متلاشی
محفلین
تحریک مہناج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے لاہور میں مینار پاکستان پر ایک بڑا جلسہ کر کے لوگوں کو اضطراب کا شکار کردیا ہے اور یہی اضطراب کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے اتوار کو جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ نظام انتخاب کو آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کے تابع کرنا چاہتے ہیں اور ’صالح‘ قیادت کی خاطر ملک میں انتخابات کرانے کے لیے نوے دن کی مہلت سے زیادہ وقت بھی لگ جائے تو یہ اقدام غیر آئینی نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو پانچ برس کینیڈا میں گزرنے کے بعد اچانک کیا سوجھی کہ انہوں نے پاکستان آ کر ایک جلسے میں نہ صرف انتخابی اصلاحات کرنے کا مطالبہ کردیا بلکہ نگران حکومت میں عدلیہ اور فوج کو شامل کرنے کی تجویز بھی پیش کردی؟
پاکستان میں انتخابات سے پہلے اصلاحات یا احتساب کے نعرے یا مطالبات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سابق فوجی صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی پہلے احتساب اور پھر انتخاب کا نعرہ لگایا گیا۔
یہ نکتہ غور طلب ہے کہ جب سیاسی جماعتیں نئے انتخابات میں حصہ لینے کی تیاریوں میں مصروف ہیں اس وقت ریاست نہیں ریاست بچاؤ کا نعرہ کیوں لگایا گیا ہے ۔کہاں سے اور کس نے ڈاکٹر طاہر القادری کو یہ ذمہ داری سوپنی یا یہ ان کی اپنی کوئی خواہش ہے۔ یہ راز ابھی راز ہی ہے۔
پاکستان ٹوڈے کے چیف ایڈیٹر عارف نظامی کا کہنا ہے کہ اتنے عرصہ ملک سے باہر رہنا اور انتخابات سے پہلے منظم طریقہ سے پاکستان آنا اور اخراجات کرنا بغیر کسی مخصوص ایجنڈے کے نہیں ہوسکتا۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی اپنی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک ہے لیکن ان کا جلسہ تحریکِ مہناجِ القرآن کے زیر انتظام کیا گیا۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ لاہور میں کامیاب جلسے کی بنیادی وجہ ڈاکٹر طاہر القادری کی تنظیم مہناج القرآن ہے جو ایک منظم تنظیم ہے اور منظم طریقہ سے اس کا انتظام کیا گیا ۔
سیاسیات کے پروفیسر رسول بخش رئیس کے مطابق مذہب کے نام لوگوں کو اکٹھا کرنا آسان کام ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے جلسے کے اخراجات کے بارے میں مسلم لیگ ن نے انگلی اٹھائی ہے کہ جلسے کی تشہیر اور اس کے انتظامات کے لیے کثیر رقم کہاں سے آئی ہے؟
ایک طرف تو ڈاکٹر طاہراالقادری انتخابی اصلاحات یا صالح قیادت کے لیے نگران حکومت کو نوے دنوں یعنی تین ماہ سے زیادہ مہلت دینے کی بات کررہے ہیں جبکہ دوسری جانب انہوں نے حکومت کو انتخابی اصلاحات کے لیے صرف تین ہفتوں یعنی چودہ جنوری کا وقت دیا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگار نے تین ہفتوں کی مہلت کو غیر سنجیدہ رویہ قرار دیاہے ۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے انتخابی اصلاحات نہ ہونے کی صورت میں اسلام آباد میں دوبارہ ایک اجتماع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کیا تحریک مہناج القرآن کے سربراہ دوبارہ بڑا اجتماع کرنے میں کامیاب ہوں گے اس بارے میں سیاسی تجزیہ نگار کوئی زیادہ پرامید نہیں ہیں۔
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے بقول ڈاکٹر طاہر القادری کے لیے یہ کوئی آسان کام نہیں ہوگا کہ وہ اسلام آباد کی طرف سے مارچ کریں اور ان کے ہمراہ لوگوں کی بڑی تعداد ہو۔
گورنر پنجاب مخدوم سید احمد محمود نے بھی ڈاکٹر طاہر القادری کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے عقیدت مندوں کو کسی بڑے امتحان میں نہ ڈالیں۔
تجزیہ نگار(عبادی الحق۔۔۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام)
ڈاکٹر طاہر القادری نے اتوار کو جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ نظام انتخاب کو آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کے تابع کرنا چاہتے ہیں اور ’صالح‘ قیادت کی خاطر ملک میں انتخابات کرانے کے لیے نوے دن کی مہلت سے زیادہ وقت بھی لگ جائے تو یہ اقدام غیر آئینی نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو پانچ برس کینیڈا میں گزرنے کے بعد اچانک کیا سوجھی کہ انہوں نے پاکستان آ کر ایک جلسے میں نہ صرف انتخابی اصلاحات کرنے کا مطالبہ کردیا بلکہ نگران حکومت میں عدلیہ اور فوج کو شامل کرنے کی تجویز بھی پیش کردی؟
پاکستان میں انتخابات سے پہلے اصلاحات یا احتساب کے نعرے یا مطالبات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سابق فوجی صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی پہلے احتساب اور پھر انتخاب کا نعرہ لگایا گیا۔
یہ نکتہ غور طلب ہے کہ جب سیاسی جماعتیں نئے انتخابات میں حصہ لینے کی تیاریوں میں مصروف ہیں اس وقت ریاست نہیں ریاست بچاؤ کا نعرہ کیوں لگایا گیا ہے ۔کہاں سے اور کس نے ڈاکٹر طاہر القادری کو یہ ذمہ داری سوپنی یا یہ ان کی اپنی کوئی خواہش ہے۔ یہ راز ابھی راز ہی ہے۔
پاکستان ٹوڈے کے چیف ایڈیٹر عارف نظامی کا کہنا ہے کہ اتنے عرصہ ملک سے باہر رہنا اور انتخابات سے پہلے منظم طریقہ سے پاکستان آنا اور اخراجات کرنا بغیر کسی مخصوص ایجنڈے کے نہیں ہوسکتا۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی اپنی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک ہے لیکن ان کا جلسہ تحریکِ مہناجِ القرآن کے زیر انتظام کیا گیا۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ لاہور میں کامیاب جلسے کی بنیادی وجہ ڈاکٹر طاہر القادری کی تنظیم مہناج القرآن ہے جو ایک منظم تنظیم ہے اور منظم طریقہ سے اس کا انتظام کیا گیا ۔
سیاسیات کے پروفیسر رسول بخش رئیس کے مطابق مذہب کے نام لوگوں کو اکٹھا کرنا آسان کام ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے جلسے کے اخراجات کے بارے میں مسلم لیگ ن نے انگلی اٹھائی ہے کہ جلسے کی تشہیر اور اس کے انتظامات کے لیے کثیر رقم کہاں سے آئی ہے؟
ایک طرف تو ڈاکٹر طاہراالقادری انتخابی اصلاحات یا صالح قیادت کے لیے نگران حکومت کو نوے دنوں یعنی تین ماہ سے زیادہ مہلت دینے کی بات کررہے ہیں جبکہ دوسری جانب انہوں نے حکومت کو انتخابی اصلاحات کے لیے صرف تین ہفتوں یعنی چودہ جنوری کا وقت دیا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگار نے تین ہفتوں کی مہلت کو غیر سنجیدہ رویہ قرار دیاہے ۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے انتخابی اصلاحات نہ ہونے کی صورت میں اسلام آباد میں دوبارہ ایک اجتماع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کیا تحریک مہناج القرآن کے سربراہ دوبارہ بڑا اجتماع کرنے میں کامیاب ہوں گے اس بارے میں سیاسی تجزیہ نگار کوئی زیادہ پرامید نہیں ہیں۔
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کے بقول ڈاکٹر طاہر القادری کے لیے یہ کوئی آسان کام نہیں ہوگا کہ وہ اسلام آباد کی طرف سے مارچ کریں اور ان کے ہمراہ لوگوں کی بڑی تعداد ہو۔
گورنر پنجاب مخدوم سید احمد محمود نے بھی ڈاکٹر طاہر القادری کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے عقیدت مندوں کو کسی بڑے امتحان میں نہ ڈالیں۔
تجزیہ نگار(عبادی الحق۔۔۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام)