طلاق۔۔۔۔۔۔عابی مکھنوی

بہت بیزار لگتے ہو
بڑے ہلکان رہتے ہو
مرے دو چار شکوے بھی
بڑی مشکل سے سہتے ہو
حقیقت تلخ ہے لیکن
بتانا بھی ضروری ہے
اگر احساس سو جائے
جگانا بھی ضروری ہے
وفا کی لاج رکھتی ہوں
حیا میرا بچھونا ہے
جہاں میں رہنا چاہتی ہوں
تمھارا دل وہ کونا ہے
فقط اُن تین بولوں سے
میں بندی تُو خُدا ٹھہرا
مُجھے جنت بسانی تھی
مگر جینا سزا ٹھہرا
مُجھے ماں باپ کا سایہ
تھا کافی جو وہیں رہتی
اگر تنہا سُلگنا تھا
مُجھے کیا تھا کہیں رہتی
جسے تم تین لفظوں سے
اچانک چھوڑ دیتے ہو
بڑا مضبوط رشتہ ہے
جسے تم توڑ دیتے ہو
سُنو کچھ وقت باقی ہے
ذرا سوچو کہاں ہو تُم
مِری تقدیر تُم سے ہے
وہیں میں ہوں جہاں ہو تُم
وہیں میں ہوں جہاں ہو تُم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عابی مکھنوی
 

امجد چیمہ

محفلین
ہر بار مرد ہی قصور وار نہیں ہوتا کبھی دوسری طرف سے بھی پہل ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر آج کے دور میں جہاں ہمارے ملک میں مغربی میڈیا اور بھارتی میڈیا اپنا اثرو رسوخ بھی دکھا رہا ہے۔ وہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں چونکہ زیادہ تر کمانے کا کام مرد ہی کرتے ہیں۔ اور عورتیں گھر پر ہوتی ہیں۔ (میں یہاں یہ واضع کر دوں کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ عورتیں گھر میں فارغ ہوتی ہیں اور کوئی کام نہیں کرتیں گھر اور بچے سنبھالنا بذاتِ خود ایک فل ٹائم کام ہے) زیادہ لمبی تحریر نہیں صرف ایک مسئلہ بیان کروں گا کہ ہمارے معاشرے میں ایک عجیب سی روش چل رہی ہے عورت نے جب گھر سے نکلنا ہوتا ہے تو وہ تبھی صاف کپڑے پہنتی ہے اور تیار ہو کر نکلتی ہے اور عام حالات میں وہ تیار ہونا تو کجا کپڑے بھی صاف پہننے سے کتراتی ہے۔ اب اگر شوہر شام کو دفتر سے یا اپنے کام سے گھر آتا ہے تو آتے ہی بجائے اس کے اس کو تھوڑا آرام ملے اور کچھ دلجوئی ہو مختلف قسم کی فرمائشیں اور مسائل بیان کر دیے جاتے ہیں اور رہی سہی کسر اس بات پر نکل جاتی ہے کہ بیگم نے وہی کپڑے پہنے ہوئے ہیں جو چار دن پہلے پہنے ہوئے تھے۔ تو کیا ایسے میں شوہر کا دماغ خراب نہیں ہوگا۔ اور پھر الزام لگا دیا جاتا ہے کہ شوہر دوسری لڑکیوں میں دلچسپی لیتا ہے۔کیا مرد کا حق نہیں کہ جب وہ گھر آئے تو اس کی بیوی صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے ہو اور آتے ہی بجائے فرمائیشی پروگرام کے اگر کچھ باتیں سارے دن کی کار گزاری پر ہو جائیں تو کیا حرج ہے اس میں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بیوی جب باہر جائے تو صاف ستھرے کپڑے پہن کر اور بن سنور کر جائے مگر گھر پر وہ ایسے ہی رہے جیسے نہ تو اس کو کپڑے دھونے کے لیے سامان ملتا ہے اور نہ ہی پانی میسر ہے
 

ماہی احمد

لائبریرین
بہت بیزار لگتے ہو
بڑے ہلکان رہتے ہو
مرے دو چار شکوے بھی
بڑی مشکل سے سہتے ہو
حقیقت تلخ ہے لیکن
بتانا بھی ضروری ہے
اگر احساس سو جائے
جگانا بھی ضروری ہے
وفا کی لاج رکھتی ہوں
حیا میرا بچھونا ہے
جہاں میں رہنا چاہتی ہوں
تمھارا دل وہ کونا ہے
فقط اُن تین بولوں سے
میں بندی تُو خُدا ٹھہرا
مُجھے جنت بسانی تھی
مگر جینا سزا ٹھہرا
مُجھے ماں باپ کا سایہ
تھا کافی جو وہیں رہتی
اگر تنہا سُلگنا تھا
مُجھے کیا تھا کہیں رہتی
جسے تم تین لفظوں سے
اچانک چھوڑ دیتے ہو
بڑا مضبوط رشتہ ہے
جسے تم توڑ دیتے ہو
سُنو کچھ وقت باقی ہے
ذرا سوچو کہاں ہو تُم
مِری تقدیر تُم سے ہے
وہیں میں ہوں جہاں ہو تُم
وہیں میں ہوں جہاں ہو تُم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عابی مکھنوی
بہت عمدہ۔۔۔
 
Top