک کی بات یاد دلاتا ہے جس نے کہا تھا ’’سیاست میں فراخدلی اور وسیع القلبی ہی اصل دانشمندی ہے‘‘ فلسفی حکمرانوں اور جرنیلوں سے کہتا ہے کہ وہ اس خط پر بھی غورکرتے چلیں جو ایک امریکی صدر نے چین اور روس کے ارباب اقتدار کے نام لکھا تھا اورکہا تھا ’’ آئیے ! ہم ایک دوسرے کے لیے اپنے اپنے ملک کے دروازے کھول دیں اور ثقافتی وفود کے تبادلوں کا انتظام کریں تاکہ ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھنے اور ایک دوسرے کے مسائل سے واقف ہونے کی راہ ہموار ہو۔
ہمیں ہرگز یہ خوف دامن گیر نہیں کہ آپ کا معاشی نظام ہمارے معاشی نظام کی جگہ لے لے گا اور نہ آپ کو اس اندیشے میں مبتلا رہنا چاہیے کہ ہمارا نظام آپ کے نظام کو بے دخل کردے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ دونوں نظاموں کے ایک دوسرے سے تعاون کے ذریعہ ہم دونوں پرامن طور پر ساتھ ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں۔ شاید ہم دونوں ہی اپنے دفاع کا معقول و مناسب انتظام کرتے ہوئے دوسری مملکتوں کے ساتھ عدم جارحیت اور دہشت گردی کے خاتمے کے معاہدوں کا بندوبست کرسکتے ہیں۔
ان معاہدوں کی بدولت ایک ایسا عالمی نظام معرض وجود میں آسکے گا کہ جس میں ہر قوم کی انفرادیت اور حاکمیت جوں کی توں قائم رہے اور اگر اس پر کوئی پابندی عائد بھی ہو تو صرف ان سمجھوتوں کی روشنی میں ہو جو کسی دباؤ کے بغیر آزادانہ طے کیے جائیں۔ ہم آپ سے کہتے ہیں کہ تاریخ کے معینہ راستوں سے انحراف کرتے ہوئے شائستگی اور مملکتوں کے مابین مہذب تعلقات کے فروغ کے لیے ہم نے جس عزم کا اظہار کیا ہے اس میں ہمارا ساتھ دیں۔
ہم اپنی عزت و توقیر کی خاطر پوری انسانی برادری سے یہ عہد کرتے ہیں کہ اس خطرناک کام کا بیڑا اٹھاتے ہوئے ہم پورے خلوص اور دیانت داری کا مظاہرہ کریں گے ، اگر یہ جوا ہے اور اگر ہم یہ بازی ہار بھی جائیں تو اس کے نتائج ان متوقع نتائج سے زیادہ برے نہیں ہوسکتے جو جنگ کی روایتی حکمت عملی پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں ظہور پذیر ہوں گے، اگر آپ اور ہم کامیاب ہوجائیں تو آنے والی نسلیں احسان مندی اور ممنونیت کے جذبات کے ساتھ صدیوں تک ہمیں یاد کرتی رہیں گی۔‘‘
یہ سن کر جرنیل کے لبوں پر مسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے اور وہ یوں گویا ہوتا ہے ’’ تم فلسفیوں نے تاریخ کے پڑھائے ہوئے سارے سبق بھلا دیے ہیں۔ بعض تنازعات اس قدر بنیادی نوعیت کے ہوتے ہیں کہ گفت و شنید کے ذریعہ ان کا حل ناممکن ہے اور یہ بھی ہے کہ طویل مذاکرات کے دوران بھی تخریب کاری کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ کوئی عالمی نظام کسی ایسے سمجھوتے کے تحت جو دو شریف آدمیوں کے مابین طے پا رہا ہو معرض وجود میں نہیں آئے گا۔
اس کی ایک ہی صورت ہے کہ کوئی ایک بڑی طاقت فیصلہ کن کامیابی حاصل کرلے تب وہ بڑی طاقت اس کی اہل ہوگی کہ بین الاقوامی قوانین کو منوا سکے اور اسے نافذ بھی کرسکے۔ طویل عرصہ تک امن کا دور دورہ نہ صرف غیر فطری ہے بلکہ اس کی حیثیت استثنائی ہے اور جوںہی فوجی طاقتوں کا توازن بگڑ جائے وہ درہم و برہم ہوکر رہ جائے گا۔ پس مملکتوں کے اتحاد اور امداد باہمی کی ایک ہی بنیاد ہوسکتی ہے اور وہ یہ کہ ان پر کوئی بیرونی حملہ آور ایک ساتھ چڑھائی کردے۔ ہوسکتا ہے کہ دوسرے ستاروں اور سیاروں کی کسی حوصلہ مند مخلوق کے ساتھ ہماری مڈ بھیڑ ہو جائے اور سیاروں کے مابین جنگ کا سلسلہ شروع ہوجائے، صرف اسی صورت میں ہم دنیا والے سب کے سب ایک ہوجائیں گے۔ ‘‘
دل دیوراں نے جرنیل اور فلسفی کے درمیان ہونے والا مکالمہ اسی جملے پر ختم کیا ہے لیکن دنیا کو ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ دنیا میں طاقت پر دانش کی فتح کب ہوتی ہے ، کیونکہ امریکا کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد عالمی سطح پر امریکا اور چین کے درمیان طاقت کا ٹکراؤ صاف نظرآ رہا ہے۔
طاقت پر دانش کی فتح ؟ - ایکسپریس اردو
امریکا کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد عالمی سطح پر امریکا اور چین کے درمیان طاقت کا ٹکراؤ صاف نظرآ رہا ہے۔
www.express.pk