اکمل زیدی
محفلین
کر دیا حسب اختتام۔۔۔میں نے حرف ر پر ختم کیا ہے
کر دیا حسب اختتام۔۔۔میں نے حرف ر پر ختم کیا ہے
نہ بہار آئی ہے نہ یار ملے ہیںیوں کلی دل کی کھلی
زخم جیسے کھلتے ہیں
یاد یاروں کی آ گئی ہو گی
زخم یوں ہی ہرے نہیں ہوتے
یہ سرد سرد ہوائیں یہ خامشی بھری رات
مزاجِ یار میں جیسے زمانہ ڈھل گیا ہو
کسے میسر ہے اب وصال یہاںوصل كی اس شادکامی میں اسے
اپنے سینے سے لگائیں دیر تک !
ہماری سادگی دیکھووصل کب آساں ہوا ہے
کس زمانے میں ہوا یہ
یہ سادگی بھی اخلاص کی علامت ہےہماری سادگی دیکھو
کسے آساں سمجھ بیٹھے
معیار برتری رکھتا نہیں اپنے مزاج میں کہیقیں نہیں ہے بچھڑ کر کبھی ملے مجھ سے
دل حزیں مگر اس کی امیدیں کب ہو تمام
ہے گنج گراں میرے اشکوں کی مالاعیار برتری رکھتا نہیں اپنے مزاج میں کہ
ملا کرتا ہوں سب سےمگر برابری کے ساتھ
وہ سج کے نکلے ہیں آج غافلہے گنج گراں میرے اشکوں کی مالا
متاعِ دل و جاں کا سودا ہے آنسو !!