طالبان بچوں کو جنگ کے لئے استعمال کر رہے ہیں

طالبان بچوں کو جنگ کے لئے استعمال کر رہے ہیں

طالبان بڑی تعداد میں بچوں کو جنگ کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ صوبہ قندوز میں گزشتہ برس کے دوران تقریباً 100 بچوں کو جن کی عمریں 13 سے 17 سال تھیں، لڑائی کے لیے بھرتی کیا گیا۔ اس سلسلے میں طالبان نے مدرسوں کو استعمال کیا اور وہاں پر بچوں کو عسکری تربیت دی۔ آج کی دنیا میں بچوں کو خودکش حملہ آوروں کے طور پر استعمال کیا جانا سب سے زیادہ وحشیانہ اور انسانیت سوز جرم ہے- اس دوران انہیں اسلحہ اور بم استعمال کرنے کے علاوہ بم بنانا بھی سکھایا گیا۔ طالبان اس مقصد کے لیے خاص طور پر غریب خاندان کے بچوں کو استعمال کرتے رہے ہیں کیونکہ اکثر غریب بچے اسکول نہیں جا پاتے اور مدرسوں میں انہیں کھانا اور کپڑے مفت دیے جاتے ہیں۔ طالبان چھ سال کے بچوں کو عسکری تربیت دینا شروع کرتے ہیں۔ یہ افغانستان کے وہ بچے، جن کے ہاتھوں میں قلم نہیں ہتھیار آئے۔​

افغانستان سمیت پوری دنیا میں جنگ سے متاثرہ علاقوں میں جہاں ایک طرف بربریت کے واقعات رونما ہوتے ہیں وہاں بچے سب سے زیادہ متاثر اور تشدد کا شکار ہورہے ہیں۔ اب بھی طالبان اور دیگر مسلح گروہ انھیں جنگ میں استعمال کر رہے ہیں۔ان بچوں کو خودکش بمبار،اسلحہ کی تیاری اور بارودی موادایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کیلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس وقت سینکڑوں بچے طالبان کے قبضے میں ہیں، ان کا انجام بھیانک ہوگا کیونکہ طالبان کا مقصد ایسے نوعمر خودکش حملہ آوروں کا جال بچھانا ہے جو ان کی انگلی پر ناچیں- علماء نے اسلام کے تصور جہاد اور اس کے شرعی طریقہ کار پر بھی روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ اسلامی طریقہ جنگ میں کون کون سی قیود اور شرائط ہیں جن کی پابندی ناگزیر ہے۔ اسلام جنگ میں سفیروں، عورتوں، بچوں، اہل کتاب کے قتل کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ لاشوں کا مثلہ کرنے کو حرام قرار دیتا ہے۔
بین الاقوامی قانوں کے مطابق فوج کی بھرتی کےل ئے کم از کم عمر ۱۸ سال ہے اور اس سے کم عمر بچوں کو جنگ کی تربیت دینا یا جنگ کے لئے بھرتی کرنا وار کرائمز کے زمرہ میں آتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق طالبان نے اپنے دعووں کے برعکس سب سے زیادہ نابالغ بچوں کو جنگ کے لئے بھرتی و استعمال کیا۔

اقوام متحدہ نے افغانستان میں بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں اور مسلح گروپوں کی جانب سے انہیں جہاد کیلئے بھرتی کرنے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی بچوں کے حقوق ومسلح کشیدگی بارے جاری کی گئی اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی ادارے کو 97ایسے بچوں کے حوالے سے شواہد ملے ہیں جن کی عمر آٹھ سال ہے اور انہیں طالبان اور حقانی نیٹ ورک نے جہاد اور خودکش حملوں کیلئے بھرتی کیا،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2013ء میں پیش آنیوالے ایک واقعے میں پندرہ سالہ لڑکے نے صوبہ غزنی میں مقامی پولیس کو حملے کا نشانہ بنایا،رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومتی فورسز بھی بچوں کو لڑائی کیلئے بھرتی کرنے میں ملوث ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ افغانستان میں بچوں کے حقوق کی یہ خلاف ورزیاں تشویش کا باعث ہیں۔
اقوام متحدہ نے افغانستان کے ان تمام فریقین کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، جو بچوں کو بطور فوجی استعمال کر رہے ہیں اور عسکری گروپ بچوں کی بھرتی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی سرحد کے قریب بھی طالبان بڑی تعداد میں نابالغوں کو جنگ کے لیے استعمال کر رہے۔ گزشتہ برس کے وسط سے طالبان نے بچوں کو بھرتی کرنے کا عمل تیز تر کر دیا ہے۔

اسلامی شریعہ کے مطابق بچوں پر جہاد واجب نہ ہے۔جمہور فقہاء اور علماء کے نزدیک جہاد فرضِ کفایہ ہے، فرض عین نہیں کیونکہ ہر وہ چیز جو گروہ کے لیے فرض ہو ہر ایک کے لیے نہ ہو فرضِ کفایہ کہلاتی ہے۔ حنیفہ، مالکیہ اور حنابلہ اس بات پر متفق ہیں جب کہ بعض شافعی فقہاء نے بھی یہی کہا ہے۔ جہاد فرض نہیں ہے بچے، پاگل، عورت اور اس شخص پر جو کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو جس کی وجہ سے وہ جہاد نہ کر سکے۔
علماء کرام کا اتفاق ہے کہ [ فرض کفایہ ] جہاد مسلمان والدین کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے ماں باپ کی غیر موجودگی میں دادا دادی کا بھی یہی حکم ہے بلکہ صحیح قول کے مطابق والدین کے ہوتے ہوئے بھی دادادادی سے اجازت ضروری ہے
عین حالتِ جنگ و قتال میں بھی ایسے کافروں کو قتل کرنا جائز نہیں جو جنگ میں حصہ نہیں لیتے۔ مثلاً چھوٹے بچے، عورتیں، بوڑھے، اپاہج، اندھے، دیوانے، مندروں اور عبادت خانوں میں مشغولِ عبادت رہنے والے، بشرطیکہ وہ جنگ میں حصہ نہ لیں۔ (تو بھیا خودکشں حملہ آور کے کام کو جائز قرار دینے والے خود کش حملہ کے نتیجے میں ہونے والے معصوم اور بے گناہ لوگوں کے قتل کے کام کو کس طرح جائز قرار دے سکتے ہیں جبکہ صریحتاً حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مندرجہ ذیل واقعہ سامنے ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کے اس گزرے واقعے کے بعد جس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کافر عورت کے قتل پر بھی بہت افسوس کا اظہار کیا تھا اس کے بعد بھی ایسی حرکتیں کرنا صریحتاً شریعت کی نافرمانی نہیں ہے اللہ مجھے اور ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے آمین

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک میدانِ جنگ میں کسی کافر عورت کو مقتول پایا تو بہت افسوس کا اظہار فرما کر فرمایا کہ یہ تو جنگ کرنے والی نہ تھی، اس کو کیوں قتل کیا گیا؟
معصوم شہریوں، عورتوں اور بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانا، قتل و غارت کرنا، خود کش حملوں کا ارتکاب کرنا اورپرائیوٹ، ملکی و قومی املاک کو نقصان پہنچانا، مسجدوں پر حملے کرنا اور نمازیوں کو شہید کرنا ، عورتوں اور بچوں کو شہید کرناخلاف شریعہ ہے اور جہاد نہ ہے،جہاد تو اللہ کی خشنودی کے لئے اللہ کی راہ میں کیا جاتا ہے۔
کسی بھی انسا ن کی نا حق جان لینا اسلام میں حرام ہے۔ دہشت گردی قابل مذمت ہے، اس میں دو آراء نہیں ہو سکتیں۔دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں یہ بھی مسلم ہے۔ اور نہ ہی کوئی مذہب اس کی اجازت دے سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔‘‘( المائدة، ۳۲-۵ )
”وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹو ں پر شفقت نہ کرے۔
شریعت کا نفاذ چاہنے والے ،شریعت سے مبرا ہیں اور شریعت طالبان پر لاگو نہیں ہوتی؟ طالبان شریعہ کو خود کے لئے نہیں ،دوسروں کے لئے پسند کرتے ہیں،ان کوشرعیہ کی پابندی سے معافی ہے؟
اسلامی شریعہ کے مطابق جہاد کا فیصلہ افراد نہیں کر سکتے،یہ صرف قانونی حکومت کر تی ہے۔ طالبان حکومت نہ ہیں بلکہ چوروں،ٹھگوں اور قاتلوں کاایک گروہ ہیں لہذا طالبان کا نام نہاد جہاد ،بغاوت کے زمرہ میں آتا ہے۔
اسلامی شریعہ کے مطابق جنگ میں طاقت کااستعمال ان لوگوں تک محدود ہونا چاہیے جو میدانِ جنگ میں جنگی کارروائیوں میں حصہ لے رہے ہوں۔ عورتوں اور بچوں کا قتل اسلامی تعلیمات کے مطابق حالت جنگ میں بھی جائز نہ ہے۔اور نہ ہی عورتوں اور بچوں کو جنگ کا ایندھن بنایا جا سکتا ہے۔ طالبان کیا کررہے ہیں ؟
اسلامی شریعہ کے مطابق ۔ ایک بے گناہ فرد کا قتل ، پوری انسانیت کا قتل ہوتا ہے۔
 

اکمل زیدی

محفلین
پہلی بات بچوں کو استعمال والی بات تو بہت پرانی ہوگئی ہے ...یہ پکےذہن والے ایسے ہی کچے ذہن کو استعمال کرتے ہیں رہی اسلامی شریعت والی بات ..تو اس سے ان کا پہلے کب واسطہ رہا ہے ....
 
Top