عظیم اللہ قریشی
محفلین
طلاق نامہ
تحریر: قاری حنیف ڈاراگست کی تپتی دوپہر ، تندور کی طرح ل۔ُ۔و کی لپٹیں اٹھاتی گلیوں میں سے وہ دوڑتا ھوا ماں کے پاس پہنچا جو ایک تالاب پر کپڑے دھونے آئی ھوئی تھی !
امی ، امی ابو کا خط اس نے ماں کو خوشخبری سنائی ! تیسری کلاس میں پڑھتے اپنے بیٹے کے تپتے ھوئے چہرے کو دیکھتے ھوئے اس نے اسی کو خط پڑھنے کو کہا کیونکہ وہ خود ان پڑھ تھی !
بیٹا خط کھول رھا تھا اور وہ کھڑی ھو کر کوئی کپڑا نچوڑ رھی تھی جب اچانک بیٹے نے خط کا سرنامہ پڑھا ،،،،،،،،،،،طلاق نامہ ،،،،،،،،،،،،،،
سرنامہ پڑھ کر بچے نے مزید آگے پڑھنے سے پہلے ماں کی طرف دیکھا، جس کے ھاتھ سے کپڑا چھوٹ کر دوبارہ تالاب کے پانی میں گر گیا تھا اور وہ کمر کو پکڑ کر بیٹھنے کی کوشش کر رھی تھی !
معصوم بچہ جسے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ طلاق نامہ کیا بلا ھوتی ھے ! یہ خوشخبری ھوتی ھے یا کسی کی زندگی کی تباھی کا اعلان نامہ ! وہ ماں کی حالت دیکھ کر پریشان ھو گیا جو اسے ھاتھ کے اشارے سے مزید آگے پڑھنے سے روک رھی تھی ! ماں نے دھلے ان دھلے سارے کپڑے لپیٹے اور گھر واپس آ گئ !
فردِ جرم یہ لگائی گئ کہ میں نے جب تمہیں بہن کے گھر جانے سے منع کیا تھا تو تم اس کے گھر کیوں گئ ھو ! وہ دو بہنیں ھی تھیں اور کوئی ان کا تھا بھی نہیں ! نہ والدین نہ بھائی !
طلا ق کے بعد وہ 24 سال کی عمر میں بہن ھی کے گھر کے ایک کمرے میں رھنے لگی ! باپ کی کوشش کے باوجود بیٹا ماں کو چھوڑنے پر تیار نہیں تھا ، حساس طبیعت بچے نے اس واقعے کو اپنی زندگی کا دکھ بنا لیا اور اس دکھ کو محنت میں تبدیل کر کے تعلیم پر پوری توجہ مبذول کر دی،، وہ اس چھوٹی عمر میں ھی محنت کرنے لگ گیا اور اپنے تعلیم کے اخراجات خود برداشت کرتا ! ماں اسے چنے چاٹ بنا دیتی جو وہ عصر اور مغرب کے درمیاں بیچ دیتا ،، وہ بورا تربوز کا ایک دفعہ خرید لیتے جسے وہ روزانہ عصر کے بعد اور چھٹی والے دن بیچتا،، ماں لوگوں کے گھروں کا کام کرتی یوں گھر کے اخراجات چلتے ! وقت گزرتے دیر نہین لگتی بی اے کرنے کے بعد اس نے ایل ایل بی کا امتحان دیا اور امتیازی نمبروں سے پاس کیا ،، لاھور ھائی کورٹ سے لائسنس ملنے کے بعد اس نے اپنی تحصیل میں پریکٹس شروع کی ! عموماً وہ سول کیس لیتا تھا اور خاص کر طلاق کے کیس تو اس کے پاس کثرت سے آتے تھے ! وہ جب عدالت میں کھ۔ڑا ھوتا تو ھر طلاق یافتہ عورت اسے اپنی ماں لگتی وہ ان عورتوں کے مستقبل کو یوں جانتا تھا جیسے اپنی ماں کے ماضی کو ،، اپنا درد جب وہ الفاظ میں سمو کر جج سے مخاطب ھوتا تو پوری عدالت کا ماحول جذباتی ھو جاتا ،، وہ سب کچھ جو وہ چھوٹا ھونے کی وجہ سے باپ سے نہ کہہ سکا تھا وہ طلاق دینے والے کے کانوں میں پگھلے ھوئے سیسے کی طرح اتار دیتا،، بہت سارے مقدموں میں صلح بھی ھو جاتی اور گھر بس جاتے ،مگر ھر کیس کا فیصلہ اس کے حق میں ھی ھوتا وقت نے اسے سول جج اور میجسٹریٹ دفعہ 30 بنا دیا ،،
ماں کے دکھ نے اسے مذھب کی طرف مائل کر دیا تھا ! دکھ ایک دھکا ھوتا ھے جو کسی کو گمراھی کے تالاب میں گرا دیتا ھے تو کسی کو اللہ کے قدموں میں لا ڈالتا ھے ! اس نے سکول کی تعلیم کے دوران ھی قرآن بھی حفظ کر لیا تھا ! جب وہ اپنی مشت بھر داڑھی کے ساتھ قراقلی پہن کر عدالت میں بیٹھا ھوتا تو لگتا کوئی خطیب ھے، وہ ظہر کی نماز کا وقفہ کر کے باقاعدہ نماز جماعت کے ساتھ کچہری کی مسجد میں ادا کرتا ! اس کی شادی اسی خالہ کی بیٹی سے کر دی گئ تھی جن کے گھر وہ رھتا تھا !
عدالت میں جب بھی کوئی طلاق کا کیس آتا تو اسے ایک لمحے کے لئے ایک جوان عورت کے ھاتھ سے کپڑا چھوٹ کر گرتا نظر آتا اور دوسرے لمحے وہ عورت اپنی کمر پہ ھاتھ رکھے زمین بوس ھوتی نظر آتی ! ساری زندگی یہ کلپ اس کا پیچھا کرتا رھا ،جس کا پرتو اس کے ھر فیصلے میں نظر آتا ! ماں کی دعاؤں کا اثر تھا یا اس کی دیانت تھی کہ وہ جھٹ پٹ سول سے سیشن جج بنا اور اس کی پوسٹنگ اسلام آباد کچہری میں ھو گئ،، جہاں اسے کئ وزراء اعظم کی ضمانت اور کئ کے وارنٹ جاری کرنے پڑے !
اس کے والد اور والدہ مقبوضہ کشمیر کے ایک ھی گاؤں سے تعلق رکھتے تھے ! 1948 کی ھجرت کے دوران اس کی والدہ کا سارا خاندان تہہ تیغ کر دیا گیا تھا ،، صرف دو بہنیں زندہ بچ گئ تھیں وہ بھی اس وجہ سے کہ وہ اس وقت کسی کے گھر گئ ھوئی تھی کھیلنے کے لئے ! اس کے نانا گاؤں کے امیر ترین آدمی تھے ! گائیں بھینسیں زمینیں اور کھیتی باڑی ،، ھندو ان کے ملازم تھے اور وھی ڈوگروں کو چڑھا کر لائے تھے ! اس کے دادا نے گاؤں سے نکلتے وقت ان دونوں بہنوں کو بھی ساتھ رکھ لیا یوں اس کے والد اور والدہ ایک ھی گھر میں اکٹھے کھیل کود کر جوان ھوئے تھے !یہ شادی بھی دونوں کی رضامندی سے ھوئی تھی ! طلاق کے باوجود والدہ نے کبھی بھی اسے والد کے خلاف نہیں بھڑکایا ،ھمیشہ اسے والد کا احترام کرنے کی نصیحت کی، والد نے دوسری شادی کر لی تھی جس سے اس کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں،، دوسری بیوی نے اس کے والد کو تگنی کا ناچ نچا کر رکھ دیا تو اولاد تو اللہ کا عذاب بن کر آئی ،، اسے اکثر اپنی والدہ کی بات یاد آتی، بیٹا وہ تیرے والد ھیں،تو ان سے تعلق رکھ اور ان کا احترام کر ،، میرا حساب اللہ دنیا میں چکا دے گا ورنہ آخرت تو پڑی ھوئی ھے وھاں دیکھ لیں گے ! مگر وہ سلام دعا کرنے کے باوجود والد کے ساتھ کوئی قلبی تعلق پیدا نہ کر سکا ! اس کا والد جب اپنے دوسرے بیٹوں کے پیچھے گلی گلی ٹوکا لیئے دوڑ رھا ھوتا تو اسے تعجب ھوتا کہ کل تک اتنا سنجیدہ انسان جو اس کا آئیڈیل تھا ، آج اولاد اسے کس مقام پر لے آئی تھی ! سرکاری نوکری سے ریٹائرڈ ھونے کے بعد اس کے والد کا رعب داب اور ٹھاٹ بھاٹ سب ختم ھو گئے تھے،، جب کبھی وہ گھر میں والد صاحب کی درگت بیان کرتا تو اسے محسوس ھوتا جیسے اس کی ماں بجائے خوش ھونے کے دکھی ھو جاتی ھے ! یہ بات اسے بعد میں اچھی طرح معلوم ھو گئ کہ اس کی ماں طلاق کے صدمے کے باوجود اس کے والد کی محبت کو دل سے نہیں نکال سکی تھی ،، اور اسی وجہ سے اس نے دوسری شادی کے لئے نہایت معقول پیش کشیں ٹھکرا دی تھیں !
جب کبھی وہ دوسرے بھائیوں کی شرارتیں اور والد کا گلی گلی ان کے پیچھے دوڑنا ماں کو بتاتا تو وہ افسردہ ھو کر کہتی " بیٹا جب انسان اللہ کی ناشکری کرتا ھے تو اس کی سزا بھی اسی صورت میں پاتا ھے،، تیرے جیسے ھونہار بیٹے کا بچپن خراب کر کے تیرے ابا نے اللہ کی ناشکری کی تھی، اللہ نے اولاد ھی کی صورت میں ان کو عذاب دے دیا اور میرے ساتھ جو کیا ،، وہ دوسری بیوی کی صورت میں پا لیا ! تو ان کے یہاں جایا کر اور جو خدمت ھو سکتی ھے وہ بھی کیا کر ،، وہ اولاد کی طرف سے دکھی ھیں،، تو کوشش کیا کر کہ تو ان کو وقت دے سکے ! ماں کے مجبور کرنے پر جب کبھی وہ مسجد سے نماز پڑھ کر والد کے ساتھ ھی ان کے گھر جاتا تو ،، اسے محسوس ھوتا جیسے والد اپنے کیئے کی کوئی وضاحت کرنا چاھتے ھیں مگر شاید ان کو الفاظ نہیں ملتے یا وہ اس کے رد عمل سے ڈرتے ھیں کہ کہیں جو تھوڑا بہت تعلق ھے وہ بھی نہ ٹوٹ جائے !
ایک دفعہ رات کو زور کی آندھی چلی ،گرمیوں کا موسم تھا سارے چھتوں پہ سوئے ھوئے تھے وہ اس وقت نویں کلاس میں پڑھتا تھا ،، والدہ نیچے صحن میں تھی اور وہ انہیں چھت پر سے چارپائی پکڑا رھا تھا جب ھوا کے تیز تھپیڑے نے اسے چھت سے نیچے دھکیل دیا ! اس کے والد جو پڑوس میں اپنی چھت پر سے یہ منظر دیکھ رھے تھے ان کی ٹانگیں کانپنے لگیں اور وہ سیڑھیاں اترنے کی بجائے چھت پر سے گلی میں چھلانگ لگا کر دوڑے ، اور سیدھے ان کے گھر میں آ گھسے ! وہ چھت سے چھاتی کے بل گرا تھا اور سینے پر براہ راست لگنے والی چوٹ نے شاید اس کا دل بند کر دیا تھا یا گرتے وقت جو چیخ اس نے ماری تھی پھر پھیپھڑوں پر لگنے والے دھچکے نے سانس کا ردھم الٹا کر رکھ دیا تھا،، وہ سانس اندر لینا چاھتا تھا جبکہ پھیپھڑوں میں ایکسٹرا بھری ھوئی " ھوا " سانس اندر آنے نہیں دے رھی تھی بلکہ باھر دھکیل رھی تھی،، جو بھی تھا اس کی آنکھیں سفید ھو چکی تھیں اور والدہ کو اس آدھی رات اپنا چاند ڈوبتا نظر آرھا تھا ! ایسے میں اس کے والد کی آمد نے ماں کو حوصلہ دیا انہوں نے آتے ھی اس کی حالت کا اندازہ لگا لیا اور اسے لیٹے لیٹے اپنے منہ سے سانس دی ،اور پھر بٹھا کر اس کی چھاتی کو ملنا شروع کیا ! اس کی حالت سنبھل گئ تو والد نے اس کی والدہ سے کہا کہ میں دودھ بھیجتا ھوں اسے گرم دودھ میں ھلدی ڈال کر دو ! یہ پہلا مکالمہ تھا جو اس نے چھ سالوں بعد اپنے والد اور والدہ کے درمیان سنا تھا ! صبح اس کی سوتیلی ماں آئی تو اس نے بتایا کہ رات کو انہوں نے سیڑھیوں سے اترنے کی بجائے باھر گلی میں چھلانگ لگا دی تھی جس کی وجہ سے ان کے اپنے پاؤں میں سخت موچ آ گئ ھے ! اس دن اسے احساس ھوا کہ اس کے والد بہرحال اس سے پیار کرتے ھیں !
آخری تدوین: