طرحی غزل برائے اصلاح

السلام علیکم سر الف عین عظیم شاہد شاہنواز بھائی اصلاح فرمائیں۔۔۔

افاعیل :- فعلن مفاعلن فعلاتن مفاعلن

دامن کو تیرے بعد بچاتا نہیں ہوں میں
اب آگ بھی لگی ہو بجھاتا نہیں ہوں میں

رہتا ہے میرے بعد پریشان کس لئے
پہلے کی طرح تجھکو ستاتا نہیں ہوں میں

تو بار بار پاس بلاتے ہو کس لئے
اچھا نہیں ہوں گر ، تمہیں بھاتا نہیں ہوں میں

کرنا ہے اعتبار تو کر لیجئے مرا
تم جانتے ہو قسمیں اٹھاتا نہیں ہوں میں

دنیا نہ جان لے اسے کرتا ہوں پیار میں
کرتا ہوں کیا ، کسی کو بتاتا نہیں ہوں میں

کھاتا ہوں کم ، لباس پہنتا ہوں عام سا
عمران پر حرام کماتا نہیں ہوں میں

شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
افاعیل درست یہ ہیں
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن /فاعلات
دامن کو تیرے بعد بچاتا نہیں ہوں میں
اب آگ بھی لگی ہو بجھاتا نہیں ہوں میں
.. واضح نہیں۔تیرے بعد سے کیا مراد ہے؟

رہتا ہے میرے بعد پریشان کس لئے
پہلے کی طرح تجھکو ستاتا نہیں ہوں میں
.. یہاں میرے بعد سے مراد ہے کہ میری ستانے کی عادت چھوڑنے کے بعد! اس کے بغیر بھی واضح ہو جاتا ہے اور یہ الفاظ اضافی لگتے ہیں، اس کی جگہ 'اب بھی' اور 'تو' ہوں تو زیادہ واضح ہو گا

تو بار بار پاس بلاتے ہو کس لئے
اچھا نہیں ہوں گر ، تمہیں بھاتا نہیں ہوں میں
... تو کا طویل کھنچنا نا گوار لگتا ہے، اس کی جگہ' تم' ہی استعمال کرو ۔ 'پاس' کی بجائے 'مجھ کو' بھی استعمال کیا جا سکتا ہے

کرنا ہے اعتبار تو کر لیجئے مرا
تم جانتے ہو قسمیں اٹھاتا نہیں ہوں میں
... شتر گربہ (لیجیے اور تم)
قسم کھائی جاتی ہے، اٹھاتے کیسے ہیں، مجھے معلوم نہیں

دنیا نہ جان لے اسے کرتا ہوں پیار میں
کرتا ہوں کیا ، کسی کو بتاتا نہیں ہوں میں
... دونوں مصرعے 'میں' پر ختم نہ کیے جائیں

کھاتا ہوں کم ، لباس پہنتا ہوں عام سا
عمران پر حرام کماتا نہیں ہوں میں
.. درست
 
عزیزی عمران صاحب، آداب!

آپ نے بحر کے جو افاعیل لکھے ہیں، دیکھ کر مجھے کچھ حیرت ہوئی، اور تجسس بھی! کہ آپ نے ایک بہروپی بحر کیوں اختیار کی! حالانکہ یہ بعینہ بحر مضارع مثمن (الخ) کا وزن ہے جو کہ معروف ہے اور اس کے افاعیل ’’مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن‘‘ ہیں۔ خیر!

رہتا ہے میرے بعد پریشان کس لئے
پہلے کی طرح تجھکو ستاتا نہیں ہوں میں

بیان تھوڑے سے الجھاؤ کا شکار ہے۔ پہلے مصرعہ اشارہ کر رہا ہے کہ اب آپ ’’اس‘‘ کے ساتھ نہیں ہیں، تو پھر دوسرے مصرعے میں ’’پہلے کی طرح ستانا‘‘ چہ معنی دارد؟؟؟ جب آپ ہیں ہی نہیں تو پہلے کی طرح یا کسی اور بھی طرح محبوب کو کیسے ستا سکتے ہیں؟

تو بار بار پاس بلاتے ہو کس لئے
اچھا نہیں ہوں گر ، تمہیں بھاتا نہیں ہوں میں

’’تو‘‘ سے مصرعے کو شروع کرنا مناسب نہیں ہے۔ مزید یہ کہ دوسرے مصرعے میں ’’تمہیں‘‘ کی ’’ی‘‘ کا اسقاط راونی میں خلل ڈال رہا ہے۔ اس کو اگر اس طرح سوچا جائے تو کیسا ہے؟

کیوں پاس بار بار بلاتا ہے مجھ کو، جب
اس کی نگاہِ ناز کو بھاتا نہیں ہوں میں

کرنا ہے اعتبار تو کر لیجئے مرا
تم جانتے ہو قسمیں اٹھاتا نہیں ہوں میں

شعر شتر گربہ کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ مصرعہ ثانی میں ’’قسمیں‘‘ کی ’’ی‘‘ کا اسقاط بھی اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ اس کو ’’قسم‘‘ کردیں تو بھی مصرعہ وزن میں پورا رہے گا۔

دنیا نہ جان لے اسے کرتا ہوں پیار میں
کرتا ہوں کیا ، کسی کو بتاتا نہیں ہوں میں

یہاں ایک تو تقابل ردیفین کا مسئلہ ہے۔ مزید یہ کہ بیان بھی بہتری کا متقاضی ہے، خصوصاً مصرعہ ثانی۔

کھاتا ہوں کم ، لباس پہنتا ہوں عام سا
عمران پر حرام کماتا نہیں ہوں میں

پہلے مصرعے کی بنت اگر بہتر کرلی جائے تو شعر مزید جاندار ہو سکتا ہے۔ ذیل میں دی گئی تجویز کے بارے میں کیا خیال ہے؟

عمرانؔ، میرے تن پہ ہے خستہ قبا تو کیا!
شکرِ خدا، حرام کماتا نہیں ہوں میں

امید ہے کہ آپ نے ان تلمیذانہ معروضات کا برا نہیں مانا ہوگا۔

دعاگو،
راحلؔ
 
عزیزی عمران صاحب، آداب!

آپ نے بحر کے جو افاعیل لکھے ہیں، دیکھ کر مجھے کچھ حیرت ہوئی، اور تجسس بھی! کہ آپ نے ایک بہروپی بحر کیوں اختیار کی! حالانکہ یہ بعینہ بحر مضارع مثمن (الخ) کا وزن ہے جو کہ معروف ہے اور اس کے افاعیل ’’مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن‘‘ ہیں۔ خیر!



بیان تھوڑے سے الجھاؤ کا شکار ہے۔ پہلے مصرعہ اشارہ کر رہا ہے کہ اب آپ ’’اس‘‘ کے ساتھ نہیں ہیں، تو پھر دوسرے مصرعے میں ’’پہلے کی طرح ستانا‘‘ چہ معنی دارد؟؟؟ جب آپ ہیں ہی نہیں تو پہلے کی طرح یا کسی اور بھی طرح محبوب کو کیسے ستا سکتے ہیں؟



’’تو‘‘ سے مصرعے کو شروع کرنا مناسب نہیں ہے۔ مزید یہ کہ دوسرے مصرعے میں ’’تمہیں‘‘ کی ’’ی‘‘ کا اسقاط راونی میں خلل ڈال رہا ہے۔ اس کو اگر اس طرح سوچا جائے تو کیسا ہے؟

کیوں پاس بار بار بلاتا ہے مجھ کو، جب
اس کی نگاہِ ناز کو بھاتا نہیں ہوں میں



شعر شتر گربہ کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ مصرعہ ثانی میں ’’قسمیں‘‘ کی ’’ی‘‘ کا اسقاط بھی اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ اس کو ’’قسم‘‘ کردیں تو بھی مصرعہ وزن میں پورا رہے گا۔



یہاں ایک تو تقابل ردیفین کا مسئلہ ہے۔ مزید یہ کہ بیان بھی بہتری کا متقاضی ہے، خصوصاً مصرعہ ثانی۔



پہلے مصرعے کی بنت اگر بہتر کرلی جائے تو شعر مزید جاندار ہو سکتا ہے۔ ذیل میں دی گئی تجویز کے بارے میں کیا خیال ہے؟

عمرانؔ، میرے تن پہ ہے خستہ قبا تو کیا!
شکرِ خدا، حرام کماتا نہیں ہوں میں

امید ہے کہ آپ نے ان تلمیذانہ معروضات کا برا نہیں مانا ہوگا۔

دعاگو،
راحلؔ

میرے لکھتے لکھتے ہی استادِ محترم اعجاز صاحب کی اصلاح آگئی وگرنہ ان کی رائے کے بعد میں کچھ لکھنے کی جرأت نہیں کرتا، معذرت :)
 
افاعیل درست یہ ہیں
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن /فاعلات
دامن کو تیرے بعد بچاتا نہیں ہوں میں
اب آگ بھی لگی ہو بجھاتا نہیں ہوں میں
.. واضح نہیں۔تیرے بعد سے کیا مراد ہے؟

رہتا ہے میرے بعد پریشان کس لئے
پہلے کی طرح تجھکو ستاتا نہیں ہوں میں
.. یہاں میرے بعد سے مراد ہے کہ میری ستانے کی عادت چھوڑنے کے بعد! اس کے بغیر بھی واضح ہو جاتا ہے اور یہ الفاظ اضافی لگتے ہیں، اس کی جگہ 'اب بھی' اور 'تو' ہوں تو زیادہ واضح ہو گا

تو بار بار پاس بلاتے ہو کس لئے
اچھا نہیں ہوں گر ، تمہیں بھاتا نہیں ہوں میں
... تو کا طویل کھنچنا نا گوار لگتا ہے، اس کی جگہ' تم' ہی استعمال کرو ۔ 'پاس' کی بجائے 'مجھ کو' بھی استعمال کیا جا سکتا ہے

کرنا ہے اعتبار تو کر لیجئے مرا
تم جانتے ہو قسمیں اٹھاتا نہیں ہوں میں
... شتر گربہ (لیجیے اور تم)
قسم کھائی جاتی ہے، اٹھاتے کیسے ہیں، مجھے معلوم نہیں

دنیا نہ جان لے اسے کرتا ہوں پیار میں
کرتا ہوں کیا ، کسی کو بتاتا نہیں ہوں میں
... دونوں مصرعے 'میں' پر ختم نہ کیے جائیں

کھاتا ہوں کم ، لباس پہنتا ہوں عام سا
عمران پر حرام کماتا نہیں ہوں میں
.. درست
بہت شکریہ سر۔۔۔ دراصل ڈاکٹر نثار اکبر آبادی نے اپنی کتاب شعر اور فن شعر میں اس بحر کو اسی طرح لکھا ہے اور مجھے اس طرح تقطیع کرنے میں زیادہ آسانی رہتی ہے۔۔۔ ورنہ مجھے بھی علم ہے اس بحر کا۔۔۔

سرائیکی زبان میں قسم اٹھانا محاورہ ہے اس لئے یہاں بھی وہی آ گیا۔۔۔ بہتر کرتا ہوں۔۔۔
 
عزیزی عمران صاحب، آداب!

آپ نے بحر کے جو افاعیل لکھے ہیں، دیکھ کر مجھے کچھ حیرت ہوئی، اور تجسس بھی! کہ آپ نے ایک بہروپی بحر کیوں اختیار کی! حالانکہ یہ بعینہ بحر مضارع مثمن (الخ) کا وزن ہے جو کہ معروف ہے اور اس کے افاعیل ’’مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن‘‘ ہیں۔ خیر!



بیان تھوڑے سے الجھاؤ کا شکار ہے۔ پہلے مصرعہ اشارہ کر رہا ہے کہ اب آپ ’’اس‘‘ کے ساتھ نہیں ہیں، تو پھر دوسرے مصرعے میں ’’پہلے کی طرح ستانا‘‘ چہ معنی دارد؟؟؟ جب آپ ہیں ہی نہیں تو پہلے کی طرح یا کسی اور بھی طرح محبوب کو کیسے ستا سکتے ہیں؟



’’تو‘‘ سے مصرعے کو شروع کرنا مناسب نہیں ہے۔ مزید یہ کہ دوسرے مصرعے میں ’’تمہیں‘‘ کی ’’ی‘‘ کا اسقاط راونی میں خلل ڈال رہا ہے۔ اس کو اگر اس طرح سوچا جائے تو کیسا ہے؟

کیوں پاس بار بار بلاتا ہے مجھ کو، جب
اس کی نگاہِ ناز کو بھاتا نہیں ہوں میں



شعر شتر گربہ کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ مصرعہ ثانی میں ’’قسمیں‘‘ کی ’’ی‘‘ کا اسقاط بھی اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ اس کو ’’قسم‘‘ کردیں تو بھی مصرعہ وزن میں پورا رہے گا۔



یہاں ایک تو تقابل ردیفین کا مسئلہ ہے۔ مزید یہ کہ بیان بھی بہتری کا متقاضی ہے، خصوصاً مصرعہ ثانی۔



پہلے مصرعے کی بنت اگر بہتر کرلی جائے تو شعر مزید جاندار ہو سکتا ہے۔ ذیل میں دی گئی تجویز کے بارے میں کیا خیال ہے؟

عمرانؔ، میرے تن پہ ہے خستہ قبا تو کیا!
شکرِ خدا، حرام کماتا نہیں ہوں میں

امید ہے کہ آپ نے ان تلمیذانہ معروضات کا برا نہیں مانا ہوگا۔

دعاگو،
راحلؔ
بہت شکریہ جناب۔۔۔
 
Top