فاخر
محفلین
طاہر فرازؔ
صاحبِ کشکول اوربلند نظریہ کا معتبر شاعر
از:افتخاررحمانی فاخرؔ،نئی دہلی
طاہر فرازؔصاحبِ کشکول اوربلند نظریہ کا معتبر شاعر
از:افتخاررحمانی فاخرؔ،نئی دہلی
کانام اور کلام میرے لئے مجہول شی نہیں ، برسوں سے غیر مرئی شناسائی ہے، تاہم میری واقفیت اُس وقت سہ آتشہ ہو گئی ،جب میرا ایک مخصوص ’شناسا‘ طاہر فرازؔ کے خاندان کا فرد نکلا، جب اس کے لبوں سے طاہر فرازؔ کارشتہ و تعلق کابیان ہوا ، تو میری آنکھیں حیرت واستعجاب میں پھٹی رہ گئی ،ہمیں اس رشتہ پررشک بھی آیا۔ اِن چند سطروں کی خامہ فرسائی اُسی’مخصوص شناسا‘کے رہین ہے۔ کئی ہم مزاج دوستوں کے اصرارپر2011میں زندگی میں پہلی بار مشاعرہ میں شرکت کا عمداً گناہ کیا تھا،سہارنپورریلوے اسٹیشن کے احاطہ میں واقع مشاعرہ کا انتظام تھا، ہم دیوبند سے مدرسہ کے اربابِ انتظامیہ کی نظروں سے خود کو چھپاکر شریک ہوگئے۔ جب طاہر فرازؔ سامعین کے روبرو پیش ہوکر سخن سرا ہوئے، تو اُن کے کلام کی بلندی، لفظوں کی سادگی اور جذبوں کی صداقت نے مشاعرہ میں شرکت کے ’گناہ ‘پر نادم ہونے سے بچالیا!۔
طاہر فرازؔجس شہر اور جس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، وہ خاندان[میری معلومات کے مطابق] اور وہ شہراز خود مشہورِعالم ہے،محتاجِ تعارف نہیں۔ ان کے خاندان میں کئی عظیم المرتبت فنکار گزرے ہیں ،جن کی شہرت کلاسیکل موسیقی کے باب میں اپنی مثا ل آپ ہے۔ استاد مشتاق حسین خان مرحوم سرفہرست ہیں، جنہیں 1957 میں ملک کے اولین صدرجمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد کے ہاتھوں ادب و ثقافت کے باب میں خدمات کے صلہ میں پدم بھوشن ایوراڈ مل چکا ہے۔ علاوہ ازیں رام پور شہر ہمیشہ سے علم و ادب کے گوہر تابدار کا مولد و مسکن بھی رہا ہے۔ نامورمؤرخ نجم الغنی خان رامپوری اور علی برادارن جیسے لوگ اِسی خطہ زرخیز سے اٹھے اور پوری دنیا میں رامپور شہر کا نام روشن کیا۔ جس علم و ادب کے گلستاں کوتاریخ ساز روہیلہ نوابوں (فیض اللہ خان سے لے کر رضا علی خاں تک کے نوابین رام پور) نے سینچا تھا، طاہرفرازؔ اُسی گلستاں کے گل سرسبد ہیں۔ نیزطاہر فرازؔ جس خانقاہی سلسلہ سے ارادت رکھتے ہیں ، اُس خانقاہ کاشعار بقول حضرت نیازؔبریلوی :’ گر بادۂ توحید پئیں اہلِ مشارب - ہفتاد و دو ملت کی ہو تکرار فراموش‘ ہے؛اس لئے ان کے کلام میں اِن کمیاب ونایاب ورثوں کی جھلک بخوبی نظر آتی ہے، ان تین ’مقدس‘ رشتوں میں گندھے ہوئے خوبصورت، سنجیدہ، متین، سجیلے اور البیلے شاعر کا نام ’طاہر فراز‘ؔ ہے۔
میرے سامنے طاہر فرازؔ کا مجموعہ کلام ’کشکول ‘ ناشراستعارہ پبلی کیشنز ، دہلی سنہ طباعت 2004 دھرا ہے، یہ مجموعہ کلام 144صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس پرصلاح الدین پروازؔ ، حقانی القاسمی اور عبدالوہاب سخنؔ کی قیمتی آراء بھی درج ہیں ،جن سے طاہر فرازؔ کی شاعری کا رنگ روپ اورباطنی و ظاہری خدوخال نمایاں ہوتا ہے ۔ ’کشکول‘اربابِ ذوق اورہم جیسے طالبوں کے لئے تحفۂ نایاب ہے، یہ اپنے نام سے اپنی ماہیت و ہیئت کا اظہار کرتا ہے۔ طاہر فرازؔ کم و کاست 35سالوں سے زائد عرصہ سے مشاعروں کی زینت بنتے ر ہے ہیں بلکہ مشاعروں کو ان کی شاعری سے جلا ملتی رہی، ملک و بیرونِ ملک میں اپنی شاعری کے ذریعہ ’کشکول‘ سے مٹھیاں بھر بھر کے خزانہ لٹایا اور کبھی تنگ دامنی کا شکوہ نہیں کیا۔ اُن کی شاعری پر امکاناً الزام عائد ہوسکتا ہے کہ انہوں نے مشاعرہ کی شاعری کی ہے، لیکن طاہرفرازؔ نے ان الزامات کو رفع کرنے کی کامیاب اور مستحسن کوششیں کی ہیں، جن کوششوں کا گواہ ’کشکول‘ ہے۔ طاہرفرازؔاپنی شاعری کے متعلق برملا اعلان کرتے ہیں کہ؎
سفر میرا کبھی نامعتبر ہونے نہیں دیتا
سوا اپنے کسی کو ہم سفر ہونے نہیں دیتا
بدلنا چاہتی ہے در مری آوارگی اکثر
مگر وہ ہے کہ مجھ کو در بدر ہونے نہیں دیتا
ہٹاتا ہی نہیں سایہ ضرورت کا مرے سر سے
کبھی وہ دوپہر کو دوپہر ہونے نہیں دیتا
بڑھا دیتا ہے چپکے سے حوادث کی نئی کڑیاں
وہ میری داستاں کو مختصر ہونے نہیں دیتا
کشکول ، ص: 34
طاہر فرازؔ کو پڑھتے اور سنتے چلے جائیں ، کسی طوریہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ مشاعرہ کے شاعر ہیں ،بلکہ فنی اصول اور اس کے مقتضیات کو بھرپور طریقہ سے اداکرکے درآئی’فرسودگی‘کیخلاف علمِ بغاوت بلند کرتے ہوئے بجا کہا کہ :
جمی ہے گرد سیاست کی جن کے ذہنوں پر
مشاعرہ بھی ادب کے بغیر چاہتے ہیں !!
اس ’سفر ‘ کی بابت کامیاب ادّعا کیا کہ وہ’نامعتبر‘نہیں ہے۔ اس کے تحت کلاسیکی شاعری کی تقلید کرتے ہوئے جدید وقت کی مقتضیات کے پیش نظر جدت پسندی اور ندرت خیالی کا بلا تامل اظہار کیا ہے۔ نیزقدیم وجدید،ترقی پسندی اور قدیم غزلیہ روایات کے ساتھ ساتھ جدیدیت اورمابعد جدیدیت میں یکساں توازن بھی قائم رکھا ہے۔(عبدالوہاب سخنؔ نے اس ضمن میں سیر حاصل گفتگو کی ہے ) کشکول کے مطالعہ سے مجھے جو ادراک ہوا، وہ یہ کہ شا عری کی اصل روح ان کی آبائی تہذیب اور قدیم رشتوں سے مضبوط ہم آہنگی اور استواریت ہے اور انہوں نے امکاناً الزامات کو تصوف و فنی اصولوں کی پیروی کے ذریعہ دور کیا ہے۔ وہ جہاں بھی گئے، اپنی تہذیب اور موروثی وجاہت کا سرمو انحراف کئے بغیر برملا اظہار کیا، اسی کے سمت اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ؎
بدلنا چاہتی ہے ’در‘ مری آوارگی اکثر٭مگر وہ ہے کہ مجھ کو در بدر ہونے نہیں دیتا
