محمد اظہر نذیر
محفلین
اساتذہ کرام کی خدمت میں ایک بار پھر اصلاح کی درخواست کے ساتھ حاضر ہوں، افتخار عارف صاحب کی ایک خوبصورت غرل کو طرح لگانے کی گستاخی سرزد ہو گئی ہے- اب آپ کے ہاتھ ہے اسے بہتر بنانا
ممنون احسان
اظہر
بحر ہے مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
ممنون احسان
اظہر
مری تلاش تو ویسے ہی اک بہانا تھا
اُسے تو یوں بھی کسی اور سمت جانا تھا
وہ دیکھتے بھی نہیں، ہو بلا سے اُنکی جو
ہماری لہد بنے، اُس کو گھر بسانا تھا
ہمیشہ بات تو مجھ سے، نگاہ مگر اُس پر
اُسے تو ڈر بھی نہیں مجھ سے سب چھپانا تھا
ہمیں سُنا نہ سُنا، سُن کے سب اڑا ہی دیا
اُسی کی بات حقیقت، مری فسانا تھا
کبھی سُنو گے ہماری یہ آس رہنے تو دو
کہیں گے گر چہ کہا، یوں ہی سب گنوانا تھا
کسی بھی طور سے بولا ہمیں محبت ہے
کہا کہ کس سے؟ اُسے ہم کو بس ستانا تھا
ہمیں پتا بھی نہ اظہر، مگر یہ دِل ناداں
اِسے تو اپنی کتھا، حال جُو سنانا تھا
اُسے تو یوں بھی کسی اور سمت جانا تھا
وہ دیکھتے بھی نہیں، ہو بلا سے اُنکی جو
ہماری لہد بنے، اُس کو گھر بسانا تھا
ہمیشہ بات تو مجھ سے، نگاہ مگر اُس پر
اُسے تو ڈر بھی نہیں مجھ سے سب چھپانا تھا
ہمیں سُنا نہ سُنا، سُن کے سب اڑا ہی دیا
اُسی کی بات حقیقت، مری فسانا تھا
کبھی سُنو گے ہماری یہ آس رہنے تو دو
کہیں گے گر چہ کہا، یوں ہی سب گنوانا تھا
کسی بھی طور سے بولا ہمیں محبت ہے
کہا کہ کس سے؟ اُسے ہم کو بس ستانا تھا
ہمیں پتا بھی نہ اظہر، مگر یہ دِل ناداں
اِسے تو اپنی کتھا، حال جُو سنانا تھا
بحر ہے مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن