سید ذیشان
محفلین
نجات بھی ویسا لفظ نہیں ہے جیسا ہونا چاہئے۔ کچھ اور سوچو۔
جی، نجات مجھے خود بھی پسند نہیں تھا۔ کافی کوشش کی تھی یہی بن پڑا تھا۔ اب دوبارہ کوشش کرتا ہوں۔
نجات بھی ویسا لفظ نہیں ہے جیسا ہونا چاہئے۔ کچھ اور سوچو۔
نہیں بات نہیں بنی۔۔
عجب قانونی زنجیروں میں جکڑی
یہ کیا آزادی لائی جا رہی ہے
میں کیا وہی مطلب ادا ہو جاتا ہے؟
محمد اسامہ سَرسَری بحر کے اعتبار سے "غزل" بر وزنِ فصل ہی پڑھا جا سکتا ہے جو کہ ظاہر ہے غلط ہے!بہت ہی خوب ہے یہ غزل یارو!
ہمارے دل کو بے حد بھارہی ہے
باقی تو یہی مطلب ہے لیکن روایات کا لفظ یہاں ہونا چاہیے ورنہ بات نہیں بنے گی۔
یہ حریت روایت کے رسن میں
سنہرے خواب کیوں دکھلا رہی ہے
وزن میں نہیں۔معنی بھی واضح نہیں۔کچھ مختلف کرنا ہو گا۔اسی پر ایک اور کوشش:
یہ حریت روایت کے رسن میں
وزن میں نہیں۔
واقعی؟
اسکا وزن ہے:
مفاعیلن مفاعیلن فعولن
ی حر ری یت ر وا یت کے ر سن می
میں کہیں غلطی کر رہا ہوں اس میں؟
میرے نزدیک دوسری تشدید نہایت ثقیل اور اردو شاعری (اور زبان)کے لحاظ سے ہرگز قابلِ قبول نہیں۔ میں نے آج تک کسی اہلِ زبان کو ایسے "جھٹکے" لے کر یہ لفظ ادا کرتے نہیں سنا۔
میں نے بیچ میں لکھا ہے:محترم کاشف صاحب، یہ آپ کس لفظ کی بابت فرما رہے ہیں؟ اور ذرا اس اصول کو تھوڑا اور واضح کیجئے، کیونکہ میں ٹھیک سے سمجھ نہیں پایا ہوں۔
تو موضوع اس شعر میں لفظ "حریت" کا استعمال ہے۔ بات دلچسپ ہو گئی ہے۔ اساتذہ سے گذارش کروں گا کہ وہ بھی اپنی رائے سے نوازیں۔اگر "ح ر ر یت" منظور نہیں تو پھر شعر میں اس لفظ سے اجتناب ہی بہتر ہو گا
یہ تو فلسفیانہ بحث چھڑ گئی۔ میرے نزدیک دوسری تشدید نہایت ثقیل اور اردو شاعری (اور زبان)کے لحاظ سے ہرگز قابلِ قبول نہیں۔ میں نے آج تک کسی اہلِ زبان کو ایسے "جھٹکے" لے کر یہ لفظ ادا کرتے نہیں سنا۔ ڈکشنری کی اور بات ہے۔ ڈکشنری ہمیشہ اپنے عصر سے ایک قدم پیچھے رہتی ہے۔ یاد رہے کہ عربی زبان اور شاعری ،نغمگی اور روانگی میں اردو سے کہیں پیچھے ہیں۔ اور اس کا ایک بڑا سبب عربی زبان کی ثقالت ہے۔ اردو شاعری خالص عربی لہجے کی اندھی تقلید کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اگر "ح ر ر یت" منظور نہیں تو پھر شعر میں اس لفظ سے اجتناب ہی بہتر ہو گا۔ خصوصًایہاں تو معنی بھی واضح نہیں ہو پا رہا۔ مزید یہ کہ دوسرا مصرعہ بہت رواں اور "اُردوانہ" ہے۔ دوسرے مصرعے کا حق بنتا ہے کہ اسے اپنی ٹکر کا پہلا مصرعہ ملے۔ تو میری طرف ایک بار پھر: نہیں میں قائل نہیں ہوا۔ شعر میں اگر شعریت ہی نہ بچی تو پھر کاہے کا شعر!
اتفاق سے میرے گردن کے پچھلے حصے میں بھی درد ہے آج درد ہے ۔اور کلاس میں دونوں ٹائم آج مووی ہی دکھایا گیا مستقل گردن اٹھا کر دیکھتے دیکھتے اور درد ہوگئی کل جائوں گا فیزیوتھرپسٹ کے پاس۔قسم سے میری خود کی بھی طبعیت آج گھبرا رہی ہے کل جو بھاگ دوڑ کی تھی شاید اس کی وجہ سے گردن کی پچھلے طرف درد بھی ہے
مطلب تو واضح ہو گیا۔ شعریت کا فیصلہ میں آپ اور اساتذہ گرامی پر چھوڑتا ہوں۔ایک اور کوشش (معنی واضح کرنے کے لئے )
خود آزادی روایت میں ہے جکڑی
سنہرے خواب کیوں دکھلا رہی ہے
آپ کی رائے کے لئے نہایت مشکور ہوں ویسے اگر اس کی کوئی مثال پیش کردیں تو ممنون ہونگا
مطلب تو واضح ہو گیا۔ شعریت کا فیصلہ میں آپ اور اساتذہ گرامی پر چھوڑتا ہوں۔
جیسا کہ ابتدا ہی میں ذکر کیا تھا کہ یہ (سراسر) میری ذاتی رائے ہے۔ لہٰذا مثال کے باب میں معذرت خواہ ہوں۔ آج سے کم و بیش پندرہ برس قبل میرے ایک استاد نے جو ہمیں عربی علمِ صرف پڑھاتے تھے بتایا تھا کہ ایک عربی محاورے کے مطابق مولوی اور صَرفی (علمِ صرف کا ماہر) کبھی اچھا شعر نہیں کہہ سکتے۔ میں خود بھی اس بات کا مشاہدہ کر چکا تھا۔ میں نے اس کے اسباب و علل پر غور کیا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ دراصل وہ لوگ اکثر شعریت کو باطن نہیں بلکہ خارج میں تلاش کرتے ہیں لہٰذا نامراد رہتے ہیں۔ وہ دن اور آج کا دن میں شعریت کی تلاش تقطیع دانوں اور زبان و بیا ن کے علماء کی کتابوں کی بجائے امامانِ شعر و سخن کے کلام میں کرتا ہوں۔ جو شعر کیٹس 20 برس کی عمر میں کہہ گیا عظیم انگریزی دان ڈاکٹر جانسن ہزار برس کی عمر میں بھی نہ کہہ پاتا۔
اگر کسی کو میری یہ بحث بے جا لگی ہو تو معذرت چاہتا ہوں۔ میرا مقصد صرف اپنے اور اپنے ساتھیوں کے کلام میں "شعریت" دیکھنا مقصود ہے۔ ایک مرتبہ پھر اہلِ علم اور اساتذہ سے گذارش ہے کہ رہنما ئی فرمائیں۔ خصوصًا جنا ب الف عین اور دیگر سینیئر صاحبان۔