سویدا
محفلین
طالبان کے بارے میں مولانا فضل الرحمن سے بی بی سی کا انٹرویو
http://www.bbc.co.uk/urdu/multimedia/2010/12/101201_moulana_fazlurrehman_interview.shtml
پاکستان میں تحریک طالبان کی کاروائیوں سے جس قدر خطرہ ملک کے ریاستی ڈھانچے کو ہے اتنا ہی ان معتدل مذہبی قوتوں کو بھی ہے جو اپنا مذہبی ایجنڈا آمریت سے اتحاد کی بجائے جمہوریت کے ذریعے آگے بڑھانا چاہتی ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کی جمیعت علماء اسلام کا شمار پاکستان میں جمہوریت پسند مذہبی قوتوں میں سرفہرست تھا۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سن دو ہزار دو میں متحدہ مجلس عمل کے قیام اور انتخابات میں ملک کے شمالی صوبے میں اس کی واضح اکثریت میں پاکستان کی فوجی قیادت کا بڑا ہاتھ تھا۔
اُس وقت پاکستان میں قومی سلامتی کے کرتا دھرتا اس دلیل کے قائل نظر آتے تھے کہ طالبان کا راستہ روکنے کا سب سے مؤثر طریقہ یہی ہے کہ معتدل مذہبی قوتوں کی قومی جمہوری دھارے میں شامل ہونے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ یوں یہ قوتیں خود طالبان کی ’آمرانہ اور جابر سوچ‘ کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی تھیں۔
لیکن اس تجزیے کے خالق کرداروں نے شاید یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ تب ہی ممکن ہو گا جب معتدل مذہبی قوتیں بھی طالبان کے سامنے اٹھ کھڑی ہونے کو تیار ہونگی۔ مشرف دور میں وفاق اور صوبوں میں کام کرنے والی منتخب مذہبی جماعتوں نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں ثابت کر دیا کہ وہ حکومت میں رہتے ہوئے یا حکومت سے باہر کسی بھی طور پر کھلم کھلا طالبان سے ٹکر لینے پر ہرگز تیار نہیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/multimedia/2010/12/101201_moulana_fazlurrehman_interview.shtml
http://www.bbc.co.uk/urdu/multimedia/2010/12/101201_moulana_fazlurrehman_interview.shtml
پاکستان میں تحریک طالبان کی کاروائیوں سے جس قدر خطرہ ملک کے ریاستی ڈھانچے کو ہے اتنا ہی ان معتدل مذہبی قوتوں کو بھی ہے جو اپنا مذہبی ایجنڈا آمریت سے اتحاد کی بجائے جمہوریت کے ذریعے آگے بڑھانا چاہتی ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کی جمیعت علماء اسلام کا شمار پاکستان میں جمہوریت پسند مذہبی قوتوں میں سرفہرست تھا۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سن دو ہزار دو میں متحدہ مجلس عمل کے قیام اور انتخابات میں ملک کے شمالی صوبے میں اس کی واضح اکثریت میں پاکستان کی فوجی قیادت کا بڑا ہاتھ تھا۔
اُس وقت پاکستان میں قومی سلامتی کے کرتا دھرتا اس دلیل کے قائل نظر آتے تھے کہ طالبان کا راستہ روکنے کا سب سے مؤثر طریقہ یہی ہے کہ معتدل مذہبی قوتوں کی قومی جمہوری دھارے میں شامل ہونے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ یوں یہ قوتیں خود طالبان کی ’آمرانہ اور جابر سوچ‘ کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی تھیں۔
لیکن اس تجزیے کے خالق کرداروں نے شاید یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ تب ہی ممکن ہو گا جب معتدل مذہبی قوتیں بھی طالبان کے سامنے اٹھ کھڑی ہونے کو تیار ہونگی۔ مشرف دور میں وفاق اور صوبوں میں کام کرنے والی منتخب مذہبی جماعتوں نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں ثابت کر دیا کہ وہ حکومت میں رہتے ہوئے یا حکومت سے باہر کسی بھی طور پر کھلم کھلا طالبان سے ٹکر لینے پر ہرگز تیار نہیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/multimedia/2010/12/101201_moulana_fazlurrehman_interview.shtml