طالبان کا ن لیگ، تحریک انصاف، جے یو آئی، جماعت اسلامی کو نشانہ نہ بنانے کا اعلان

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سویدا

محفلین
یہ ڈرامہ یہ ہے کہ کسی طرح پاکستانی انتخابی سیاست کو دائیں اور بائیں بازوؤں کی جماعتوں میں تقسیم کر دیا جائے (اپنی مرضی سے)۔ یعنی جسے طالبان بخش دیں وہ دائیں بازو کی جماعت اور جو نشانہ بنے وہ بائیں بازو کی۔

کل جب انتخابات ہوں گے تو انہیں بنیادوں پر الیکشن کے نتائج کو قبول کرنے اور نہ کرے کا عمل ہوگا۔ اور بائیں بازو قرار دی جانے والی جماعتیں بیرونی دنیا کی حمایت کی مستحق بھی ہوں گی۔

آج تک سمجھ نہیں آیا کہ طالبان کس کے لئے کام کرتے ہیں؟

میری نظر میں بالکل صحیح تجزیہ پیش کیا ہے آپ نے
جلد یا بدیر سب کی سمجھ آہی جائے گی
 
یہ کیا ٹوپی ڈرامہ ہے بھئی؟ تحریکِ انصاف کے حامی اس خبر کی کس طرح توجیہ کریں گے؟

تحریک انصاف والے کیا طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ہیں جو اس کی توجیہ کریں حسان ؟

برسر اقتدار جماعتیں پانچ سال حکومت کرتی رہی ہیں اور مجھے ذرا بتائیں کہ ان لوگوں نے انسداد دہشت گردی کے لیے جو پالیسی اور ادارہ بنایا تھا اسے سوائے نمائش بنانے کے اور بھی کچھ کیا ہے۔
اب یہ جماعتیں ملک کو سنگین بحرانوں میں ڈال کر مظلوم بن رہی ہیں کہ ہم پر حملے ہو رہے ہیں اور باقی جماعتیں الیکشن مہم چلا رہی ہیں۔

الیکشن مہم پنجاب میں ہی چل رہی ہے وہاں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کیوں نہیں جلسہ کر رہے ۔

کراچی میں تو تحریک انصاف کو بھی جلسہ منسوخ کرنا پڑا ہے۔


طالبان کی اپنی سوچ ہے اور ان کی سوچ کی وضاحت اور ذمہ داری ان پر ہی ہے ، کسی اور جماعت اور طبقہ پر نہیں ۔
 
اور یہ تحریکِ انصاف کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہو گا۔

اگر تحریکِ انصاف واقعی مخلص ہے تو اِسے طالبان سے اپنی مبینہ ہمدردی کی پرزور تردید کرنی چاہیے۔ لیکن شاید اس کی قیادت کو اس سے جان کے لالے پڑ جائیں۔ :)

بات صرف قیادت کی نہیں ہے حسان ، تحریک انصاف کا جو ووٹر اور حامی خیبر پختونخواہ میں ہے وہ سب سے پہلے زد پر آئے گا اور تحریک انصاف جسے پہلے ہی پنجاب میں ایک سخت مقابلہ درپیش ہے اس کی توجہ بٹ جائے گی اور خیبر پختونخواہ میں بھی جمعیت علمائے (ف) گروپ کو اس کا فائدہ ہو جائے گا جس کے لیے وہ یہودی اور قادیانی کی حمایت کا الزام مسلسل عمران پر لگا رہے ہیں۔

اس وقت سب سے زیادہ ہدف تنقید کا نشانہ تحریک انصاف ہے کیونکہ باقی تمام جماعتوں سے یہ جماعت ہٹ کر ہے اور اس کے آنے سے روایتی سیاست میں گہری دراڑیں پڑتی نظر آ رہی ہیں۔
 

جہانزیب

محفلین
تحریک انصاف والے کیا طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ہیں جو اس کی توجیہ کریں حسان ؟
طالبان کی اپنی سوچ ہے اور ان کی سوچ کی وضاحت اور ذمہ داری ان پر ہی ہے ، کسی اور جماعت اور طبقہ پر نہیں ۔
جی حضور تحریک نے اس بارے میں کافی تگ و دو کی ہے کہ ان معصوم مسلمانوں کو ہم ناعاقبت اندیش مسلمانوں سے بدگمانیاں پیدا ہو گئی ہیں ہمارے اعمال کی وجہ سے ان سے درگزر کر کے ان کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں ۔ وہ بھلے یہ کہتے رہیں کہ جمہوریت غیرشرعی ہے لیکن ہم مذاکرات سے یہ ملک میں دہشت گرد اقتدار میں آتے ہی حل کردیں گے۔ وہ تو بیچارے بات کرنے کے لئے بے چین ہیں مگر دیگر جماعتیں ایسا مفادات کی وجہ سے نہیں کرنا چاہتی ہیں ۔ کیا خیال ہے اگر تحریک انصاف یہ کہہ سکتی ہے تو اس بیان کے بارے میں کیوں کچھ نہیں کہہ سکتی؟
 
جی حضور تحریک نے اس بارے میں کافی تگ و دو کی ہے کہ ان معصوم مسلمانوں کو ہم ناعاقبت اندیش مسلمانوں سے بدگمانیاں پیدا ہو گئی ہیں ہمارے اعمال کی وجہ سے ان سے درگزر کر کے ان کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں ۔ وہ بھلے یہ کہتے رہیں کہ جمہوریت غیرشرعی ہے لیکن ہم مذاکرات سے یہ ملک میں دہشت گرد اقتدار میں آتے ہی حل کردیں گے۔ وہ تو بیچارے بات کرنے کے لئے بے چین ہیں مگر دیگر جماعتیں ایسا مفادات کی وجہ سے نہیں کرنا چاہتی ہیں ۔ کیا خیال ہے اگر تحریک انصاف یہ کہہ سکتی ہے تو اس بیان کے بارے میں کیوں کچھ نہیں کہہ سکتی؟

اچھا اور مسلم لیگ (ن) کا کیا کہنا ہے جناب اس بارے میں ۔

کیا ان کا موقف یہ ہے کہ طالبان کے خلاف بھرپور سطح پر فوج چڑھائی جائے گی اور ان کا ایک ایک کارندہ طاقت سے ختم کر دیا جائے گا اور جب تک ایسا نہیں ہوگا مسلم لیگ (ن) چین سے نہیں بیٹھے گی۔

ویسے یہ جہانزیب صاحب کا خیال تو ہو سکتا ہے نواز شریف کی سوچ نہیں ، وہ بھی مذاکرات کرنے پر کئی بار بات کر چکے ہیں اور یہی پالیسی لیے ہوئے ہیں ، افسوس کے ساتھ ۔
 

جہانزیب

محفلین
اچھا اور مسلم لیگ (ن) کا کیا کہنا ہے جناب اس بارے میں ۔
ان کا موقف یہ ہے کہ طالبان کے خلاف بھرپور سطح پر فوج چڑھائی جائے گی اور ان کا ایک ایک کارندہ طاقت سے ختم کر دیا جائے گا اور جب تک ایسا نہیں ہوگا مسلم لیگ (ن) چین سے نہیں بیٹھے گی۔
ویسے یہ جہانزیب صاحب کا خیال تو ہو سکتا ہے نواز شریف کی سوچ نہیں ، وہ بھی مذاکرات کرنے پر کئی بار بات کر چکے ہیں اور یہی پالیسی لیے ہوئے ہیں ، افسوس کے ساتھ ۔
میرا موقف بالکل واضح ہے اس بارے میں کہ جو شخص بھی حکومتی عملداری میں تشددکے ذریعہ رخنہ ڈالے اس کے خلاف کاروائی کرنا حکومت پر لازم ہے ۔ یہ اگر پاکستان مسلم لیگ کا موقف نہیں تو بھی افسوس ہے ۔ ہر ظالم سے ظلم کا بدلہ لینا حکومت کا فرض ہے وہ ظالم چاہے طالبان کے نام سے ہوں یا کوئی اور بھتہ خور گروہ ۔ کیا آپ کو اس بات پر اعتراز ہے؟ آپ فرمائیں کہ 2013 میں بم دھماکوں میں جو افراد شہید ہوئے جن کا سہرا طالبان اپنے سر باندھ رہے ہیں اس کا حل کیا ہے؟ چلو چھڈو جی کوئی گل نہیں طالبان پائی جان تسی دسو اسی کہیہ کرئیے ہن؟
 
میرا موقف بالکل واضح ہے اس بارے میں کہ جو شخص بھی حکومتی عملداری میں تشددکے ذریعہ رخنہ ڈالے اس کے خلاف کاروائی کرنا حکومت پر لازم ہے ۔ یہ اگر پاکستان مسلم لیگ کا موقف نہیں تو بھی افسوس ہے ۔ ہر ظالم سے ظلم کا بدلہ لینا حکومت کا فرض ہے وہ ظالم چاہے طالبان کے نام سے ہوں یا کوئی اور بھتہ خور گروہ ۔ کیا آپ کو اس بات پر اعتراز ہے؟ آپ فرمائیں کہ 2013 میں بم دھماکوں میں جو افراد شہید ہوئے جن کا سہرا طالبان اپنے سر باندھ رہے ہیں اس کا حل کیا ہے؟ چلو چھڈو جی کوئی گل نہیں طالبان پائی جان تسی دسو اسی کہیہ کرئیے ہن؟

یہ سوال آپ مسلم لیگ (ن) کے حامی ہیں ، آپ بتائیں کہ آپ کی پارٹی کی کیا پوزیشن ہے اور وہ اس مسئلہ کو کیسے حل کرے گی ۔

طالبان ہوا سے نہیں آ رہے ، قبائلی بیلٹ میں ان کی حمایت موجود ہے اور جب تک آپ ان کے حامیوں میں سے لوگ کم نہیں کریں گے مختلف تدابیر سے تب تک یہ عفریت آسانی سے بیٹھنے والا نہیں۔ آپ کی ڈیڑھ لاکھ فوج اس وقت بھی وہاں موجود ہے اور مزید کتنی فوج آپ وہاں جھونک سکتے ہیں اور معیشت تباہی کے دہانے پر ہے ، اس میں سرکاری ملازمین کو پیسے دینے کے لیے بھی آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لینا پڑنا ہے۔

