محمد اظہر نذیر
محفلین
خواب میں لذتِ یک خواب ہے دنیا میری
بن تیرے پیار کے گرداب ہے دنیا میری
میں بھٹکتا ہی رہا ہوں راہِ اُلفت جاناں
ایسی بے چین سی سیماب ہے دنیا میری
میں کھلا جس پہ بھی وہ شخص دغا دیتا رہا
اب تو میں ہوں اور حجاب ہے دنیا میری
میں کہیں لفظ بھی بولوں تو تُو کہنا مجھے
خامشی میں ہی تو خطاب ہے دنیا میری
تم تصور میں مجھے لوریاں سناتے تو سہی
کس قدر دیکھ تو بے خواب ہے دنیا میری
ورد مرجھائے سے ہیں، اور چمن افسردہ
جل چکے ہیں وہ، تیزاب ہے دنیا میری
وہ مسبب ہے اگر تجھ کو گلہ کیا اظہر
اُسی کے دم سے ہی اسباب ہے دنیا میری
بن تیرے پیار کے گرداب ہے دنیا میری
میں بھٹکتا ہی رہا ہوں راہِ اُلفت جاناں
ایسی بے چین سی سیماب ہے دنیا میری
میں کھلا جس پہ بھی وہ شخص دغا دیتا رہا
اب تو میں ہوں اور حجاب ہے دنیا میری
میں کہیں لفظ بھی بولوں تو تُو کہنا مجھے
خامشی میں ہی تو خطاب ہے دنیا میری
تم تصور میں مجھے لوریاں سناتے تو سہی
کس قدر دیکھ تو بے خواب ہے دنیا میری
ورد مرجھائے سے ہیں، اور چمن افسردہ
جل چکے ہیں وہ، تیزاب ہے دنیا میری
وہ مسبب ہے اگر تجھ کو گلہ کیا اظہر
اُسی کے دم سے ہی اسباب ہے دنیا میری
اساتزہ کرام،
ایک طرحی غزل کے ساتھ حاضر ہوں، بحر " رمل مثمن مخبون مشعت محزوف" ہے
بے حد ممنون
اظہر