خرم
محفلین
طلباء قوم کا مستقبل
آج کافی دنوں بعد محفل پر آنا ہوا تو صفحہ اول پر ماورا بہنا کی دھمکی آمیز پوسٹ پڑھی ۔ عنوان بھی جی کو لگا تو سوچا کہ کچھ طبع آزمائی کر ہی لی جائے۔ اس مضمون پر کچھ بھی لکھنے سے پہلے یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ ہم بات کس کے متعلق کر رہے ہیں۔ طلباء کا مطلب تو معلوم ہوا کہ طالب کی جمع ہے۔ لیکن طالب کس چیز کے؟ یہ سوال اس لئے اور بھی اہم ہو جاتا ہے کہ آجکل طالب کے نام سے بہت سی چیزیں مارکیٹ کی جارہی ہیں۔ ایک شخص پیسے کا طالب ہو سکتا ہے، شہرت کا طالب ہو سکتا ہے، طاقت کا طالب ہو سکتا ہے، نوکری کا طالب ہو سکتا ہے، اقتدار کا طالب ہو سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اگر طالب کی اصل تعریف کو دیکھا جائے تو سیاستدان، منشیات فروش، جاگیردار، سرکاری افسر، مزدور، دوکاندار غرضیکہ ہر شعبہ زندگی سے وابستہ ہر شخص ایک طالب ہے اور تمام معاشرہ طلباء پر مشتمل ہے۔ روز مرہ میں البتہ طلباء کی جب بات کی جاتی ہے تو عمومی طور پر اشارہ ان افراد کی طرف ہوتا ہے جو علم کے طالب ہوں ۔
اب یہاں بات یہ آن پڑی کہ علم کیا ہے؟ علم کی تعریف تو یہ ہو گئی کہ کسی چیز کے متعلق جاننا علم کہلاتا ہے۔ اور اوپر جن چیزوں کی بابت طالب کی تعریف کے زمرے میں بات ہوئی ان سب مقاصد کے حصول کے لئے بھی علم کا حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہ علم سیاسی جوڑ توڑ کا بھی ہوسکتا ہے، رشوت کے مناسب استعمال کا بھی، دہشت گردی کی تکنیک کا بھی ، گاہک کی نفسیات کا بھی اور اپنے افسر کی پسند و ناپسند کا بھی۔ سیاسی غلبہ کے طالب کے لئے سیاسی جوڑ توڑ کا علم ضروری ہے، قانون شکنی کے طالب کے لئے رشوت کے مناسب استعمال کا علم، طاقت کے طالب کے لئے اوروں پر دہشت طاری کرنے کا علم اور بکری میں اضافہ کے لئے گاہک کی نفسیات جاننے کا علم ضروری ہے۔ سو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ طلب اس وقت تک تشنہ رہتی ہے جب تک آپ کو اس کے حصول کا علم نہ ہو۔ اس لئے علم کی اتنی وسیع جہتوں کی موجودی میں صرف طالب علم کہہ دینا کافی نہیں ہوگا بلکہ اس علم کی نوعیت مقرر کرنا بہت ضروری ہے جس کے طلباء کو مستقبل کا امین بنانا مقصود ہے۔
ہمارے معاشرہ میں عمومی طور پر جب طالب علم کی بات کی جاتی ہے تو نظروں میں کوئی آٹھ دس کلو وزنی بستے اور ان کے بوجھ تلے دبے بچے کود آتے ہیں جو یا تو مکتب کی طرف جا رہے ہوتے ہیں یا مکتب سے واپس آرہے ہوتے ہیں۔ علم کی بات کی جاتی ہے تو وہ تمام کتابیں جو بوجھ بن کر ان بچوں کے اوپر لادی گئی ہوتی ہیں ان کے عنوان نظروں میں گھوم جاتے ہیں۔ قوم اور والدین یہ سمجھتے ہیں کہ ان بچوں پر کتابیں لاد کر، انہیں ان کتابوں میں لکھے سیاہ حروف رٹا کر ہم نے ان میں علم کی طلب پیدا کر بھی دی اور اس پیاس کو کما حقہ بجھا بھی دیا۔ ثبوت کے طور پر سکور کارڈ اور ڈگریاں دکھائی جاتی ہیں کہ "وصول شد"۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کونسا مستقبل ہے جس کے لئے یہ نونہال تیار کئے جا رہے ہیں؟ وہ علم جس سے قوموں کی ترقی منسلک ہے، جس سے معاشرہ میں خوشحالی و آسودگی وابستہ ہے کیا ہم ان نونہالوں میں اس علم کی تڑپ اور لگن پیدا کررہے ہیں اور کیا انہیں اس علم کے حصول کے مواقع فراہم کر رہے ہیں؟
آپ کسی بھی سکول جاتے بچے کے والدین سے پوچھئے کہ وہ اپنے بچوں کو مکتب کیوں بھیجتے ہیں؟ جواب فوراَ آئے گا "پڑھنے کے لئے" پوچھئے کہ "پڑھائی کا فائدہ"؟ اور اکثریت کا جواب ہوگا "پڑھ لکھ کر کچھ بن جائیں گے" اب پوچھئے کہ کیا بن جائیں گے تو جواب ہوگا "ڈاکٹر، انجنیئر، فوجی افسر، سرکاری افسر وغیرہ وغیرہ"۔ ایک دوسری انتہا ہے جہاں بچہ روایتی سکول نہیں مدرسہ جاتا ہے۔ وجہ اکثر یہ ہوتی ہے کہ جدید تعلیم کا حصول یا تو حرام ہے یا پھر ممکن نہیں۔ یہاں بچے کو مدرسہ بھیجنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یا تو وہ بڑا ہو کر کہیں مسجد میں امام یا خطیب یا مفتی لگ جائے اور نان نفقہ چلتا رہے یا پھر اس لئےکہ روایتی مناظرہ بازی کی تکنیک سے آراستہ ہو کر اپنے اجداد کی گدی سنبھال سکے اور دین کے نام پر اقتدار و سیاست میں اپنا حصہ مانگ سکے۔ گویا مکتبہ فکر کوئی بھی ہو اگر بات کی تہہ میں جائیں تو مکتب یا مدرسہ جانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ بچہ کچھ کمانے کے قابل ہو جائے۔ اس میں عمومَاَ کہیں قوم کا مستقبل یا اعلٰی انسانی اقدار کی پیروی یا ان جیسے کسی آدرش کا گزر نہیں۔ اگر ذیلی فائدے کے تحت ان میں سے کوئی خصوصیت کسی بچے میں پیدا ہو جائے تو گوارا ہے لیکن بنیادی مقصد یقیناَ ان اقدار کی افزائش و ترویج نہیں اور نہ علم کی عمومی تعریف میں ان سب کا کہیں گزر ہے۔ نتیجتاَ جس علم کے طالبوں کی کھیپ تیار کی جاتی ہے،وہ صرف وہ علم ہوتا ہے جس کا بیان اس مضمون کے ابتدائی پیروں میں کیا گیا جس کا مطمع نظر صرف اپنی ذات اور اپنی آسائش ہوتا ہے۔ کیا ایسے علم کے پروردہ ذہنوں کے ساتھ ایک خوشحال مستقبل وابستہ کیا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب آپکو لہولہان قبائلی علاقوں سے بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں اور عروس البلاد کراچی کی خونچکاں شاموں سے لاہور کے گھروں میں پھندوں سے لٹکتی لاشوں میں مل سکتا ہے۔ گزشتہ ایک صدی میں طلباء کی جو کھیپ تیار کی جاتی رہی ہے، اس کا پھل ہم سب کے سامنے ہے۔ ایک طرف وہ طبقہ ہے جو مغرب کی مرعوبیت میں اس حد تک چلا گیا کہ اپنی اقدار، اپنی قوم اور اپنے مذہب سے باغی ہو گیا اور صرف زیادہ سے زیادہ اختیار و قوت و مال و زر جمع کرنے کے طریقے ڈھونڈتا رہا۔ دوسری جانب وہ طبقہ جس نے انہی مقاصد کے حصول کے لئے مذہب کو اپناہتھیار بنایا اور مذہب اور اپنی اقدار کاحلیہ بگاڑ کر ہاتھوں میں کوڑے، اسلحہ پکڑ کر بزور شمشیر قوم کی رہنمائی کرنے چل پڑا۔ نتیجہ یہ کہ آج قوم ان خارزار راستوں پر آبلہ پا چل رہی ہے جن کی اس نے خون جگر سے آبیاری کی تھی۔ انسانیت کے اعلٰی اصولوں کے علم اور اس پر عمل سے دونوںگروہ ہی عاری رہے اور ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ لاکھوں ڈگری یافتگان موجود ہیں، ڈاکٹر، عالم، مفتی، انجنیئر، جرنیل، سی ایس پی لیکن معاشرہ لہولہان ہے؟ کیا یہی مستقبل ہے جو علم کے حصول سے وابستہ ہے؟ اگر یہی حقیقت ہے تو پھر دُنیا کے دوسرے ممالک میں ایسا کیوں نہیں؟ اگر مذہب سے دوری دوسرے معاشروں میں امن و سکون کا منبع ہے تو پھر ہمارا مذہب سے دور "جدید تعلیم سے بہرہ ور" حکمران طبقہ گزشتہ آدھ صدی میں ایک خوشحال مستقبل کیوں نہ لا سکا اور اگر مذہب کا نام جپنا ایک فلاحی معاشرہ کا ضامن ہے تو پھر ایسا کیوں کہ تمام "مذہبی" صاحبان علم اپنے زیر اثر عوام کو انسان ہونے کا وہ بنیادی حق بھی نہ دے سکے جو مذہب کی رو سے انہیں حاصل ہے اور ان کی مذہب فہمی کی انتہا ہمیں سوات کے ان چوراہوں پر دکھائی دیتی رہی جہاں اعلان کرکے انسانوں کو بکروں کی طرح ذبح کیا جاتا رہا اور معاشرہ حقیقتاَ تماشائی بنا دیکھتا رہا؟ آخر کیا وجہ ہوئی کہ ڈگریاں بھی ہیں، سندیں بھی ہیں ، عالم بھی ہیں، فاضل بھی ہیں لیکن سب کے سب بگاڑ میں اضافہ کا سبب؟ کیا یہ ممکن ہے کہ اگر ہم میں سے کوئی بھی عالم نہ ہوتا، ڈاکٹر نہ ہوتا، انجنیئر نہ ہوتا، جرنیل نہ ہوتا ، مفتی نہ ہوتا تو ہم نسبتاَ سکون سے زندگی گزار رہے ہوتے؟ مجھ سمیت کچھ کا جواب ہوگا "شائد"۔ تو کیا پھر علم کا حصول بے فائدہ ہے؟ اگر ایسا تو پھر اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حصول علم کو کیوں فرض قرار دیا؟ اور دُنیا کی ترقی یافتہ اقوام علم کے حصول کی بنا پر آج اتنی آگے کیوں چلی گئیں؟ اور یاد رہے کہ ان کی ترقی صرف صنعتی نہیں بلکہ ان کے معاشرے بھی تمام مسلم معاشروں سے زیادہ پر سکون، منصف مزاج اور متحرک ہیں۔ ہم بھی ان کی نقالی کی کوشش تو بھرپور کرتے ہیں پھر بھی کیوں ناکام ہیں؟