یہ لکھ دینا اور کہہ دینا بہت آسان ہے کہ ہر ظالم سے ظلم کا بدلہ لینا حکومت کا فرض ہے مگر اسے قابل عمل لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ مذاکرات کا مطلب یہ ہے کہ کچھ گروہ اور لوگوں کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ حکومت سے بات چیت کرکے کچھ یقین دہانیوں کے بعد طالبان کا ساتھ چھوڑ دیں اور اس کے بعد یقینی طور پر باقی متشدد گروہ کے خلاف طاقت استعمال ہوگی مگر وہ محدود اور مرتکز ہوگی جس میں وہاں کے ایسے قبائلی حکومت کے ساتھ ہوں گے جو ان سے تنگ ہیں اور جو حکومتی یقین دہانیوں کے بعد حکومت کے ساتھ ہوں گے۔

یہ ایک بہت بڑا اور مشکل مسئلہ ہے ، اس پر ایک قومی پالیسی بنانی ہوگی اور میرا خیال ہے عمران ہو یا نواز شریف دونوں اب اس پر ایک قومی پالیسی پر عمل پیرا ہوں گے اور اس نکتہ پر کم از کم اتفاق کریں گے ۔
 

جہانزیب

محفلین
آپ نے تو حد ہی کردی جناب عمران خان صاحب کو نوازشریف کے ساتھ ملادیا ۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ کہ میری پارٹی کوئی بھی نہیں ہے، ہاں البتہ اپنے محدود وسائل اور ذہنی استعطاعت کے مطابق جو جماعت مجھے بہتر لگتی ہے اس کی حمایت کر رہا ہوں ۔
اب سوال یہ ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ مذاکرات پہلے ہونا چاہیں اور جو نہیں مانتے ان کے خلاف کاروائی بعد میں ہونا چاہیے، لیکن پہلے مذاکرات کس بات پر ہوں گے۔ اپنے تئیں تو اللہ کی مدد بھی ان لوگوں کے ساتھ ہے تو جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ ان کے ساتھ ہے وہ کیونکر اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹیں گے بلکہ مذاکرات کی صورت میں وہ اسے اللہ کی مدد اور اپنی فتح گردانیں گے ۔ پہلے انہیں طاقت سے باور کروانا ضروری ہے کہ اللہ ان کے ساتھ نہیں ہے جب مار کھائیں گے تو مذاکرات کی طرف ہی آئیں گے ۔
اب رہ گئی یہ بات کہ آپریشن وہاں ہو رہا ہے وغیرہ ۔ آپریشن محدود پیمانے پر ہے دکھاوے کے لئے ہے حقیقت میں ہوتا تو آج ان ٹی ٹی پی کا نشان نہ ہوتا اور ایسا کیوں ہے اس کے لئے ایک لمبی چوڑی بحث کی جا سکتی ہے ۔
 
آپ نے تو حد ہی کردی جناب عمران خان صاحب کو نوازشریف کے ساتھ ملادیا ۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ کہ میری پارٹی کوئی بھی نہیں ہے، ہاں البتہ اپنے محدود وسائل اور ذہنی استعطاعت کے مطابق جو جماعت مجھے بہتر لگتی ہے اس کی حمایت کر رہا ہوں ۔
اب سوال یہ ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ مذاکرات پہلے ہونا چاہیں اور جو نہیں مانتے ان کے خلاف کاروائی بعد میں ہونا چاہیے، لیکن پہلے مذاکرات کس بات پر ہوں گے۔ اپنے تئیں تو اللہ کی مدد بھی ان لوگوں کے ساتھ ہے تو جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ ان کے ساتھ ہے وہ کیونکر اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹیں گے بلکہ مذاکرات کی صورت میں وہ اسے اللہ کی مدد اور اپنی فتح گردانیں گے ۔ پہلے انہیں طاقت سے باور کروانا ضروری ہے کہ اللہ ان کے ساتھ نہیں ہے جب مار کھائیں گے تو مذاکرات کی طرف ہی آئیں گے ۔
اب رہ گئی یہ بات کہ آپریشن وہاں ہو رہا ہے وغیرہ ۔ آپریشن محدود پیمانے پر ہے دکھاوے کے لئے ہے حقیقت میں ہوتا تو آج ان ٹی ٹی پی کا نشان نہ ہوتا اور ایسا کیوں ہے اس کے لئے ایک لمبی چوڑی بحث کی جا سکتی ہے ۔

مار کھانے اور پیچھے ہٹنے والی ان کی فطرت نہیں ہے ورنہ ایسا نہیں ہے کہ ان کا نقصان نہیں ہوا یا ان کے بندے مارے نہیں گئے ہیں مگر وہ قبائلی سوچ رکھتے ہیں اور آخری حد تک لڑنے اور بدلہ لینے کے جنون میں ہمہ وقت مبتلا رہتے ہیں۔

اچھا وہاں تو دکھاوے کے لیے آپریشن ہو رہا ہے ، افغانستان میں بھی دکھاوے کے لیے امریکہ اور نیٹو کا آپریشن پچھلے 12 سال سے جاری ہے ؟
دنیا کی واحد سپر پاور اور ان کے اتحادی جو دنیا کی تمام بڑی طاقتیں ہیں وہ سب مل کر بھی مار نہیں سکیں اور مذاکرات کی طرف ہی آ رہے ہیں ، اگر وہ بھی دکھاوے کا آپریشن ہی کر رہے ہیں تو پھر آپ جیسے" ہر صورت طاقت" کے استعمال کے حامی کوئی اور سیارہ ڈھونڈیں جہاں یہ مشق کی جا سکے۔

پاکستانی فوج کا آپریشن ہزاروں جوان شہید کروا کر بھی آپ جیسے لوگوں کے لیے "دکھاوا" ہی ہے تو پھر بہتر ہے اس دکھاوے سے ہی جان چھڑائی جائے جو کسی کو بھی مطمئن نہ کر پایا۔
 
یہ ڈرامہ یہ ہے کہ کسی طرح پاکستانی انتخابی سیاست کو دائیں اور بائیں بازوؤں کی جماعتوں میں تقسیم کر دیا جائے (اپنی مرضی سے)۔ یعنی جسے طالبان بخش دیں وہ دائیں بازو کی جماعت اور جو نشانہ بنے وہ بائیں بازو کی۔

کل جب انتخابات ہوں گے تو انہیں بنیادوں پر الیکشن کے نتائج کو قبول کرنے اور نہ کرے کا عمل ہوگا۔ اور بائیں بازو قرار دی جانے والی جماعتیں بیرونی دنیا کی حمایت کی مستحق بھی ہوں گی۔

آج تک سمجھ نہیں آیا کہ طالبان کس کے لئے کام کرتے ہیں؟

صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ طالبانوں نے ایسے بیان دے کر ان پارٹیوں کی پوزیشن کمزور کی ہے جن کی انہوں نے حمایت کی ہے اور در پردہ ان کی مدد کی ہے جن کو الیکشن مہم سے روکنے کا کہا ہے۔
ہر شے الٹ ہے اس سیاست میں۔ ظاہر ہے حد درجہ مفاد پرست وہ جماعتیں جو اقتدار کے علاوہ بھی "کافی کچھ" چاہتی ہیں ان کا اور پاکستان کے دشمنوں تمام دہشتگردوں اور طالبان کا اپنے اپنے مفادات کے لیے ایکا ہے دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہو گئے ہیں اور اب ان کو لگ رہا ہے کہ اے این پی اور ایم کیو ایم کے بغیر ان کے لیے مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ اس لیے سیدھا سیدھا نشانہ بنایا گیا ان جماعتوں کو جن کی انہوں نےحمایت کی ہے۔

یہ ایسا ہی ہے جیسے مشرف کے دور میں سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت لائی گئی، کیوں کے کرتوں دھرتوں کو پتہ تھا کہ ایم ایم اے کی حکومت میں ہی دہشت گرد اسلامی لبادے میں مقامی طور پہ ہمدردی حاصل کر کے مقامی طور پہ مضبوط ہو سکتے ہیں، اب یہ تو سب ہی کو پتہ ہے ان میں جتنی عقل ہوتی ہے سازش اور حقیقت سمجھنے کی۔
بس مذہب کا نام لیا اور لبیک۔
 

جہانزیب

محفلین
مار کھانے اور پیچھے ہٹنے والی ان کی فطرت نہیں ہے ورنہ ایسا نہیں ہے کہ ان کا نقصان نہیں ہوا یا ان کے بندے مارے نہیں گئے ہیں مگر وہ قبائلی سوچ رکھتے ہیں اور آخری حد تک لڑنے اور بدلہ لینے کے جنون میں ہمہ وقت مبتلا رہتے ہیں۔

فطرت انسان کی ہوتی ہے، علاقہ سے فطرت پر فرق نہیں پڑتا ۔ افریقہ کا شیر اور ہندوستان کا شیر کوئی الگ فطرت نہیں رکھتا دونوں کی فطرت میں شکار کرنا ہے ۔ بس دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آخر منگولوں کے خلاف انہی قبائیلیوں کی فطرت کیوں سو گئی تھی ۔ جب تیمور ان پر قابض تھا تو ان کی فطرت کہاں تھی؟ اور جب مغل اس علاقہ پر قابض تھے تو ان کی فطرت کدھر تھی؟ جب ایرانی یہاں تھے تو یہ فطرت کیوں سوئی رہی؟ یا جب سکھ یہاں حکومت کرتے رہے تو فطرت کہاں گئی ۔ ان کی فطرت کے خوف سے آپ جب نکل آئیں گے تو یہ فطرت تب بھی موجود نہیں ہو گی۔

اچھا وہاں تو دکھاوے کے لیے آپریشن ہو رہا ہے ، افغانستان میں بھی دکھاوے کے لیے امریکہ اور نیٹو کا آپریشن پچھلے 12 سال سے جاری ہے ؟
دنیا کی واحد سپر پاور اور ان کے اتحادی جو دنیا کی تمام بڑی طاقتیں ہیں وہ سب مل کر بھی مار نہیں سکیں اور مذاکرات کی طرف ہی آ رہے ہیں ، اگر وہ بھی دکھاوے کا آپریشن ہی کر رہے ہیں تو پھر آپ جیسے" ہر صورت طاقت" کے استعمال کے حامی کوئی اور سیارہ ڈھونڈیں جہاں یہ مشق کی جا سکے۔
امریکہ اور نیٹو کی مجبوری ہے کہ وہ اس علاقہ کے باسی نہیں ہیں، اس لئے یہاں کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے وہ اپنے مفادات کو مقدم رکھتے ہیں۔ اپنے مفادات کی خاطر وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا مذاکرات کرنا ہیں یا نہیں اور یہی اصول وہ مدنظر رکھتے ہیں ۔ یہ کیسی شکست ہے امریکہ کی کہ کابل میں بیٹھ کر اپنی مرضی کی حکومت پچھلے چودہ سال سے چلوا رہا ہے اور جب چاہتا ہے مذاکرات کرے یہ نام نہاد مجاہد بھاگتے چلے آتے ہیں چاہے دبئی بلوا لے یا کہیں اور ۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اسی علاقہ کے باسی ہیں اور ہم امریکہ یا نیٹو کی طرز پر اس سے سرف نظر نہیں کر سکتے۔ آج یا کل ہمیں اس کو حل کرنا ہی ہو گا، آج حالات ہمارے ساتھ ہیں تو بہتر ہوگا کہ اس آج ہی حل کر کے مستقبل میں محفوظ پاکستان کی طرف قدم بڑھائے جائیں ۔

پاکستانی فوج کا آپریشن ہزاروں جوان شہید کروا کر بھی آپ جیسے لوگوں کے لیے "دکھاوا" ہی ہے تو پھر بہتر ہے اس دکھاوے سے ہی جان چھڑائی جائے جو کسی کو بھی مطمئن نہ کر پایا۔

میرے جیسے لوگوں کی کیا اہمیت ہے، یہ تو کئی مواقع پر جرنیل خود کہہ چکے ہیں ۔ پھر جنگ فوج نہیں لڑتی وہ فوج لڑتی ہے جس کے ساتھ یقین ہو کہ عوام اس کے ساتھ ہیں ۔ اب خود بتائیں فوج کے جوان شہید ہو رہے ہوں اور ایک موصوف اظہار ہکجہتی کا جلسہ منعقد کرنے وہاں جا پہنچیں اور کہیں کہ ظالم فوج کو نکالو یہاں سے تو کونسی فوج کا مورال بلند رہے گا ۔ جب یہ سوچ عوام میں ختم ہو گی فوج کا آپریشن کامیاب ہو جائے گا ۔ سوات کی مثال آپ کے سامنے ہے ۔
 

ساجد

محفلین
میں نے جہانزیب کے مراسلات پر اس لئے پسند کی ریٹنگ نہیں دی کہ محب علوی اسے ن لیگ کی حمایت نہ سمجھ لیں ؛ جبکہ حقیقت میں جہانزیب نے درست بات کہی ہے۔:)
تحریکِ انصاف پر حملہ تو درکنار دھمکی بھی نہیں دی طالبان نے اس کے برعکس طالبان ، تحریکِ انصاف ، ن لیگ اور جماعت اسلامی کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں تو وہ ان میں سے کسی کے اقتدار میں آنے کا راستہ کیوں روکیں گے بھلا؟۔ میں سمجھتا ہوں کہ مذکورہ بالا پارٹیوں کو بھی طالبان کے بارے میں اپنے مؤقف پر نظر ثانی کرنی چاہئیے۔ کیونکہ جب ان کی ساتھ مذاکرات کے لئے یہ پارٹیاں اکٹھی ہوئی تھیں عین اس دن بھی طالبان نے پاکستانیوں کو اپنی بربریت کا شکار کیا تھا۔ یہ قاتل معافی و مذاکرات کے حق دار نہیں۔ باوجود نظریاتی و سیاسی اختلاف کے میں اے این پی کے مؤقف اور جرات کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنی جان تک قربان کی ہے ان کا راستہ روکنے کے لئے۔
یہاں ہمیں اس بات کو نہیں دیکھنا کہ ہم کس پارٹی کی حمایت کرتے ہیں ہمیں اس سازش کو سمجھنا ہے جو پاکستان میں بیرونی طاقتوں کے ذریعے پروان چڑھائی جا رہی ہے۔
 

سید زبیر

محفلین
سسی کے بھنبھور میں دیسی بدیشی دہشت گرد اپنے اپنے حصےکے لیے لڑ ہے ہیں اور سسی بیچاری بے خبر ہے
نی سسی بے خبرے ترا لٹیا اے شہر بھنبھور
 
فطرت انسان کی ہوتی ہے، علاقہ سے فطرت پر فرق نہیں پڑتا ۔ افریقہ کا شیر اور ہندوستان کا شیر کوئی الگ فطرت نہیں رکھتا دونوں کی فطرت میں شکار کرنا ہے ۔ بس دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آخر منگولوں کے خلاف انہی قبائیلیوں کی فطرت کیوں سو گئی تھی ۔ جب تیمور ان پر قابض تھا تو ان کی فطرت کہاں تھی؟ اور جب مغل اس علاقہ پر قابض تھے تو ان کی فطرت کدھر تھی؟ جب ایرانی یہاں تھے تو یہ فطرت کیوں سوئی رہی؟ یا جب سکھ یہاں حکومت کرتے رہے تو فطرت کہاں گئی ۔ ان کی فطرت کے خوف سے آپ جب نکل آئیں گے تو یہ فطرت تب بھی موجود نہیں ہو گی۔
فطرت کا ماحول اور علاقہ سے ہی تعلق ہوتا ہے۔ جنگل اور سرکس کے شیر کی فطرت بہت مختلف ہوتی ہے ، ایک شکار کرتا ہے اور دوسرا کرتب دکھاتا ہے۔
منگولوں تو ہندوستان بھی فتح نہیں کر سکے ، قبائلی تو دور کی بات ہے ۔
تیمور چین فتح کرنے کی کوشش میں ہی مر گیا تھا اور ہم جس علاقہ کی بات کر رہے ہیں وہ قبائلی علاقہ چین سے متصل ہی ہے۔
مغل بھی اس علاقہ پر قابض نہیں ہو سکے تھے ، اورنگ زیب کے زمانے میں مغلوں سے پشتونوں کے مشہور شاعر خوشحال خاں خٹک کی لڑائیاں شاید ذہن سے محو ہو گئیں یا توجہ نہیں دی۔
ایرانی کس زمانے میں یہاں حکومت کرتے رہے ہیں۔
سکھوں کی حکومت کے دوران میں ہی بالا کوٹ کا مشہور معرکہ بھی ہوا۔
میں خوف میں مبتلا نہیں ہوں مگر زمینی حقائق سے بھی بے خبر نہیں۔

مغلوں کے دور سے لے کر آج تک یہ علاقہ باقاعدہ کسی حکومت کے تحت چند سالوں سے زیادہ نہیں ٹھہرا اور بہت مضبوط حکومتوں کو بھی ان سے معاہدے ہی کرنے پڑے ہیں۔

امریکہ اور نیٹو کی مجبوری ہے کہ وہ اس علاقہ کے باسی نہیں ہیں، اس لئے یہاں کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے وہ اپنے مفادات کو مقدم رکھتے ہیں۔ اپنے مفادات کی خاطر وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا مذاکرات کرنا ہیں یا نہیں اور یہی اصول وہ مدنظر رکھتے ہیں ۔ یہ کیسی شکست ہے امریکہ کی کہ کابل میں بیٹھ کر اپنی مرضی کی حکومت پچھلے چودہ سال سے چلوا رہا ہے اور جب چاہتا ہے مذاکرات کرے یہ نام نہاد مجاہد بھاگتے چلے آتے ہیں چاہے دبئی بلوا لے یا کہیں اور ۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اسی علاقہ کے باسی ہیں اور ہم امریکہ یا نیٹو کی طرز پر اس سے سرف نظر نہیں کر سکتے۔ آج یا کل ہمیں اس کو حل کرنا ہی ہو گا، آج حالات ہمارے ساتھ ہیں تو بہتر ہوگا کہ اس آج ہی حل کر کے مستقبل میں محفوظ پاکستان کی طرف قدم بڑھائے جائیں ۔

امریکہ اور نیٹو نے اس مجبوری کا بھرپور فائدہ یہ اٹھایا تھا کہ جی بھر کر بمباری کی تھی جس کے لیے خصوصی اصطلاح "carpet bombing" ہے مگر اس کے باوجود بھی کابل سے باہر ان کی کنٹرول نہیں ہے۔ ان کی ایک بڑی مجبوری یہ بھی تھی اور اب بھی ہے کہ وہ طالبان اور القاعدہ کو اپنا ذاتی دشمن کہہ کر آئے تھے اور انہیں ختم کرنے کا مشن لے کر پہنچے تھے جس میں سے اب وہ طالبان کو استثنی دینے کے لیے تیار ہیں۔
آپ کے لیے فتح ہی ہوگی کہ کابل تک بیٹھ کر امریکہ اپنی مرضی کی حکومت چلا رہا ہے اور باہر کے صوبے اس کے کنٹرول سے باہر ہیں اور مذاکرات ان سے کرنے پڑ رہے ہیں جنہیں وہ دشمن نمبر 1 کہا کرتا تھا۔ ویسے بتاتا چلوں کہ کابل پر روس بھی حکومت کرتا رہا تھا انخلا سے پہلے تک مگر اسے فتح نہیں کہتے ۔ آپ کو شاید 2014 میں اس کا یقین آئے گا کہ فتح کیا ہوتی ہے۔

ہم نے مسئلہ کو حل کرنا ہے نہ کہ غیر ملکیوں کی طرح طاقت کا اندھا دھند استعمال کرکے پھر ایک لمبے عرصہ کے لیے وبال اور خانہ جنگی چھیڑ لینا کیونکہ ہمارے پاس یہاں سے نکل جانے کی کوئی آپشن نہیں ہوگی ۔ طاقت کا استعمال آخری حل ہوتا ہے اور یہ کبھی بھی دیرپا حل نہیں ہوتا اس سے صرف وقتی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں ، طاقت کا استعمال ابھی بھی جاری ہے مگر دوسری کوئی بھی حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے جو چند کامیابیاں ہوتی بھی ہیں وہ ضائع ہو جاتی ہیں۔
عمران خان دیرپا اور مسئلہ کی جڑ کو ختم کرنے کا حل پیش کر رہا ہے یعنی امریکی جنگ سے علیحدگی جو کہ پہلا قدم ہوگا اور پھر اپنی شرائط اور اصولوں پر مذاکرات اور پھر جو مذاکرات اور بات چیت کے لیے تیار نہ ہو اس سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل۔ یہ کئی بار دہرایا جا چکا ہے کہ مذاکرات آئین پاکستان کے تحت ہی ہوں گے جو نہیں ماننا چاہے گا وہ علیحدہ ہو جائے گا اور اکثریت قبائلیوں کی آئین کو مانتی ہے اور اس کے تحت شرپسندوں اور دشمنوں سے علیحدہ بھی ہوگی اور سیکوریٹی فورسز کے ساتھ بھی ہوگی۔

میرے جیسے لوگوں کی کیا اہمیت ہے، یہ تو کئی مواقع پر جرنیل خود کہہ چکے ہیں ۔ پھر جنگ فوج نہیں لڑتی وہ فوج لڑتی ہے جس کے ساتھ یقین ہو کہ عوام اس کے ساتھ ہیں ۔ اب خود بتائیں فوج کے جوان شہید ہو رہے ہوں اور ایک موصوف اظہار ہکجہتی کا جلسہ منعقد کرنے وہاں جا پہنچیں اور کہیں کہ ظالم فوج کو نکالو یہاں سے تو کونسی فوج کا مورال بلند رہے گا ۔ جب یہ سوچ عوام میں ختم ہو گی فوج کا آپریشن کامیاب ہو جائے گا ۔ سوات کی مثال آپ کے سامنے ہے ۔

جرنیل کئی علاقہ بازیاب کروا کر حکومت کے حوالے کر چکے تھے مگر حکومتی نااہلی اور عدم توجہ سے وہ علاقہ پھر عدم استحکام کا شکار ہو چکے ہیں۔

آپ جیسے لوگوں کا تو یہ حال ہے کہ وہ چند شرپسندوں کی موجودگی کی وجہ سے پورے علاقہ کے لوگوں کو غیر سمجھتے ہیں اور ان کا وجود قبول کرنے سے بھی انکاری ہیں۔

قبائلی پاکستان کے لوگ ہیں بالکل اسی طرح جس طرح پنجاب ، سندھ ، بلوچستان کے لوگ ہیں۔ ان لوگوں نے پاکستان کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں اور اب بھی سب سے زیادہ تکلیف وہی اٹھا رہے ہیں۔ ایک طرف ڈرون حملوں میں مارے جا رہے ہیں ، دوسری طرف طالبان اور تمام شرپسند انہیں مار رہے ہیں اور تیسری طرف وہ افواج کے آپریشن میں مارے اور بے گھر ہو رہے ہیں۔
ان سے اظہار یکجہتی پر آپ کو یقینا بہت رنج اور تکلیف پہنچی ہے کیونکہ آپ کے اندازے کے مطابق تو ان کا وجود اب تک افواج کے ہاتھوں ختم ہو جانا چاہیے تھا مگر عوام کی اکثریت ان سے ہمدردی رکھتی ہے اور اس کے اظہار کو ہم نے دیکھا تھا۔ افواج بھی وہاں آپریشن ان سے مل کر بلکہ بہت سی جگہوں پر ان کو آگے کر کے ہی لڑ رہی ہے۔


وزیرستان میں فوج کے آپریشن کے دوران پہلی دفعہ افواج پاکستان کے جرنیل نے ایک حصہ کو اپنے ساتھ ملا کر دوسرے حصہ کے خلاف کاروائی کی کیونکہ ہر طرف محاذ کھولنے کے خطرے کو آپ شاید نہ سمجھتے ہوں مگر فوج جانتی ہے وہ اپنے محدود وسائل اور چومکھی لڑائی میں چند لوگوں کی سب کو کچل دو ، مٹا دو کے جذباتی نعروں پر نہیں چلتی۔
 

ساجد

محفلین
اگر ہم جذبہ حریت اور شدت پسندی میں فرق کو ملحوظ رکھ کر تاریخ کی روشنی میں حال کا جائزہ لیں تو بات سمجھنی اور سمجھانی آسان ہو جائے گی۔ اگر گڈ مڈ کریں گے تو میرا جیسا کم علم بھی تاریخ کی کتابوں سےدونوں اطراف کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا پلندہ پیش کر سکتا ہے لیکن مسئلہ سلجھے گا نہیں بگڑے گا۔
یہ سچ ہے روس کے بعد اب امریکہ بھی ان کے علاقوں سے چھتر کھا کر واپس جا رہا ہے ، یہ ہے جذبہ حریت
لیکن یہ بھی دیکھئے کہ انہی میں سے جو لوگ شدت پسند ہین انہیں سوات میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں شکست ہو چکی ہے اور اگر بیرونی مداخلت نہ ہو تو پاکستانی افواج انہیں قابو کر سکتی ہیں ، یہ ہے شدت پسندی کی شکست کا احوال۔
ان دونوں عوامل کو الگ الگ کر کے دیکھیں ۔ بہادری اور بدمعاشی گو کہ دونوں سخت کوشی سے ممکن ہیں لیکن اپنی اپنی نوعیت کے حساب سے ایک ہی زمرے میں نہیں رکھے جا سکتے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
جی حضور تحریک نے اس بارے میں کافی تگ و دو کی ہے کہ ان معصوم مسلمانوں کو ہم ناعاقبت اندیش مسلمانوں سے بدگمانیاں پیدا ہو گئی ہیں ہمارے اعمال کی وجہ سے ان سے درگزر کر کے ان کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں ۔ وہ بھلے یہ کہتے رہیں کہ جمہوریت غیرشرعی ہے لیکن ہم مذاکرات سے یہ ملک میں دہشت گرد اقتدار میں آتے ہی حل کردیں گے۔ وہ تو بیچارے بات کرنے کے لئے بے چین ہیں مگر دیگر جماعتیں ایسا مفادات کی وجہ سے نہیں کرنا چاہتی ہیں ۔ کیا خیال ہے اگر تحریک انصاف یہ کہہ سکتی ہے تو اس بیان کے بارے میں کیوں کچھ نہیں کہہ سکتی؟

جہانزیب بھائی ! کیسے ہیں آپ؟

بڑے عرصے بعد محفل میں نظر آ رہے ہیں۔
 
یہی تو پالیسی ہے کہ جذبہ حریت کو علیحدہ کیا جائے شدت پسندی سے اور یہ امریکہ کی جنگ سے نکل کر اور مذاکرات سے ہی ہوگا ۔ اس کے بعد جو الگ رہیں گے وہ شدت پسند ہی ہوں گے۔
 

Fawad -

محفلین
یہ سچ ہے روس کے بعد اب امریکہ بھی ان کے علاقوں سے چھتر کھا کر واپس جا رہا ہے ، یہ ہے جذبہ حریت


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

افغانستان ميں امريکی افواج کو بھيجنے کا فيصلہ ہميں بادل نخواستہ کرنا پڑا تھا کيونکہ القائدہ کی قيادت کی جانب سے ہماری سرحدوں کے اندر انتہائ بزدلانہ حملہ کيا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ طالبان جنھوں نے القائدہ کو محفوظ ٹھکانے فراہم کيے گئے تھے، انھوں نے اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے مطالبات کے باوجود اسامہ بن لادن کی حوالگی سے صاف انکار کر ديا تھا۔ ہماری "عبرت ناک" شکست کے حوالے سے جذباتی رائے زنی سے پہلے آپ ايک غير جانب دارانہ تجزيہ کريں اور ان عناصر کی حاليہ حالت زار اور ان کی موجودہ صلاحيتوں کا جائزہ ليں جنھوں نے ہم پر حملہ کيا تھا۔ آپ اپنی ناپختہ سوچ کی بنياد پر ہماری شکست کا دعوی کر سکتے ہيں ليکن اسامہ بن لادن سميت القائدہ کی دو تہائ سے زائد قيادت کا خاتمہ کچھ اور ہی حقائق بيان کر رہا ہے۔

امريکی حکومت کی جانب سے افغانستان ميں متحرک مختلف گروہوں کو سياسی دھارے ميں آنے کی ترغيب دينا اور اس عمل کی حوصلہ افزائ کو ہماری شکست سے تعبیر دینا درست نہيں ہے۔ حقيقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ يہ افغانستان کے بنيادی حکومتی ڈھانچے کو فعال کرنے اور مقامی افغان سيکورٹی فورسز کی اہليت اور صلاحيت ميں بہتری کی ہماری ديرينہ کاوشوں کی غمازی کرتا ہے تا کہ دہشت گردی کے جس عفريت نے سارے خطے کو متاثر کيا ہے اس پر قابو پانے کے لیے افغان حکومت اور اس کے ادارے اپنے موثر کردار خود ادا کر سکیں۔

کسی فريق کو فاتح قرار دينا قبل ازوقت اور غير دانشمندانہ ہے۔ اس جدوجہد ميں اگر کوئ فتح ياب ہو سکتا ہے تو وہ افغان عوام ہيں اس صورت ميں کہ جب وہ محفوظ اور خوشحال ہوں۔ امريکی افواج کی جانب سے دانستہ بے گناہ شہريوں کو نشانہ نہيں بنايا جاتا کيونکہ اس عمل سے کوئ فوجی اور سفارتی اہداف حاصل نہيں ہوتے۔

بے شمار مواقعوں پر عالمی برادری نے امريکی اور نيٹو افواج کے ساتھ دوران مقابلہ طالبان اور القاعدہ کی جانب سے دانستہ بے گناہ شہريوں اور ان کے گھروں کو ڈھال بنائے جانے کے واقعات سنے ہيں۔

امريکی افواج کی جانب سے غلطيوں کا اعتراف بھی کيا جاتا ہے، افسوس اور مذمت کا اظہار بھی کيا جاتا ہے اور فوجی آپريشن کے نتيجے ميں کسی بے گناہ شہری کی ہلاکت کی صورت ميں ذمہ داری بھی قبول کی جاتی ہے۔ کيا طالبان اور القاعدہ سے يہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ بھی اسی طرز عمل کا مظاہرہ کريں؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://vidpk.com/83767/US-aid-in-Dairy-Projects/
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top