زھرا علوی
محفلین
طفلان کوچہ گرد کے پتھر بھی کچھ نہیں
سودا بھی ایک وہم ہے اور سر بھی کچھ نہیں
بس اک غباروہم ہے اک کوچہ گرد کا
دیوار بود کچھ نہیں اور در بھی کچھ نہیں
مقدور اپنا کچھ بھی نہیں اس دیار میں
شاید وہ جبر ہے کہ مقدر بھی کچھ نہیں
بس اک غبار طور گماں کا ہے تہہ بہ تہہ
یعنی نظر بھی کچھ نہیں منظر بھی کچھ نہیں
یاراں! تمہیں جو مجھ سے گلہ ہے تو کس لیے
مجھ کو اعتراض خدا پر بھی کچھ نہیں
گزرے گی جونٓ شہر میں رشتوں کے کس طرح
دل میں بھی کچھ نہیں ہے زباں پر بھی کچھ نہیں
سودا بھی ایک وہم ہے اور سر بھی کچھ نہیں
بس اک غباروہم ہے اک کوچہ گرد کا
دیوار بود کچھ نہیں اور در بھی کچھ نہیں
مقدور اپنا کچھ بھی نہیں اس دیار میں
شاید وہ جبر ہے کہ مقدر بھی کچھ نہیں
بس اک غبار طور گماں کا ہے تہہ بہ تہہ
یعنی نظر بھی کچھ نہیں منظر بھی کچھ نہیں
یاراں! تمہیں جو مجھ سے گلہ ہے تو کس لیے
مجھ کو اعتراض خدا پر بھی کچھ نہیں
گزرے گی جونٓ شہر میں رشتوں کے کس طرح
دل میں بھی کچھ نہیں ہے زباں پر بھی کچھ نہیں