طالب علموں میں نقل مقاری اور اسکے نقصانات

طالب علموں میں نقل مقاری اور اسکے نقصانات
از محمد کلیم ظفر
کوئی بھی قوم ترقی و خوشحالی کی حقیقی منزل اس وقت تک نہیں پا سکتی جب تک اس قوم میں امانت و دیانت اور زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط نہ پائے جاتے ہوں ۔نظام کسی ملک کا ہو یا کسی انتظامی شعبہ کا اس کو ایک اعتدال کے ساتھ چلانے کے لیے ضابطہ اور طریقہ کار ہر ملک کے آئین و ضوابط کا حصہ ہوتے ہیں ۔ اسی طرح کسی بھی ملک کا ایک شہری انفرادی لحاظ سے اگر اپنی زندگی کے اصو ل و ضوابط بنائے ۔ اپنی زندگی کو تنظیم اور امانت و دیانت کے طریقوں کے مطابق گزارے وہ شخص ہمیشہ کامیاب و کامران رہتا ہے ۔ ایسے افراد کی زندگی کے لمحات دوسروں کی نسبت بہت بہتر گزرتے ہیں جبکہ اس کے برعکس ایسے افراد جو کہ زندگی کو بے طریقہ ۔ بے اصولی اور اپنی من مرضی سے گزارنے کو اہمیت دیتے ہیں وہ ناکام رہتے ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ زند گی کے طور طریقوں کو نظر انداز کر کے اپنے اوقات کو من مرضی سے گزارنے والے ترقی و خوشحالی و اطمینان و سکون کی منزل نہیں پاتے ۔ اگر ایسے افراد ترقی کر بھی لیں تو جا بجا غلطیوں و کوتاہیوں کے باعث معاشرے میں قدرومنزلت اور عزت و وقار سے محروم رہتے ہیں ۔ جس طرح ہمارے معاشرہ میں کئی طرح کی برائیاں اور طرح طرح کی غیر قانونی حرکات کا رواج چل رہا ہے اسی طرح ایک ایسی برائی جو کہ ہمارے معاشرتی معاملات میں عدم توازن کا سبب ہے وہ ہے امتحانات میں نقل مقاری کرنی ، موبائل فون یا پرچی کے ذریعے امتحانی پرچہ جات ھل کرنے کے لیے امداد حاصل کرنی یہ وہ برائی ہے جو کہ تعلیم و تدریس کے مقدس نظام کوداغ دار کرتی ہے۔ ایک طالب علم اپنے اعلیٰ مستقبل کی خاطر حصول تعلیم کے لیے دن رات محنت کرتا ہے ۔ امتحانات کے قریب تمام مضامین اور تعلیمی و تدریسی معاملات کا جائزہ لے کر امتحان کی تیاری کرتا ہے اور امتحانات کے دنوں میں پوری ذمہ داری اور امانت و دیانت کے اصول کو مدِنظر رکھتے ہوئے پوری تندہی سے امتحانات دیتا ہے اور اس میں کامیابی حاصل کرتا ہے اس کامیابی پر جو سکون و راحت اس طالب علم کو حاصل ہوتی ہے وہ اطمینان و سکون اس غیر ذمہ دار طالب علم کو حاصل نہیں ہوتی جس نے دوران امتحان نقل کرنے یا پرچی چلانے میں اپنا طاعواتی کردار ادا کیا ہے ۔ ہمارے اکثر محکموں میں فی الوقت ایسے ہزاروں ملازمین موجود ہیں جو کہ حقیقی معنوں میں بھر پور محنت کرنے کی بجائے نقل کر کے یا پرچی چلا کے کامیاب ہوئے اور وہ سرکاری و دیگر محکموں میں طرح طرح کی مشکلات اور خود اپنے لیے مسائل کا سبب ہیں ۔ بلا شبہ وہ طالب علم کامیاب ہیں جو کہ پو ری محنت اور شبانہ روز کوشش سے امتحانات میں پوری دیانت داری کے ساتھ کامیابی حاصل کرتے ہیں ایسے لوگ جب کسی محکمہ ، کسی شعبہ میں تعینات ہوتے ہیں وہ اپنی اچھی کارگردگی -بہتر اصول و ضوابط کی بدولت بھر پور نیک نامی حاصل کرتے ہیں ایسے فرض شناس افراد جب ملازمت کے بعد ریٹائرڈ ہوتے ہیں وہ دلوں میں قائم رہنے والی پاکیزہ عزت سے ہم کنار کر دئیے جاتے ہیں جبکہ نقل مار ملازمین -تاجر- صنعت کار یا کسی بھی شعبے میں تعینات ہونے والے افراد بلا شبہ صاف ستھری عزت سے محروم رہتے ہیں ۔اور دوران ملازمت و تجارت کئی طرح کی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں ۔ امتحانات میں نقل مکاری کرنے والے طالب علموں کی حوصلہ شکنی از حد ضروری ہے ۔ ہمیں اپنے معاشرے کو بہتر بنانے کے لیے تعلیم و تدریس کے نظام اس لعنت کو ہر صورت ختم کرنا ہو گا ۔ اس ضمن میں حکومت اور محکمہ تعلیم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ امتحانی نظام کو شفاف بنانے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرے اور نقل ماری کی حوصلہ شکنی کرے ۔ جہاں طالب علموں کی اصلاح کی ضرورت ہے وہاں نظا م تعلیم یعنی محکمہ تعلیم کے اندر سے ایسے غیر اصولی کام کرنے والے طالب علموں کی حوصلہ افزائی کے مرتکب طاغوت صنعت ملازمین کے خلاف سخت کاروائی کی بھی ضرورت ہے ۔ آج ہمارے محکموں کی جو صور تحال ہے اس کی ایک بڑی وجہ ناقص تعلیمی و تدریسی نظام اور امتحانات میں بلا محنت کامیابی حاصل کرنے کے خواہش مند افراد کی اس محکموں میں شمولیت ہے ۔ ہمیں نظام تعلیم اور امتحانی نظام کو صاف و شفاف بنانے کے لیے انقلابی اقدامات اٹھانا ہوں گے ۔ ورنہ ہمارے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے رہیں گے ۔
 

سید ذیشان

محفلین
نقل کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ والدین کی طرف سے بچوں پر اچھے نمبر حاصل کرنے کے لئے بہت زور ڈالا جاتا ہے۔ اور قابلیت کا معیار اچھے نمبر بنایا ہوا ہے۔ اور نقل کرنے کو اتنا برا بھی نہیں سمجھا جاتا۔
 

سید ذیشان

محفلین
میٹرک کے بورڈ کے امتحانات قریب تھے اور تیاری زور و شور سے جاری تھی۔ میرے ایک استاد نے، جو میرے والد کے واقف بھی تھے، میرے والد کو شکایت لگائی کہ ذیشان بالکل بھی نکل نہیں کرتا تو اس کے نمبر کم آ جائیں گے۔ تو جب اساتذہ کے خیالات اس طرح کے ہوں تو شاگردوں سے بھی ہم کچھ زیادہ توقع نہیں رکھ سکتے۔
 
آخری تدوین:
نقل کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ والدین کی طرف سے بچوں پر اچھے نمبر حاصل کرنے کے لئے بہت زور ڈالا جاتا ہے۔ اور قابلیت کا معیار اچھے نمبر بنایا ہوا ہے۔ اور نقل کرنے کو اتنا برا بھی نہیں سمجھا جاتا۔

حقیقت یہی ہے۔
ہم اگر قابلیت کو نمبرات پر ترجیح دیں، سبق سمجھنے کو یاد کرنے پر ترجیح دیں اور اے پلس گریڈ کی کوشش کی بجائے طالب علم کو علم دیا جائے تو بہت کچھ بدل سکتا ہے۔
ہمارے اسکول کے نصاب زیادہ تر انگریزی میں ہوتے ہیں اور میٹرک یا انٹر پاس لوگوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو انگریزی مبادیات سے بھی آشنا نہیں ہوتے۔ یہی سب سے بڑی نشانی ہے کہ ہم سبق یاد کر لیتے ہیں مگر اس کی اصل کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اور جو اردو میڈیم سے پڑھے ہیں انکی اردو فہمی کا معیار بھی کوئی ایسا خاص نہیں نظر آتا۔ اس لئے نقل، اور دھوکے بازی کے بازار گرم ہوتے ہیں۔ ایک ایک سینٹر اور اسکول امتحانات کے دنوں میں کئی کئی لاکھ روپے رشوت وصول کرتا ہے اور نقل کروانے میں امیدواران کی بھرپور مدد کرتا ہے۔ اور اس دوران اگر کوئی پڑھا لکھا امیدوار آجائے اور کہے کہ وہ رشوت نہیں دے گا تو یہ دھمکی بھی مل جاتی ہے کہ اگلے سال بارہ سو روپے اور سپلی کے لئے تیار رہو۔ :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہماری گزارش ہے کہ نقل کو برا بھلا نہ کہا جائے۔۔ نقل کرنا اک تخلیقی کام ہے۔۔ ہر کوئی نقل نہیں کر سکتا۔۔۔۔ :)
 
یہ مقاری لفظ میں نے آج پہلی بار پڑھا ہے۔
جناب حسان صاحب میں پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ مجھ ناچیز کی اردو اتنی اچھی نہیں ہے
اگر آپ طنز کی بجائے رہنمائی فرماتے تو زیادہ اچھا لگتا
بارحال بہت شکریہ آپ کا ۔ ۔ ۔ ۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
جناب حسان صاحب میں پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ مجھ ناچیز کی اردو اتنی اچھی نہیں ہے
اگر آپ طنز کی بجائے رہنمائی فرماتے تو زیادہ اچھا لگتا

محترم، یہ طنز نہیں تھا، صرف اطلاع تھی۔ مقصد یہ تھا کہ آپ اس کے مطلب سے آگاہ کر دیں گے۔ ورنہ میں خود کونسا اردو کا استاد ہوں جو کسی کی تحریر پر طنز کرتا پھروں؟
باقی میں نے آپ کا وہ مراسلہ نہیں پڑھا تھا جس میں آپ نے اپنی اردو کمزور ہونے کے بارے میں بتایا تھا۔ اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
 
آخری تدوین:

عبد الرحمن

لائبریرین
نقل کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ والدین کی طرف سے بچوں پر اچھے نمبر حاصل کرنے کے لئے بہت زور ڈالا جاتا ہے۔ اور قابلیت کا معیار اچھے نمبر بنایا ہوا ہے۔ اور نقل کرنے کو اتنا برا بھی نہیں سمجھا جاتا۔
بالکل صحیح کہا آپ نے ذیشان بھائی!
 

ملائکہ

محفلین
میری ایک ٹیچر کہتی ہیں کہ corruption starts in student level.... تو یہ چیز ہوتی بھی ہے اور آگے ملک و قوم کو نقصان دیتی ہے۔۔۔
 

حسیب

محفلین
حقیقت یہی ہے۔
ہم اگر قابلیت کو نمبرات پر ترجیح دیں، سبق سمجھنے کو یاد کرنے پر ترجیح دیں اور اے پلس گریڈ کی کوشش کی بجائے طالب علم کو علم دیا جائے تو بہت کچھ بدل سکتا ہے۔
ہمارے اسکول کے نصاب زیادہ تر انگریزی میں ہوتے ہیں اور میٹرک یا انٹر پاس لوگوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو انگریزی مبادیات سے بھی آشنا نہیں ہوتے۔ یہی سب سے بڑی نشانی ہے کہ ہم سبق یاد کر لیتے ہیں مگر اس کی اصل کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اور جو اردو میڈیم سے پڑھے ہیں انکی اردو فہمی کا معیار بھی کوئی ایسا خاص نہیں نظر آتا۔ اس لئے نقل، اور دھوکے بازی کے بازار گرم ہوتے ہیں۔ ایک ایک سینٹر اور اسکول امتحانات کے دنوں میں کئی کئی لاکھ روپے رشوت وصول کرتا ہے اور نقل کروانے میں امیدواران کی بھرپور مدد کرتا ہے۔ اور اس دوران اگر کوئی پڑھا لکھا امیدوار آجائے اور کہے کہ وہ رشوت نہیں دے گا تو یہ دھمکی بھی مل جاتی ہے کہ اگلے سال بارہ سو روپے اور سپلی کے لئے تیار رہو۔ :)
اردو میڈیم میں پھر بھی صورتحال کچھ بہتر ہے
انگلش میڈیم کا تو اللہ ہی حافظ ہے
 
Top