اب یہ سوال اہم ہے کہ آیا طاہر فرازؔ کی ’ آوارگی‘ کیا ہے ، اور وہ غیر مرئی ’شی‘ کیا ہے ، جو بزبان شاعر انہیں ’در بدر‘ ہونے سے بچالیتی ہے؟۔ ’آوارگی ‘کوئی مبہم اور مخفی شی نہیں؛ بلکہ زمانے کے علائق ہیں، البتہ غیر مرئی ’شی‘ کی وضاحت لازمی ہے، اوریہی ’غیر مرئی شی‘ ان کی شاعری کی روح اور وجدانِ خاص ہے، غیرمرئی شی کی طرف یوں اشارہ کرتے ہیں ؎
میں پجاری برستے پھولوں کا
چھو کے شاخوں کو چھوڑ دیتا ہوں
تجھ سے رشتہ ہے ریشمی رشتہ
کچے دھاگے میں توڑ دیتا ہوں
کاسۂ شب میں خون سورج کا
قطرہ قطرہ نچوڑ دیتا ہوں
کانپتے ہونٹ ، بھیگتی پلکیں
بات ادھوری ہی چھوڑ دیتا ہوں
ریت کے گھر بنا بنا کے فرازؔ
جانے کیوں خود ہی توڑ دیتا ہوں
کشکول،ص: 37
برستے پھولوں کو چھونا اور چھوکر چھوڑ دینا کمالِ ہمت اور اعلیٰ ظرفی کی مثال ہے ،پھر وہیں مزید بلند ہمتی یہ کہ ’ کاسۂ شب‘ میں سورج کاقطرہ قطرہ خون بھی نچوڑ دیا۔ آوارگی یہی پرتمالم نہیں ہوتی، بلکہ ڈھیروں ریت کا ’گھروندہ ‘بنا کرانہیں اپنے دستِ ستم کار سے توڑبھی ڈالا۔ ’برستے پھولوں‘ کو چھونا، کاسۂ شب میں خونِ سورج قطرہ قطرہ کرکے نچوڑنا، اورریتوں کا گھروندہ بنا کر توڑ دینا، یہ لطیف استعارے ہیں، جن سے ان کی مقصدیت عیاں ہوتی ہے ،نیز ماقبل میں مذکور ’غیر مرئی شی ‘ کا بھی بیان ہے کہ وہ اپنی شاعری کو حوالے سے اپنی شیٔ نایاب کی تبیین و توضیح کررہے ہیں۔ ایک جگہ وہ اپنی بے باکیوں اور بلندہمتی کو مخاطب کرتے ہوئے گویا ہیں ؎
جب کبھی بولنا مختصر بولنا
مدتوں سوچنا مختصر بولنا
ڈال دے گا ہلاکت میں اک دن تجھے
اے پرندے ترا شاخ پر بولنا
پہلے کچھ دور تک ساتھ چل کے پرکھ
پھر مجھے ہم سفر ، ہم سفر بولنا
کشکول،ص: 39
بلبل کی سرشت کوٗکوٗ کرنا ہے، فلسفی مباحثے کا عادی ہوتا ہے، منطقی طرزِ استدلال اور موشگافیوں سے سامع کو مبہو ت کردیتا ہے اورمناظرو متکلم حزب اختلاف کے سامنے گراں بار دلائل کے انبار لگا کر بغلیں جھانکنے پرمجبور کردیتا ہے؛ لیکن ایک سنجیدہ مزاج شاعرجس کی جڑیں مضبوط اقدار سے وابستہ ہوں، وہ ہمیشہ حدِ اوقات میں رہ کر گفتگو کا مشورہ د یتا ہے۔ طاہر فرازؔ نے اپنی آوارگی کوخطاب کرتے ہوئے بلاتامل کہا ہے کہ ’ پہلے سوچئے، پھر بولئے‘، یہ سبق صرف ’آوارگی ‘ کیلئے نہیں ہے، بلکہ ہر ایک شخص کے لئے ہے ، جو طول و طویل لن ترانیوں کا حامل اور نتائج کے خوب و زشت سے مطلق لاپرواہ ہو۔ شاعری کا یہی حسن ہے کہ شاعراپنے دل میں زمانہ بھر کا درد رکھتا ہے۔ طاہر فرازؔ نے ان لفظوں میں یہی کہا ہے۔ طاہر فرازکی رگ و پے میں روہیلہ سرداروں کا بھی ’خونِ شجاعت ‘بھی دوڑ رہا ہے ، بناء بریں ’ آوارگی‘ سے جہاد بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، ایک جگہ کہا ہے ؎
آدمی ہوں وصفِ پیغمبر نہ مانگ
مجھ سے میرے دوست میرا سر نہ مانگ
یہ تو ممکن ہے کہ سر دے دیں، مگر
ہم فقیروں سے کوئی پتھر نہ مانگ
عیب میں داخل ہو فنکاری جہاں
