فطرت انسان کی ہوتی ہے، علاقہ سے فطرت پر فرق نہیں پڑتا ۔ افریقہ کا شیر اور ہندوستان کا شیر کوئی الگ فطرت نہیں رکھتا دونوں کی فطرت میں شکار کرنا ہے ۔ بس دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آخر منگولوں کے خلاف انہی قبائیلیوں کی فطرت کیوں سو گئی تھی ۔ جب تیمور ان پر قابض تھا تو ان کی فطرت کہاں تھی؟ اور جب مغل اس علاقہ پر قابض تھے تو ان کی فطرت کدھر تھی؟ جب ایرانی یہاں تھے تو یہ فطرت کیوں سوئی رہی؟ یا جب سکھ یہاں حکومت کرتے رہے تو فطرت کہاں گئی ۔ ان کی فطرت کے خوف سے آپ جب نکل آئیں گے تو یہ فطرت تب بھی موجود نہیں ہو گی۔
فطرت کا ماحول اور علاقہ سے ہی تعلق ہوتا ہے۔ جنگل اور سرکس کے شیر کی فطرت بہت مختلف ہوتی ہے ، ایک شکار کرتا ہے اور دوسرا کرتب دکھاتا ہے۔
منگولوں تو ہندوستان بھی فتح نہیں کر سکے ، قبائلی تو دور کی بات ہے ۔
تیمور چین فتح کرنے کی کوشش میں ہی مر گیا تھا اور ہم جس علاقہ کی بات کر رہے ہیں وہ قبائلی علاقہ چین سے متصل ہی ہے۔
مغل بھی اس علاقہ پر قابض نہیں ہو سکے تھے ، اورنگ زیب کے زمانے میں مغلوں سے پشتونوں کے مشہور شاعر خوشحال خاں خٹک کی لڑائیاں شاید ذہن سے محو ہو گئیں یا توجہ نہیں دی۔
ایرانی کس زمانے میں یہاں حکومت کرتے رہے ہیں۔
سکھوں کی حکومت کے دوران میں ہی بالا کوٹ کا مشہور معرکہ بھی ہوا۔
میں خوف میں مبتلا نہیں ہوں مگر زمینی حقائق سے بھی بے خبر نہیں۔
مغلوں کے دور سے لے کر آج تک یہ علاقہ باقاعدہ کسی حکومت کے تحت چند سالوں سے زیادہ نہیں ٹھہرا اور بہت مضبوط حکومتوں کو بھی ان سے معاہدے ہی کرنے پڑے ہیں۔
امریکہ اور نیٹو کی مجبوری ہے کہ وہ اس علاقہ کے باسی نہیں ہیں، اس لئے یہاں کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے وہ اپنے مفادات کو مقدم رکھتے ہیں۔ اپنے مفادات کی خاطر وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا مذاکرات کرنا ہیں یا نہیں اور یہی اصول وہ مدنظر رکھتے ہیں ۔ یہ کیسی شکست ہے امریکہ کی کہ کابل میں بیٹھ کر اپنی مرضی کی حکومت پچھلے چودہ سال سے چلوا رہا ہے اور جب چاہتا ہے مذاکرات کرے یہ نام نہاد مجاہد بھاگتے چلے آتے ہیں چاہے دبئی بلوا لے یا کہیں اور ۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اسی علاقہ کے باسی ہیں اور ہم امریکہ یا نیٹو کی طرز پر اس سے سرف نظر نہیں کر سکتے۔ آج یا کل ہمیں اس کو حل کرنا ہی ہو گا، آج حالات ہمارے ساتھ ہیں تو بہتر ہوگا کہ اس آج ہی حل کر کے مستقبل میں محفوظ پاکستان کی طرف قدم بڑھائے جائیں ۔
امریکہ اور نیٹو نے اس مجبوری کا بھرپور فائدہ یہ اٹھایا تھا کہ جی بھر کر بمباری کی تھی جس کے لیے خصوصی اصطلاح "carpet bombing" ہے مگر اس کے باوجود بھی کابل سے باہر ان کی کنٹرول نہیں ہے۔ ان کی ایک بڑی مجبوری یہ بھی تھی اور اب بھی ہے کہ وہ طالبان اور القاعدہ کو اپنا ذاتی دشمن کہہ کر آئے تھے اور انہیں ختم کرنے کا مشن لے کر پہنچے تھے جس میں سے اب وہ طالبان کو استثنی دینے کے لیے تیار ہیں۔
آپ کے لیے فتح ہی ہوگی کہ کابل تک بیٹھ کر امریکہ اپنی مرضی کی حکومت چلا رہا ہے اور باہر کے صوبے اس کے کنٹرول سے باہر ہیں اور مذاکرات ان سے کرنے پڑ رہے ہیں جنہیں وہ دشمن نمبر 1 کہا کرتا تھا۔ ویسے بتاتا چلوں کہ کابل پر روس بھی حکومت کرتا رہا تھا انخلا سے پہلے تک مگر اسے فتح نہیں کہتے ۔ آپ کو شاید 2014 میں اس کا یقین آئے گا کہ فتح کیا ہوتی ہے۔
