طرحی غزل

سعید سعدی

محفلین
ہم نوا کی خبر نہیں ملتی
گر ملے معتبر نہیں ملتی

بخش دے نور ظلمتوں کو مری
ایسی روشن سحر نہیں ملتی

بادِ صرصر ہی بس نصیب میں ہے
"اب نسیمِ سحر نہیں ملتی"

زندگی کے سراب میں گم ہوں
مجھ کو اپنی خبر نہیں ملتی

ہیں سبھی خواہشات کے قیدی
کوئی صورت دگر نہیں ملتی

زندگی موت کے حصار میں ہے
کوئی راہِ مفر نہیں ملتی

اک عجب بے حسی کا عالم ہے
اب کوئی چشم تر نہیں ملتی

ہم خوشی کی تلاش میں سعدی
ہوگئے دربدر نہیں ملتی​
 
مدیر کی آخری تدوین:

عظیم

محفلین
معاف کیجیے گا سعید سعدی صاحب ۔ مطلع میں ایطا ہے ۔ خبر اور معتبر میں 'بر' کی تکرار ہے ۔ آپ ماشاء اللہ اچھا لکھتے ہیں ۔ کیا کسی استاد کو بھی دکھاتے ہیں اپنا کلام ؟
 
لاجواب سعدی صاحب
زندگی کے سراب میں گم ہوں
مجھ کو اپنی خبر نہیں ملتی

ہیں سبھی خواہشات کے قیدی
کوئی صورت دگر نہیں ملتی

زندگی موت کے حصار میں ہے
کوئی راہِ مفر نہیں ملتی

اک عجب بے حسی کا عالم ہے
اب کوئی چشم تر نہیں ملتی
 

سعید سعدی

محفلین
معاف کیجیے گا سعید سعدی صاحب ۔ مطلع میں ایطا ہے ۔ خبر اور معتبر میں 'بر' کی تکرار ہے ۔ آپ ماشاء اللہ اچھا لکھتے ہیں ۔ کیا کسی استاد کو بھی دکھاتے ہیں اپنا کلام ؟
جی بجا فرمایا ... میں تبدیل کرتا ہوں ان شاء اللہ... توجہ دلانے کے لیے شکرگزار ہوں
 
Top