سعید سعدی
محفلین
ہم نوا کی خبر نہیں ملتی
گر ملے معتبر نہیں ملتی
بخش دے نور ظلمتوں کو مری
ایسی روشن سحر نہیں ملتی
بادِ صرصر ہی بس نصیب میں ہے
"اب نسیمِ سحر نہیں ملتی"
زندگی کے سراب میں گم ہوں
مجھ کو اپنی خبر نہیں ملتی
ہیں سبھی خواہشات کے قیدی
کوئی صورت دگر نہیں ملتی
زندگی موت کے حصار میں ہے
کوئی راہِ مفر نہیں ملتی
اک عجب بے حسی کا عالم ہے
اب کوئی چشم تر نہیں ملتی
ہم خوشی کی تلاش میں سعدی
ہوگئے دربدر نہیں ملتی
گر ملے معتبر نہیں ملتی
بخش دے نور ظلمتوں کو مری
ایسی روشن سحر نہیں ملتی
بادِ صرصر ہی بس نصیب میں ہے
"اب نسیمِ سحر نہیں ملتی"
زندگی کے سراب میں گم ہوں
مجھ کو اپنی خبر نہیں ملتی
ہیں سبھی خواہشات کے قیدی
کوئی صورت دگر نہیں ملتی
زندگی موت کے حصار میں ہے
کوئی راہِ مفر نہیں ملتی
اک عجب بے حسی کا عالم ہے
اب کوئی چشم تر نہیں ملتی
ہم خوشی کی تلاش میں سعدی
ہوگئے دربدر نہیں ملتی
مدیر کی آخری تدوین: