اس خبر نے نعیم صدیقی صاحب کی یہ نظم یاد دلا دی۔۔۔ ۔۔
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں
سن اے جباری! مجرم ہیں!
حق گوئی بھی ہے جرم کوئی
تو پھر ہم بھاری مجرم ہیں!
روپوش نہیں،مفرور نہیں!
پھر ہم کو جواب دعویٰ میں
کچھ کہنا بھی منظور نہیں!
تعزیر کو ہم خود حاضر ہیں!
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں
تن من کو نہ منڈی میں بیچا!
ہم پیٹ پجاری بن نہ سکے
جو لوگ خدا کے باغی ہیں
ہم ان کے حواری بن نہ سکے
اغراض کی مہرہ بازی میں
بن کھیلے داؤ ہار چکے!
کورے ہیں زمانہ سازی میں!
ذلت کے گھر کی چوکھٹ پر
عزت کے بھکاری بن نہ سکے
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں
سن ہم سے دور طاغوتی!
طاغوتوں سے بیزار ہیں ہم
جب نگری اندھی نگری ہے
تو اے راجہ! غدار ہیں ہم
ہم سرکش ہیں، ہم طاغی ہیں
انگریز کے ترکے میں جوملا
اس مذہب کے ہم باغی ہیں
اس جرم پہ جو دی جائے سزا
سہنے کے لیے تیار ہیں ہم
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں
چمگادڑ جس سے چڑتے ہیں!
اس صبح کا اک آغاز ہیں ہم
اندھیارے جس کے دشمن ہیں
اس سورج کا اک راز ہیں ہم
اک آفت ہیں، اک قہر ہیں ہم!
اے قبر ماضی کے مردو!
مستقبل کی اک لہر ہیں ہم!
محکومی کی اولاد ہو تم!
آزادی کی آواز ہیں ہم!
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں
ہے یہ وہ مقدس جرم ، جسے
خود نبیوںنے ایجاد کیا
انسانوں کو انسانوں کے
ہر بندھن سے آزاد کیا
اشرار انہیں ٹھکراتے تھے
لیکن وہ دار کے اوپر بھی!
الہام کے نغمے گاتے تھے
جو درس خودی وہ دے کے گئے
اس درس کو ہم نے یا دکیا!
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں
باطل کے سیاست بازو!
ہم ہر باطل سے ٹکرائیں گے
ہر جھوٹ پہ دھاوا بولیں گے
ہر فتنے سے لڑجائیں گے
تخریب وطن کیوں ہونے دیں؟
بازار میں کھوٹے سکوں کا!
یوں عام چلن کیوں ہونے دیں؟
ہر کفر کا رستہ روکیں گے!
ہر ظلم کے آڑے آئیں گے!
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں
جس ٹھاٹھ سے تم مغرور ہوئے
اس ٹھاٹھ سے ہم مرغوب نہیں
’’آقائے ولی نعمت ‘‘سے
رحمت کی نگہ مطلوب نہیں
خوشنودی کے گاہک بھی نہیں
پھر تھے جو شامد کے مفلس
جیبوں میں کوڑی تک بھی نہیں
جباروں کے درباروں سے
صد شکر کہ ہم منسوب نہیں!
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں
قرآن کی روح مضطر کا!
بیباک سا اک اظہار ہیں ہم
مظلومی دیں کی چیخ ہیں ہم
افسوس کہ دل آزار ہیں ہم
کعبے کی آہ سوزاں ہیں!
تاریخ کے دل کی ٹیس ہیں ہم
ملت کے دل کا ارماں ہیں!
کچھ کڑوی باتیں کہتے ہیں!
گستاخ ہیں، ناہنجار ہیں ہم
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں
اسلام سے امن عامہ، میں!
آتا ہے خلل تو یوں ہی سہی
قانون کے ماتھے پر کوئی!
پڑتاہے جو بل تو یوں ہی سہی
کچھ آنکھیں اگلیں آگ تو کیا!
کچھ چہرے لال ہوئے تو ہوں
کچھ ہونٹوں پر ہے جھاگ توکیا؟
دنیا میں اگر نیکی کا شجر
رہتا ہے اپھل تو یوں ہی سہی!
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں
اسلام کو جب تم چر کے دو
تو دیں ہم داد؟ یہ ناممکن !
حضرت کی کافر کیشی پر
ہم کردیں صاد؟ یہ ناممکن!
کیا مہر بہ چشم و گوش رہیں
کیا صم بکم ہوجائیں
ہر منکر پر خاموش رہیں؟
ہم گھو میں آپ کے پیچھے کیا
’’فی کل واد؟‘‘یہ ناممکن ؟
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں
انصاف کی کرسی پر ظالم
پہلے بھی قابض پائے گئے
پیشی میں ان کی اہل حق
الزام لگاکر لائے گئے
جو خونی تھے سرکار بنے
تاریخ کے یہ اعجوبے ہیں
جو محسن تھے، غدار بنے
کچھ ہم پہ نرالا ظلم نہیں
پہلے بھی کرم فرمائے گئے
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں
آقاؤں پر تنقید کریں
توکیا یہ سنگیں جرم نہیں؟
مکاری کی تردید کریں
تو کیا یہ سنگین جرم نہیں؟
اعمال کے دفتر کھولے کیوں؟
انصاف کے کانٹے پر آخر
خدمات، کو کوئی تولے کیوں؟
تبدیلی کی تمہید کریں
تو کیا یہ سنگین جرم نہیں؟
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں
سچائی کا چیلنج ہیں ہم!
اب وقت ہے کچھ تدبیر کرو
سرکار کے فتوی بازو !
تم حق بازوں کی تکفیر کرو
قانون ہے آرا میدہ کیوں؟
زنجیروں میں تحریک نہیں
ہر حلقہ ہے خوابیدہ کیوں؟
جذبہ نہ جنوں بن جائے کہیں
سامان دارو گیر کرو!
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں!
پر، جرم و خطا کچھ اور ہی ہے
یاں پھانسی بھی ہے، جیل بھی ہے
پر اس کی سزا کچھ اور ہی ہے
کیا قتل کیا؟ کیا چوری کی؟
یا کوئی ڈاکہ ڈالا ہے؟
آخر کیا سینہ زوری کی؟
کچھ ایسا ویسا جرم نہیں یہ
نام خدا کچھ اور ہی ہے!
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں
اب آخر اس کو کیا کیجے؟
یہ ذوق جرم نرالا ہے!
یہ ذوق، تشدد کیجے تو
کچھ اور ابھرنے والا ہے؟
تعزیر اسے بھڑکاتی ہے!
جتنی بھی سزادی جاتی ہے
وہ جوش نیا پھیلاتی ہے!
اس جرم کو اک اک مجرم نے
سینے میں پیہم پالا ہے!
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں
ہم لوگ اقراری مجرم ہیں