ہم نے مسئلہ کو حل کرنا ہے نہ کہ غیر ملکیوں کی طرح طاقت کا اندھا دھند استعمال کرکے پھر ایک لمبے عرصہ کے لیے وبال اور خانہ جنگی چھیڑ لینا کیونکہ ہمارے پاس یہاں سے نکل جانے کی کوئی آپشن نہیں ہوگی ۔ طاقت کا استعمال آخری حل ہوتا ہے اور یہ کبھی بھی دیرپا حل نہیں ہوتا اس سے صرف وقتی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں ، طاقت کا استعمال ابھی بھی جاری ہے مگر دوسری کوئی بھی حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے جو چند کامیابیاں ہوتی بھی ہیں وہ ضائع ہو جاتی ہیں۔
عمران خان دیرپا اور مسئلہ کی جڑ کو ختم کرنے کا حل پیش کر رہا ہے یعنی امریکی جنگ سے علیحدگی جو کہ پہلا قدم ہوگا اور پھر اپنی شرائط اور اصولوں پر مذاکرات اور پھر جو مذاکرات اور بات چیت کے لیے تیار نہ ہو اس سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل۔ یہ کئی بار دہرایا جا چکا ہے کہ مذاکرات آئین پاکستان کے تحت ہی ہوں گے جو نہیں ماننا چاہے گا وہ علیحدہ ہو جائے گا اور اکثریت قبائلیوں کی آئین کو مانتی ہے اور اس کے تحت شرپسندوں اور دشمنوں سے علیحدہ بھی ہوگی اور سیکوریٹی فورسز کے ساتھ بھی ہوگی۔
میرے جیسے لوگوں کی کیا اہمیت ہے، یہ تو کئی مواقع پر جرنیل خود کہہ چکے ہیں ۔ پھر جنگ فوج نہیں لڑتی وہ فوج لڑتی ہے جس کے ساتھ یقین ہو کہ عوام اس کے ساتھ ہیں ۔ اب خود بتائیں فوج کے جوان شہید ہو رہے ہوں اور ایک موصوف اظہار ہکجہتی کا جلسہ منعقد کرنے وہاں جا پہنچیں اور کہیں کہ ظالم فوج کو نکالو یہاں سے تو کونسی فوج کا مورال بلند رہے گا ۔ جب یہ سوچ عوام میں ختم ہو گی فوج کا آپریشن کامیاب ہو جائے گا ۔ سوات کی مثال آپ کے سامنے ہے ۔
جرنیل کئی علاقہ بازیاب کروا کر حکومت کے حوالے کر چکے تھے مگر حکومتی نااہلی اور عدم توجہ سے وہ علاقہ پھر عدم استحکام کا شکار ہو چکے ہیں۔
آپ جیسے لوگوں کا تو یہ حال ہے کہ وہ چند شرپسندوں کی موجودگی کی وجہ سے پورے علاقہ کے لوگوں کو غیر سمجھتے ہیں اور ان کا وجود قبول کرنے سے بھی انکاری ہیں۔
قبائلی پاکستان کے لوگ ہیں بالکل اسی طرح جس طرح پنجاب ، سندھ ، بلوچستان کے لوگ ہیں۔ ان لوگوں نے پاکستان کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں اور اب بھی سب سے زیادہ تکلیف وہی اٹھا رہے ہیں۔ ایک طرف ڈرون حملوں میں مارے جا رہے ہیں ، دوسری طرف طالبان اور تمام شرپسند انہیں مار رہے ہیں اور تیسری طرف وہ افواج کے آپریشن میں مارے اور بے گھر ہو رہے ہیں۔
ان سے اظہار یکجہتی پر آپ کو یقینا بہت رنج اور تکلیف پہنچی ہے کیونکہ آپ کے اندازے کے مطابق تو ان کا وجود اب تک افواج کے ہاتھوں ختم ہو جانا چاہیے تھا مگر عوام کی اکثریت ان سے ہمدردی رکھتی ہے اور اس کے اظہار کو ہم نے دیکھا تھا۔ افواج بھی وہاں آپریشن ان سے مل کر بلکہ بہت سی جگہوں پر ان کو آگے کر کے ہی لڑ رہی ہے۔
وزیرستان میں فوج کے آپریشن کے دوران پہلی دفعہ افواج پاکستان کے جرنیل نے ایک حصہ کو اپنے ساتھ ملا کر دوسرے حصہ کے خلاف کاروائی کی کیونکہ ہر طرف محاذ کھولنے کے خطرے کو آپ شاید نہ سمجھتے ہوں مگر فوج جانتی ہے وہ اپنے محدود وسائل اور چومکھی لڑائی میں چند لوگوں کی سب کو کچل دو ، مٹا دو کے جذباتی نعروں پر نہیں چلتی۔