وقت کے پتھر !وہاں آذر نہ مانگ
ہوسکے تو عکس لوٹادے مجھے
آئینے! مجھ سے مرا پیکر نہ مانگ
کشکول،ص: 46
وہ انسان ہی کیا؟ جو ’انسان‘ نہ ہو ، انسانیت کی معراج یہی ہے کہ’ انسان‘ اپنی ذات میں کامل ہو، اس میں لغزشیں اور کوتاہیاں بھی ہوں،اور بعد ازاں اپنے اِن بشری صفات کا قائل بھی ہو۔ شاعربھی ایک انسان ہوتا ہے، اس کے اندر فرشتوں کے صفات نہیں ہوتے، گویا کہ ماقبل میں صاف کہہ دیا کہ تمام باتیں بابا آدم کی ہیں، زمانہ کی عادات اور سرشت بدلی، اِس کے اندر مفاد اور بوالہوسی آچکی ہے، اس لئے ہم اپنا سر اغیار کے حوالے نہیں کرسکتے، یہ عزم سچائی پسند شخص کا ہے، نیز اسے دنیا کی بوالہوسی اور بے مروتی کی طرف بلیغ اشارہ سمجھنا چاہیے ، یہی طاہر فرازؔ کی متین و سنجیدہ شاعری کا وصفِ خاص ہے۔ اس طرح کے بلیغ استعارے اور فنی خصوصیت ان کے یہاں جابجا ملتے ہیں ، اسی ذیل کے یہ اشعار بھی ملاحظہ ہوں ؎
کانوں میں گونجنے لگیں وعدوں کی آہٹیں
بابل کے گیت جب کسی شہنائی سے اٹھے
یہ کہہ گئے کہ ڈوبنے والے میں سانس تھی
وہ بلبلے جو جھیل کی گہرائی سے اٹھے
لہجے کا درد بھیڑ کو خاموش کرگیا
لیکن کئی سوال بھی رسوائی سے اٹھے
مقتل میں ہے فرازؔ یہ کس کے لہو کی گونج
تیغوں کے قہقہے بڑی اونچائی سے اٹھے
کشکول، ص: 65
ان چند اشعار میں زندگی کی تمام تر تلخیاں اور سچائیاں بیان کردیں۔ بابل کے گیت کی شہنائی سے گونجنے والے ’وعدے‘ کا تیقن ایک ذمہ دار شہری کا فرضِ عین امر ہے۔ معاشرتی سچائی کو حسین پیرایے میں بیان کرنا دل کو موہ لیتا ہے۔’ ڈوبنے والے میں سانس تھی‘ اس کو ایک شاعر کا حساس دل ہی سمجھ سکتا ہے ،جب کہ ہمارے معاشرہ کا تلخ پہلو یہ ہے کہ ڈوبنے والے کو محض ایک تماش بین کی طرح دیکھا جاتا ہے۔ طاہر فرازؔ نے جھیل کے بلبلوں کے پیغام کو محسوس کرکے حسین پیرایے میں بیان بھی کیا ہے ۔ طاہر فرازؔ کی شاعری میں معاشرتی سچائی کے ساتھ ساتھ تصوف و سلوک کی آمیزش اوراس کا حسن و خمیر بھی وافر حد تک پایا جاتا ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ جب تک انسان کسی پیر کامل سے ارادت و محبت کا حامل نہ ہو، اس کی ذات میں بانکپن اور متانت نہیں آسکتی ہے، خانقاہِ نیازیہ سے ارادت و عقیدت کے باعث ان کی شاعری میں فنی بانکپن اور متانت بخوبی نظرآتی ہے ، اُسے چشمِ باطن سے دیکھنے کی ضرورت ہے،خانقاہِ نیازیہ ( بریلی ) سے اپنی ارادت و عقیدت کا ذکر اپنے ’لفظ اول‘ میں بیان کیاہے۔
طاہر فرازؔ کی شاعری کا معتبر سفر رواں دواں ہے ۔ان کا کشکول اپنی وجاہتوں اور خانقاہِ نیازیہ سے توسل و عقیدت کے باعث خزینۂ نایاب لٹارہا ہے ۔ شاعری کا یہ معتبر سفر اپنی تمام تر تابانیوں کے ساتھ دیر تک قائم رہے، تاکہ شاعری کی لوَ سے پیار و محبت کے چراغ روشن کئے جاتے رہیں۔
٭٭٭
آخری تدوین: