طعنہء سود و زیاں مجھ کو نہ دینا ، دیکھو
میرے گھر آؤ کبھی ، میرا اثاثہ دیکھو
اپنے اثاثے تو تبھی شو کیے جاتے ہیں جب غبن کا کیس ہو یعنی :
تہمتِ دجل و غبن مجھ پہ نہ دھرنا دیکھو
میرے گھر آؤ کبھی میرا اثاثہ دیکھو
یا پھر کوئی کنگال یا مفلس ہونے کا طعنہ یا الزام دے کہ فلاں راستے پہ چل کر آپ کو حاصل وصول تو کچھ نہیں ہوا الٹا دنیا برباد کر دی تو اثاثے دکھائے جاتے ہیں گویا اثاثے دکھانا یا تو اظہار کمتری کے لئے ہو گا یا اظہار برتری کے لیے اور غالباً آپ کے شعر میں دوسری صورت، اظہار برتری کی ہے -لہٰذا "طعنہء سود و زیاں"کی ترکیب میں "سود" بےسود ہی معلوم ہوتا ہے -
یاسر بھائی ، مطلع تو آپ نے بالکل ہی اپنے سر کے اوپر سے گزار لیا۔ نہ تو آپ سود و زیاں کے معنی سمجھے اور نہ ہی آپ اثاثہ اور اثاثے کے فرق کو دیکھ سکے۔ سود و زیاں کے معنی ہیں نفع نقصان ، برا بھلا ۔ اردو شاعری اور نثر میں سود و زیاں کا مطلب کبھی بھی مادی نفع نقصان نہیں ہوتا۔ یہ تو بالکل عام سی بات ہے اور اردو شاعری کا ہر قاری اس سے واقف ہے۔ ہزاروں اشعار میں یہ ترکیب استعمال ہوئی ہے۔ آپ کی خاطر میں چند مثالیں یہاں لکھ دیتا ہوں۔
(مندرجہ ذیل اشعار میں سود و زیاں کا مطلب نفع نقصان ہے۔ یعنی جیسے کہتے ہیں کہ تم اپنا نفع نقصان مجھ سے بہتر جانتے ہو ۔ وغیرہ ۔)
تم محبت میں کہاں سود و زیاں لے آئے
عشق کا نام خرد ہے نہ جنوں ہے یوں ہے
(فرازؔ)
ہے سلسلہ احوال کا ہر لحظہ دگرگوں
اے سالکِ رہ! فکر نہ کر سود و زياں کا
(اقبالؔ)
جو سود و زیاں کی فکر کرے
وہ عشق نہیں مزدوری ہے
(سلیم احمد)
(جبکہ ذیل کے اشعار میں سود و زیاں کا مطلب بُرا بھلا ہے ۔ یعنی جیسے کہتے ہیں کہ بھئی تم اپنا برا بھلا خوب جانتے ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔)
ازل سے کر رہی ہے زندگانی تجربے لیکن
زمانہ آج تک سمجھا نہیں سود و زیاں اپنا
(قابل اجمیری)
اب سمجھنے لگا ہوں سود و زیاں
اب کہاں مجھ میں وہ جنوں صاحب
(جاوید اختر)
آپ نے اپنا تبصرہ اثاثوں کے متعلق لکھ دیا جبکہ شعر میں لفظ اثاثہ استعمال ہوا ہے۔ دونوں میں بہت بڑا فرق ہے ۔ جمع کا صیغہ یعنی اثاثے یا اثاثہ جات تو مادی اشیا کے لیے استعمال ہوتے ہیں جبکہ اثاثہ غیر مادی شے کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے کہا جائے کہ مسلمان کا اثاثہ تو اس کا ایمان ہوتا ہے وغیرہ۔
داغِ دل نقش ہے اک لالۂ صحرائی کا
یہ اثاثہ ہے مری بادیہ پیمائی کا
(احمد ندیم قاسمی)
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے
(افتخار عارف)
یہ ہم جو زیست کے ہر عشق میں سچائیاں سوچیں
یہ ہم جن کا اثاثہ تشنگی ، تنہائیاں سوچیں
(فرازؔ)
تہمتِ زر سے تہی کیسہ و کاسہ نکلے
میرے قرطاس و قلم میرا اثاثہ نکلے
(خاکسار)
چنانچہ مطلع میں سود و زیاں اور اثاثہ کے الفاظ سے رعایت پیدا ہوگئی ہے۔ یہ شعر کی خوبی میں شمار ہوتا ہے۔ شعر کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ مجھے نفع نقصان کے طعنے دینے والو میرے گھر آؤ اور دیکھو کہ میں نے کیا کھویا اور کیا پایا ہے ، میرا اثاثہ دیکھو ۔ اب یہ اثاثہ فقر و غنا بھی ہوسکتا ہے ، محبت بھی ہوسکتی ہے ، سادگی بھی ہوسکتی ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اس کا تعین قاری کے اپنے ذوق اورتجربے پر منحصر ہے۔