یہاں پر بات آپڑتی ہے معاشرہ کی۔ کسی بھی فرد یا گروہ سے قوم کے مستقبل کی بات کرنے سے پہلے ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ وہ مستقبل کیا ہے جس کے حصول کا ہم خواب دیکھتے ہیں۔انما الاعمال بالنیات کے آفاقی اور سچے اصول کی بنیا د پر ہمیں پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم کیسا مستقبل چاہتے ہیں؟ کیا ہم ایک ایسا مستقبل چاہتے ہیں جس میں معاشرہ کے ہر فرد کو حصول روزگار کے یکساں مواقع حاصل ہوں؟ جہاں ہر شخص کی جان و مال کی ریاست پر نا صرف ذمہ داری ہو بلکہ وہ حقیقتاَ محفوظ بھی ہو؟ جہاں ریاست اس بات کی ذمہ دار ہو کہ اس کے افراد کو وہ تمام تر انسانی حقوق حاصل ہوں جو بحیثیت انسان انہیں ان کے خالق نے ودیعت کئے ہیں؟ جہاں اگر کُتا بھی پیاسا مر جائے تو ریاست جوابدہ ہو؟ جہاں ریاست کا ہر فرد باعث عزت و احترام ہو اور انصاف کی نظر میں کوئی چھوٹا کوئی بڑا، کوئی امیر کوئی غریب نہ ہو؟ یا پھر ایک ایسا مستقبل جس میں میرے بیٹے کے پاس سب سے زیادہ دولت ہو تاکہ میں سب سے دولت مند شخص کا باپ کہلواؤں؟ جہاں میرے پاس سب سے اچھی گاڑی ہو، جہاں میری کوٹھی کا فرنیچر سب سے اچھا ہو، جہاں ہر کوئی مجھے اور صرف مجھے جھُک کر سلام کرے، میری بات کے آگے کسی کی بات کی اہمیت نہ ہو، جس بات کی جو تشریح میں کردوں، جو تاویل میں پیش کردوں سب وہی مانیں وغیرہا؟ یہ بنیادی سوال ہے اور جب ہم اسکے جواب کا تعین کر لیتے ہیں تو پھر ہم ان علوم پر توجہ دیتے ہیں جو ہمیں اس مستقبل تک پہنچاسکتے ہیں۔ اگر بہ نظر غور دیکھا جائے تو مستقبل کی جو دو ممکنہ تصاویر کھینچی گئی ہیں ان میں ایک بنیادی فرق ہے۔ اول الذکرکا محور فرد نہیں معاشرہ ہے جبکہ ثانی الذکر فرد کے گرد گھومتی ہے۔ آپ کا یہ چناؤ ہی وہ بنیاد بنتی ہے جس پرفرد اور معاشرہ کے مستقبل کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔
اگر اپنے مستقبل کے حوالے سے ہمارا چناؤ ثانی الذکر منظر نامہ سے مطابقت رکھتا ہے تو پھرآپ کو اپنے نونہالوں کو وہ تمام سہولیات و علوم مہیا کرناہیں جو اس مقصد کے حصول کے لئے درکار ہیں۔ انہیں ڈاکٹر، انجنیئر، جرنل، وکیل وغیرہ بنانا ہے لیکن اخوت، رواداری، سچائی، انصاف، احسان اور ان جیسے تمام آدرش کو کتابوں کے سیاہ حروف سے باہر ہی نہیں نکلنے دینا کہ آپ کا مطمع نظر تو سب کو پچھاڑ دینا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے سب کچھ جائز ہے۔ تعلیم کا مقصد صرف ڈگریاں حاصل کرنا ہے، مناظرہ بازی کے ہتھیار حاصل کرنا ہیں تاکہ اوروں کے مقابلہ میںاپنی درجہ بندی بہتر کی جاسکے۔ رشوت، جھوٹ، اقربا پروری، تکبر، نخوت، ریاکاری جیسے ہُنر آپکو اپنے نونہالوں کو ان کی زندگی کے ہر موڑ پر عملی تجربہ کرکے تعلیم کرنا ہوں گے تاکہ وہ "مقابلہ" کے لئے تیار ہوں۔ نتیجتاَ جب وہ جوان ہوکر زندگی کی باگ دوڑ سنبھالیں گے تو ان کا مطمع نظر صرف اپنی ذات اور اپنی آسائش ہوگا اور اس کے حصول کے لئے کسی بھی قسم کے حربہ کے استعمال سے وہ بالکل نہیں ہچکچائیں گے اور معاشرہ میں مِس فِٹ نہیںہوں گے۔ بالکل ہماری طمع کے مطابق بلکہ شائد اس سے کچھ بڑھ کر۔ لیکن علم کی یہ تعریف جو مستقبل ہمیں دیتی ہے اس میں سکون سے بیٹھنے کا امکان کچھ کم ہے۔ ہر وقت یہ ڈر رہتا ہے کہ آپ سے طاقتور کہیں آپ کا ٹینٹوا ہی نہ دبا دے۔ جس لاقانونیت کی آپ نے برسوں آبیاری کی ہوتی ہے، اس کا خوف ایک آسیب کی طرح آپ کے سر پر سوار رہتا ہے۔ انصاف کے جس پودے کی آپ نے جڑ کاٹی ہوتی ہے، اس کے پھل کی توقع بھی آپ نہیں کرتے سو ہر اس در پر جھُکتے ہیں جہاں سے ذرا سے بھی نقصان کا ڈر ہوتا ہے اور بدقسمتی یہ کہ اس سب کچھ کے باوجود آپ اپنے آپ کو اور اپنے معاشرہ کو نہیں بچا سکتے۔ معاشرہ کا ہر فرد ایکدوسرے کا دشمن بن جاتا ہے۔ ہر فرد اپنے اپنے دائرہ میں میر جعفر و صادق کی مثال بنتا ہے۔ اس طرح فرد فرد ہو کر تمام معاشرہ بربادی کی انتہاؤں میں اُترتا جاتا ہے اور بالآخر کوئی سات سمندر پار سے یا صرف سرحد کے اس پار سے آکر آپ کو آپ کی ذمہ داریوں سے نجات دلا دیتا ہے۔ انسانی تاریخ اس تمام عمل پر کئی بار کی شاہد ہے۔ تو کیا اس انجام کے لئے کسی بھی قسم کے کسی بھی علم کی یا طالب علم کی ضرورت ہے؟ یقیناَ نہیں کہ اوپر جس علم کی تعریف بیان کی وہ آپ کے معاشرہ کی تنزلی کے عمل کو صرف تیز ہی کرے گا۔ سو اگر آپ کی خواہشات آپ کی اپنی ذات کے گرد گھومتی ہیں تو آپکا مستقبل کسی علم اور کسی طالب علم کا محتاج نہیں کہ ان کا ہونا اور نہ ہونا ایک برابر ہیں۔ نتیجہ دونوں صورتوں میں تباہی ہے۔
اب آتے ہیں پہلے منظر نامہ کی طرف جس میں ایک منصف مزاج، پرامن، امن و آشتی اور باہمی اخوت کی بنیادوں پر استوار معاشرہ کا خواب سجا ہے۔ کسی بھی معاشرہ کو اپنا مستقبل اس خواب سے وابستہ کرنے کے لئے اعلٰی اخلاقی اقدار کا علم اور اس پر عمل ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی مروجہ جدید علوم از قسم طب، حرفت، صنعت ، معاشیات وغیرہا کا علم بھی درکار ہے تاکہ معاشرہ اور اس کے افراد متحرک رہیں اور معاشرہ کا صعودی سفر جاری رہے۔ یہاں پر بات جس علم کی ہو رہی ہے وہ صرف رٹایا جانے والا علم نہیں ہے بلکہ وہ علم ہے جو افراد کے کردار کی تعمیر و تشکیل کرے۔ جہاں "جھوٹ بولنا بُری بات ہے" صرف کہا نہ جائے بلکہ سمجھا جائے۔ جہاں اعلٰی مذہبی و اخلاقی آدرش کتابوں کے سیاہ حروف میں مقید نہ ہوں بلکہ افراد میں سانس لیتے ہوں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں اپنے نونہالوں کو ان تمام اعلٰی اقدار کا عملی نمونہ بن کر دکھانا ہوگا۔ ہمیں یہ نیت کرنا ہوگی کہ ہم اپنے بچوں کو اس لئے مکتب یا مدرسہ میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ ایک اچھا انسان بنیں، ان اعلٰی اقدار سے شناسائی حاصل کریں جو انسان کو اشرف المخلوقات کے درجہ پر فائز کرتی ہیں اور ان پر عمل کرکے اس درجہ پر فائز ہوں۔ اس حقیقت کا ادراک کرلیں کہ ڈاکٹر ، انجنیئر، جج، قاضی، جرنیل بننے سے زیادہ اہم انسان بننا ہے اور شرف آدمیت حاصل کرنا ہے۔ اس بات کو مطمع نظر رکھیں کہ زندگی اپنے لئے نہیں بلکہ سب کے لئے جینے کا نام ہے۔ انسان سے نفرت کی بجائے اس سے بلا تخصیص رنگ و نسل و مذہب محبت کریں۔ ایسے مستقبل کا خواب یقیناَ محتاج ہے علم کا ۔ اس علم کا جسے معلم اعظم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سکھایا، جس کی تعلیم قرآن دیتا ہے جس کی انتہا "انک لعلٰی خلق عظیم" ہے۔ ایسا علم جس کی حقانیت کی گواہی کوڑے اور سزائیں نہیں انسان کا صدیوں پر پھیلا ہوا مشاہدہ دیتا ہے۔ اور پھر ضرورت ہے ان طالبان علم کی جو اس پر عمل کریں۔ جو ایک اچھے پیشہ ور ہی نہ ہوں بلکہ ڈاکٹر، انجنیئر، عالم، سوداگر سب کچھ بننے سے بہت پہلے اچھے انسان ہوں۔ قوموں کا مستقبل ایک اضطراری کیفیت کا آئینہ دار نہیں ہوتا بلکہ پھل ہوتا ہے ایک سعئ مسلسل کا۔ "ان لیس للانسان الا ما سعٰی" کے آفاقی اور سچے اصول کے مطابق جو آپ کاٹتے ہیں وہ وہی ہوتا ہے جو آپ نے بویا ہوتا ہے۔ سو اگر آپ کی تمنا ایک ایسا معاشرہ تخلیق کرنے کی ہے تو یقیناَ قوم کا مستقبل سچے علم اور ان طالبان علم کے ساتھ وابستہ ہے جو ان آدرشوں کو سیکھیں ان پر عمل کریں اور اپنے معاشرہ کو نئی بلندیوں پر لے جائیں۔
آج کافی دنوں بعد محفل پر آنا ہوا تو صفحہ اول پر ماورا بہنا کی دھمکی آمیز پوسٹ پڑھی ۔ عنوان بھی جی کو لگا تو سوچا کہ کچھ طبع آزمائی کر ہی لی جائے۔ اس مضمون پر کچھ بھی لکھنے سے پہلے یہ بات جاننا بہت ضروری ہے کہ ہم بات کس کے متعلق کر رہے ہیں۔ طلباء کا مطلب تو معلوم ہوا کہ طالب کی جمع ہے۔ لیکن طالب کس چیز کے؟ یہ سوال اس لئے اور بھی اہم ہو جاتا ہے کہ آجکل طالب کے نام سے بہت سی چیزیں مارکیٹ کی جارہی ہیں۔ ایک شخص پیسے کا طالب ہو سکتا ہے، شہرت کا طالب ہو سکتا ہے، طاقت کا طالب ہو سکتا ہے، نوکری کا طالب ہو سکتا ہے، اقتدار کا طالب ہو سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اگر طالب کی اصل تعریف کو دیکھا جائے تو سیاستدان، منشیات فروش، جاگیردار، سرکاری افسر، مزدور، دوکاندار غرضیکہ ہر شعبہ زندگی سے وابستہ ہر شخص ایک طالب ہے اور تمام معاشرہ طلباء پر مشتمل ہے۔ روز مرہ میں البتہ طلباء کی جب بات کی جاتی ہے تو عمومی طور پر اشارہ ان افراد کی طرف ہوتا ہے جو علم کے طالب ہوں ۔
اب یہاں بات یہ آن پڑی کہ علم کیا ہے؟ علم کی تعریف تو یہ ہو گئی کہ کسی چیز کے متعلق جاننا علم کہلاتا ہے۔ اور اوپر جن چیزوں کی بابت طالب کی تعریف کے زمرے میں بات ہوئی ان سب مقاصد کے حصول کے لئے بھی علم کا حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہ علم سیاسی جوڑ توڑ کا بھی ہوسکتا ہے، رشوت کے مناسب استعمال کا بھی، دہشت گردی کی تکنیک کا بھی ، گاہک کی نفسیات کا بھی اور اپنے افسر کی پسند و ناپسند کا بھی۔ سیاسی غلبہ کے طالب کے لئے سیاسی جوڑ توڑ کا علم ضروری ہے، قانون شکنی کے طالب کے لئے رشوت کے مناسب استعمال کا علم، طاقت کے طالب کے لئے اوروں پر دہشت طاری کرنے کا علم اور بکری میں اضافہ کے لئے گاہک کی نفسیات جاننے کا علم ضروری ہے۔ سو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ طلب اس وقت تک تشنہ رہتی ہے جب تک آپ کو اس کے حصول کا علم نہ ہو۔ اس لئے علم کی اتنی وسیع جہتوں کی موجودی میں صرف طالب علم کہہ دینا کافی نہیں ہوگا بلکہ اس علم کی نوعیت مقرر کرنا بہت ضروری ہے جس کے طلباء کو مستقبل کا امین بنانا مقصود ہے۔
ہمارے معاشرہ میں عمومی طور پر جب طالب علم کی بات کی جاتی ہے تو نظروں میں کوئی آٹھ دس کلو وزنی بستے اور ان کے بوجھ تلے دبے بچے کود آتے ہیں جو یا تو مکتب کی طرف جا رہے ہوتے ہیں یا مکتب سے واپس آرہے ہوتے ہیں۔ علم کی بات کی جاتی ہے تو وہ تمام کتابیں جو بوجھ بن کر ان بچوں کے اوپر لادی گئی ہوتی ہیں ان کے عنوان نظروں میں گھوم جاتے ہیں۔ قوم اور والدین یہ سمجھتے ہیں کہ ان بچوں پر کتابیں لاد کر، انہیں ان کتابوں میں لکھے سیاہ حروف رٹا کر ہم نے ان میں علم کی طلب پیدا کر بھی دی اور اس پیاس کو کما حقہ بجھا بھی دیا۔ ثبوت کے طور پر سکور کارڈ اور ڈگریاں دکھائی جاتی ہیں کہ "وصول شد"۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ کونسا مستقبل ہے جس کے لئے یہ نونہال تیار کئے جا رہے ہیں؟ وہ علم جس سے قوموں کی ترقی منسلک ہے، جس سے معاشرہ میں خوشحالی و آسودگی وابستہ ہے کیا ہم ان نونہالوں میں اس علم کی تڑپ اور لگن پیدا کررہے ہیں اور کیا انہیں اس علم کے حصول کے مواقع فراہم کر رہے ہیں؟
آپ کسی بھی سکول جاتے بچے کے والدین سے پوچھئے کہ وہ اپنے بچوں کو مکتب کیوں بھیجتے ہیں؟ جواب فوراَ آئے گا "پڑھنے کے لئے" پوچھئے کہ "پڑھائی کا فائدہ"؟ اور اکثریت کا جواب ہوگا "پڑھ لکھ کر کچھ بن جائیں گے" اب پوچھئے کہ کیا بن جائیں گے تو جواب ہوگا "ڈاکٹر، انجنیئر، فوجی افسر، سرکاری افسر وغیرہ وغیرہ"۔ ایک دوسری انتہا ہے جہاں بچہ روایتی سکول نہیں مدرسہ جاتا ہے۔ وجہ اکثر یہ ہوتی ہے کہ جدید تعلیم کا حصول یا تو حرام ہے یا پھر ممکن نہیں۔ یہاں بچے کو مدرسہ بھیجنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یا تو وہ بڑا ہو کر کہیں مسجد میں امام یا خطیب یا مفتی لگ جائے اور نان نفقہ چلتا رہے یا پھر اس لئےکہ روایتی مناظرہ بازی کی تکنیک سے آراستہ ہو کر اپنے اجداد کی گدی سنبھال سکے اور دین کے نام پر اقتدار و سیاست میں اپنا حصہ مانگ سکے۔ گویا مکتبہ فکر کوئی بھی ہو اگر بات کی تہہ میں جائیں تو مکتب یا مدرسہ جانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ بچہ کچھ کمانے کے قابل ہو جائے۔ اس میں عمومَاَ کہیں قوم کا مستقبل یا اعلٰی انسانی اقدار کی پیروی یا ان جیسے کسی آدرش کا گزر نہیں۔ اگر ذیلی فائدے کے تحت ان میں سے کوئی خصوصیت کسی بچے میں پیدا ہو جائے تو گوارا ہے لیکن بنیادی مقصد یقیناَ ان اقدار کی افزائش و ترویج نہیں اور نہ علم کی عمومی تعریف میں ان سب کا کہیں گزر ہے۔ نتیجتاَ جس علم کے طالبوں کی کھیپ تیار کی جاتی ہے،وہ صرف وہ علم ہوتا ہے جس کا بیان اس مضمون کے ابتدائی پیروں میں کیا گیا جس کا مطمع نظر صرف اپنی ذات اور اپنی آسائش ہوتا ہے۔ کیا ایسے علم کے پروردہ ذہنوں کے ساتھ ایک خوشحال مستقبل وابستہ کیا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب آپکو لہولہان قبائلی علاقوں سے بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں اور عروس البلاد کراچی کی خونچکاں شاموں سے لاہور کے گھروں میں پھندوں سے لٹکتی لاشوں میں مل سکتا ہے۔ گزشتہ ایک صدی میں طلباء کی جو کھیپ تیار کی جاتی رہی ہے، اس کا پھل ہم سب کے سامنے ہے۔ ایک طرف وہ طبقہ ہے جو مغرب کی مرعوبیت میں اس حد تک چلا گیا کہ اپنی اقدار، اپنی قوم اور اپنے مذہب سے باغی ہو گیا اور صرف زیادہ سے زیادہ اختیار و قوت و مال و زر جمع کرنے کے طریقے ڈھونڈتا رہا۔ دوسری جانب وہ طبقہ جس نے انہی مقاصد کے حصول کے لئے مذہب کو اپناہتھیار بنایا اور مذہب اور اپنی اقدار کاحلیہ بگاڑ کر ہاتھوں میں کوڑے، اسلحہ پکڑ کر بزور شمشیر قوم کی رہنمائی کرنے چل پڑا۔ نتیجہ یہ کہ آج قوم ان خارزار راستوں پر آبلہ پا چل رہی ہے جن کی اس نے خون جگر سے آبیاری کی تھی۔ انسانیت کے اعلٰی اصولوں کے علم اور اس پر عمل سے دونوںگروہ ہی عاری رہے اور ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ لاکھوں ڈگری یافتگان موجود ہیں، ڈاکٹر، عالم، مفتی، انجنیئر، جرنیل، سی ایس پی لیکن معاشرہ لہولہان ہے؟ کیا یہی مستقبل ہے جو علم کے حصول سے وابستہ ہے؟ اگر یہی حقیقت ہے تو پھر دُنیا کے دوسرے ممالک میں ایسا کیوں نہیں؟ اگر مذہب سے دوری دوسرے معاشروں میں امن و سکون کا منبع ہے تو پھر ہمارا مذہب سے دور "جدید تعلیم سے بہرہ ور" حکمران طبقہ گزشتہ آدھ صدی میں ایک خوشحال مستقبل کیوں نہ لا سکا اور اگر مذہب کا نام جپنا ایک فلاحی معاشرہ کا ضامن ہے تو پھر ایسا کیوں کہ تمام "مذہبی" صاحبان علم اپنے زیر اثر عوام کو انسان ہونے کا وہ بنیادی حق بھی نہ دے سکے جو مذہب کی رو سے انہیں حاصل ہے اور ان کی مذہب فہمی کی انتہا ہمیں سوات کے ان چوراہوں پر دکھائی دیتی رہی جہاں اعلان کرکے انسانوں کو بکروں کی طرح ذبح کیا جاتا رہا اور معاشرہ حقیقتاَ تماشائی بنا دیکھتا رہا؟ آخر کیا وجہ ہوئی کہ ڈگریاں بھی ہیں، سندیں بھی ہیں ، عالم بھی ہیں، فاضل بھی ہیں لیکن سب کے سب بگاڑ میں اضافہ کا سبب؟ کیا یہ ممکن ہے کہ اگر ہم میں سے کوئی بھی عالم نہ ہوتا، ڈاکٹر نہ ہوتا، انجنیئر نہ ہوتا، جرنیل نہ ہوتا ، مفتی نہ ہوتا تو ہم نسبتاَ سکون سے زندگی گزار رہے ہوتے؟ مجھ سمیت کچھ کا جواب ہوگا "شائد"۔ تو کیا پھر علم کا حصول بے فائدہ ہے؟ اگر ایسا تو پھر اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حصول علم کو کیوں فرض قرار دیا؟ اور دُنیا کی ترقی یافتہ اقوام علم کے حصول کی بنا پر آج اتنی آگے کیوں چلی گئیں؟ اور یاد رہے کہ ان کی ترقی صرف صنعتی نہیں بلکہ ان کے معاشرے بھی تمام مسلم معاشروں سے زیادہ پر سکون، منصف مزاج اور متحرک ہیں۔ ہم بھی ان کی نقالی کی کوشش تو بھرپور کرتے ہیں پھر بھی کیوں ناکام ہیں؟
یہاں پر بات آپڑتی ہے معاشرہ کی۔ کسی بھی فرد یا گروہ سے قوم کے مستقبل کی بات کرنے سے پہلے ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ وہ مستقبل کیا ہے جس کے حصول کا ہم خواب دیکھتے ہیں۔انما الاعمال بالنیات کے آفاقی اور سچے اصول کی بنیا د پر ہمیں پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم کیسا مستقبل چاہتے ہیں؟ کیا ہم ایک ایسا مستقبل چاہتے ہیں جس میں معاشرہ کے ہر فرد کو حصول روزگار کے یکساں مواقع حاصل ہوں؟ جہاں ہر شخص کی جان و مال کی ریاست پر نا صرف ذمہ داری ہو بلکہ وہ حقیقتاَ محفوظ بھی ہو؟ جہاں ریاست اس بات کی ذمہ دار ہو کہ اس کے افراد کو وہ تمام تر انسانی حقوق حاصل ہوں جو بحیثیت انسان انہیں ان کے خالق نے ودیعت کئے ہیں؟ جہاں اگر کُتا بھی پیاسا مر جائے تو ریاست جوابدہ ہو؟ جہاں ریاست کا ہر فرد باعث عزت و احترام ہو اور انصاف کی نظر میں کوئی چھوٹا کوئی بڑا، کوئی امیر کوئی غریب نہ ہو؟ یا پھر ایک ایسا مستقبل جس میں میرے بیٹے کے پاس سب سے زیادہ دولت ہو تاکہ میں سب سے دولت مند شخص کا باپ کہلواؤں؟ جہاں میرے پاس سب سے اچھی گاڑی ہو، جہاں میری کوٹھی کا فرنیچر سب سے اچھا ہو، جہاں ہر کوئی مجھے اور صرف مجھے جھُک کر سلام کرے، میری بات کے آگے کسی کی بات کی اہمیت نہ ہو، جس بات کی جو تشریح میں کردوں، جو تاویل میں پیش کردوں سب وہی مانیں وغیرہا؟ یہ بنیادی سوال ہے اور جب ہم اسکے جواب کا تعین کر لیتے ہیں تو پھر ہم ان علوم پر توجہ دیتے ہیں جو ہمیں اس مستقبل تک پہنچاسکتے ہیں۔ اگر بہ نظر غور دیکھا جائے تو مستقبل کی جو دو ممکنہ تصاویر کھینچی گئی ہیں ان میں ایک بنیادی فرق ہے۔ اول الذکرکا محور فرد نہیں معاشرہ ہے جبکہ ثانی الذکر فرد کے گرد گھومتی ہے۔ آپ کا یہ چناؤ ہی وہ بنیاد بنتی ہے جس پرفرد اور معاشرہ کے مستقبل کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔
اگر اپنے مستقبل کے حوالے سے ہمارا چناؤ ثانی الذکر منظر نامہ سے مطابقت رکھتا ہے تو پھرآپ کو اپنے نونہالوں کو وہ تمام سہولیات و علوم مہیا کرناہیں جو اس مقصد کے حصول کے لئے درکار ہیں۔ انہیں ڈاکٹر، انجنیئر، جرنل، وکیل وغیرہ بنانا ہے لیکن اخوت، رواداری، سچائی، انصاف، احسان اور ان جیسے تمام آدرش کو کتابوں کے سیاہ حروف سے باہر ہی نہیں نکلنے دینا کہ آپ کا مطمع نظر تو سب کو پچھاڑ دینا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے سب کچھ جائز ہے۔ تعلیم کا مقصد صرف ڈگریاں حاصل کرنا ہے، مناظرہ بازی کے ہتھیار حاصل کرنا ہیں تاکہ اوروں کے مقابلہ میںاپنی درجہ بندی بہتر کی جاسکے۔ رشوت، جھوٹ، اقربا پروری، تکبر، نخوت، ریاکاری جیسے ہُنر آپکو اپنے نونہالوں کو ان کی زندگی کے ہر موڑ پر عملی تجربہ کرکے تعلیم کرنا ہوں گے تاکہ وہ "مقابلہ" کے لئے تیار ہوں۔ نتیجتاَ جب وہ جوان ہوکر زندگی کی باگ دوڑ سنبھالیں گے تو ان کا مطمع نظر صرف اپنی ذات اور اپنی آسائش ہوگا اور اس کے حصول کے لئے کسی بھی قسم کے حربہ کے استعمال سے وہ بالکل نہیں ہچکچائیں گے اور معاشرہ میں مِس فِٹ نہیںہوں گے۔ بالکل ہماری طمع کے مطابق بلکہ شائد اس سے کچھ بڑھ کر۔ لیکن علم کی یہ تعریف جو مستقبل ہمیں دیتی ہے اس میں سکون سے بیٹھنے کا امکان کچھ کم ہے۔ ہر وقت یہ ڈر رہتا ہے کہ آپ سے طاقتور کہیں آپ کا ٹینٹوا ہی نہ دبا دے۔ جس لاقانونیت کی آپ نے برسوں آبیاری کی ہوتی ہے، اس کا خوف ایک آسیب کی طرح آپ کے سر پر سوار رہتا ہے۔ انصاف کے جس پودے کی آپ نے جڑ کاٹی ہوتی ہے، اس کے پھل کی توقع بھی آپ نہیں کرتے سو ہر اس در پر جھُکتے ہیں جہاں سے ذرا سے بھی نقصان کا ڈر ہوتا ہے اور بدقسمتی یہ کہ اس سب کچھ کے باوجود آپ اپنے آپ کو اور اپنے معاشرہ کو نہیں بچا سکتے۔ معاشرہ کا ہر فرد ایکدوسرے کا دشمن بن جاتا ہے۔ ہر فرد اپنے اپنے دائرہ میں میر جعفر و صادق کی مثال بنتا ہے۔ اس طرح فرد فرد ہو کر تمام معاشرہ بربادی کی انتہاؤں میں اُترتا جاتا ہے اور بالآخر کوئی سات سمندر پار سے یا صرف سرحد کے اس پار سے آکر آپ کو آپ کی ذمہ داریوں سے نجات دلا دیتا ہے۔ انسانی تاریخ اس تمام عمل پر کئی بار کی شاہد ہے۔ تو کیا اس انجام کے لئے کسی بھی قسم کے کسی بھی علم کی یا طالب علم کی ضرورت ہے؟ یقیناَ نہیں کہ اوپر جس علم کی تعریف بیان کی وہ آپ کے معاشرہ کی تنزلی کے عمل کو صرف تیز ہی کرے گا۔ سو اگر آپ کی خواہشات آپ کی اپنی ذات کے گرد گھومتی ہیں تو آپکا مستقبل کسی علم اور کسی طالب علم کا محتاج نہیں کہ ان کا ہونا اور نہ ہونا ایک برابر ہیں۔ نتیجہ دونوں صورتوں میں تباہی ہے۔
اب آتے ہیں پہلے منظر نامہ کی طرف جس میں ایک منصف مزاج، پرامن، امن و آشتی اور باہمی اخوت کی بنیادوں پر استوار معاشرہ کا خواب سجا ہے۔ کسی بھی معاشرہ کو اپنا مستقبل اس خواب سے وابستہ کرنے کے لئے اعلٰی اخلاقی اقدار کا علم اور اس پر عمل ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی مروجہ جدید علوم از قسم طب، حرفت، صنعت ، معاشیات وغیرہا کا علم بھی درکار ہے تاکہ معاشرہ اور اس کے افراد متحرک رہیں اور معاشرہ کا صعودی سفر جاری رہے۔ یہاں پر بات جس علم کی ہو رہی ہے وہ صرف رٹایا جانے والا علم نہیں ہے بلکہ وہ علم ہے جو افراد کے کردار کی تعمیر و تشکیل کرے۔ جہاں "جھوٹ بولنا بُری بات ہے" صرف کہا نہ جائے بلکہ سمجھا جائے۔ جہاں اعلٰی مذہبی و اخلاقی آدرش کتابوں کے سیاہ حروف میں مقید نہ ہوں بلکہ افراد میں سانس لیتے ہوں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں اپنے نونہالوں کو ان تمام اعلٰی اقدار کا عملی نمونہ بن کر دکھانا ہوگا۔ ہمیں یہ نیت کرنا ہوگی کہ ہم اپنے بچوں کو اس لئے مکتب یا مدرسہ میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ ایک اچھا انسان بنیں، ان اعلٰی اقدار سے شناسائی حاصل کریں جو انسان کو اشرف المخلوقات کے درجہ پر فائز کرتی ہیں اور ان پر عمل کرکے اس درجہ پر فائز ہوں۔ اس حقیقت کا ادراک کرلیں کہ ڈاکٹر ، انجنیئر، جج، قاضی، جرنیل بننے سے زیادہ اہم انسان بننا ہے اور شرف آدمیت حاصل کرنا ہے۔ اس بات کو مطمع نظر رکھیں کہ زندگی اپنے لئے نہیں بلکہ سب کے لئے جینے کا نام ہے۔ انسان سے نفرت کی بجائے اس سے بلا تخصیص رنگ و نسل و مذہب محبت کریں۔ ایسے مستقبل کا خواب یقیناَ محتاج ہے علم کا ۔ اس علم کا جسے معلم اعظم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سکھایا، جس کی تعلیم قرآن دیتا ہے جس کی انتہا "انک لعلٰی خلق عظیم" ہے۔ ایسا علم جس کی حقانیت کی گواہی کوڑے اور سزائیں نہیں انسان کا صدیوں پر پھیلا ہوا مشاہدہ دیتا ہے۔ اور پھر ضرورت ہے ان طالبان علم کی جو اس پر عمل کریں۔ جو ایک اچھے پیشہ ور ہی نہ ہوں بلکہ ڈاکٹر، انجنیئر، عالم، سوداگر سب کچھ بننے سے بہت پہلے اچھے انسان ہوں۔ قوموں کا مستقبل ایک اضطراری کیفیت کا آئینہ دار نہیں ہوتا بلکہ پھل ہوتا ہے ایک سعئ مسلسل کا۔ "ان لیس للانسان الا ما سعٰی" کے آفاقی اور سچے اصول کے مطابق جو آپ کاٹتے ہیں وہ وہی ہوتا ہے جو آپ نے بویا ہوتا ہے۔ سو اگر آپ کی تمنا ایک ایسا معاشرہ تخلیق کرنے کی ہے تو یقیناَ قوم کا مستقبل سچے علم اور ان طالبان علم کے ساتھ وابستہ ہے جو ان آدرشوں کو سیکھیں ان پر عمل کریں اور اپنے معاشرہ کو نئی بلندیوں پر لے جائیں۔