خواجہ طلحہ
محفلین
قوم ایسے افراد پر مشتمل ہوتی ہے جن میں کچھ خاصیتں مشترک ہوں۔جیسا کہ زبان،لباس،روایات یا علاقہ وغیرہ۔ہر قوم کی یہ خوبیاں اس کو دیگر اقوام سے علیحدہ کرتی ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ خاصیتں قوم کا تشخص یا پیچان مقرر کرتی ہیں۔
اور طلباء قوم کے وہ افراد ہوتے ہیں جنہیں مستقبل کو سامنے رکھ کر ایسی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے کہ وہ کاروبار زندگی کے مختلف شعبوں کو با احسن طریقہ سے سنبھال سکیں۔
پہلی توقع جوملک و قوم کی افراد سےہوتی ہے ۔وہ ہے اس کے تشخص کی حفاظت۔
یہ جو قوم کی پہچان اور تشخص کا نظریہ ہے نا،یہ بہت تنگ نظر ہوتا ہے۔اور ملک کی بقاء کے لیے قوم کو تنگ نظر ہونا پڑتا ہے۔ طلبا ء کو اس پہچان کی حفاظت کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس نظریہ کے تحت گلوبل ولیج والے نظریہ سے نظر چرانا سکھائی جاتی ہے۔لیکن افسو س کی بات یہ ہے کہ کچھ قومیں ترقی یا فتہ اقوام کے علم کی جگہ ان کی نقل کی کوشش کررہی ہیں۔
تقلیدسے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو
کر اس کی حفاظت کہ یہ گو ہر ہے یگانہ۔
دوسری توقع جو قوم اپنے افراد سے کرتی ہے وہ یہ کہ وہ با کردار وبااخلاق بن کر ایمانداری سے اپنے فرائض اور دوسروں کے حقوق ادا کریں۔
اکثر لوگ جب مستقبل کی بات کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد معاشی مستقبل ہوتا ہے۔ اگرچہ اس میں شک نہیں کہ معیشت کسی ملک و قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ لیکن کیا یہ سچ نہیں ؟ کہ ہر بندہ جب انفرادی مستقبل کی منصوبہ بندی کرتا ہے تو وہ شعوری یا لا شعوری طور پر پیسے کے علاوہ دیگر باتوں کو نظر انداز کردیتا ہے۔ اسی طرح والدین جب اپنے بچوں کے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔تو ان کے ذہن میں بھی اکثر بچے کے مستقبل کی کمائی کی فکر ہوتی ہے۔اگرچہ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ بااخلاق و باکردار بنے ۔لیکن تربیت کی جس بھٹی میں وہ اسے ڈالتے ہیں، کیا وہاں سے کندن نکلتا ہے؟ ماضی کے طلباء جنھوں نے آج قوم کے مختلف شعبوں کو سنبھال رکھا ،کیا وہ والدین کے حقوق ادا کررہے ہیں؟ کیا وہ اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کر رہے ہیں؟
اسی سے پوچھ کہ پیش نگاہ ہے جو کچھ
جہاں ہے یا کہ فقط رنگ و بو کی طغیانی۔
طلباء ایک ایسی سادہ اور صاف تختی ہوتے ہیں ۔ جن پر تعلیم و تربیت کے ذریعے انکے فرائض سے آگاہی لکھی جاتی ہے۔
یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم اپنے مستقبل کو، گلوبل ولیج کی آٖڑ میں، اپنے تعلیمی اداروں اور اپنی گھریلو زندگی کے ذریعے، ترقی یافتہ اقوام کا علم دے رہے ہیں یا کہ ان کی نقالی میں اپنی پہچان کھو نے کر تربیت دے رہے ہیں۔
کیا آپ اپنے مستقبل کی جھلک دیکھنا چاہتے ہیں؟
سنا ہے کہ انسان کے باطن کی کافی پہچان اس کے ظاہر سے ہوتی ہے۔ تو مشاہد ہ کیجیے اپنے مستقبل کے معماروں کی وضع قطع ،زبان ،رہن سہن ،تربیت گاہوں (تعلیمی ادارے اور گھریلوزندگی )کا ۔
اور کیا آپ آج رائج شدہ تعلیم وتربیت کے نتائج دیکھنا چاہتے ہیں؟
تو کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری اداروں میں جائیے اور ان کے معمالات کا مشاہد ہ کیجیے۔اگر یہ ادارے ایماندار اور بااخلاق لوگوں سے پر ہیں تو آپ اپنے ملک و قوم کی توقع کے مطابق اپنے طلباء کو تربیت دے رہے ہیں۔ وگرنہ آپ ہنس کی چال والے تعلیمی ادارےاور گھریلو نظام چلا رہے ہیں۔اور ناراضی معاف ! آپ کا خورشید جلد ہی زرد ہونے کو ہے۔
تیری متاع حیات علم و ہنر کا سرور
میری متاع حیات ایک دل نا صبور!
اور طلباء قوم کے وہ افراد ہوتے ہیں جنہیں مستقبل کو سامنے رکھ کر ایسی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے کہ وہ کاروبار زندگی کے مختلف شعبوں کو با احسن طریقہ سے سنبھال سکیں۔
پہلی توقع جوملک و قوم کی افراد سےہوتی ہے ۔وہ ہے اس کے تشخص کی حفاظت۔
یہ جو قوم کی پہچان اور تشخص کا نظریہ ہے نا،یہ بہت تنگ نظر ہوتا ہے۔اور ملک کی بقاء کے لیے قوم کو تنگ نظر ہونا پڑتا ہے۔ طلبا ء کو اس پہچان کی حفاظت کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس نظریہ کے تحت گلوبل ولیج والے نظریہ سے نظر چرانا سکھائی جاتی ہے۔لیکن افسو س کی بات یہ ہے کہ کچھ قومیں ترقی یا فتہ اقوام کے علم کی جگہ ان کی نقل کی کوشش کررہی ہیں۔
تقلیدسے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو
کر اس کی حفاظت کہ یہ گو ہر ہے یگانہ۔
دوسری توقع جو قوم اپنے افراد سے کرتی ہے وہ یہ کہ وہ با کردار وبااخلاق بن کر ایمانداری سے اپنے فرائض اور دوسروں کے حقوق ادا کریں۔
اکثر لوگ جب مستقبل کی بات کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد معاشی مستقبل ہوتا ہے۔ اگرچہ اس میں شک نہیں کہ معیشت کسی ملک و قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ لیکن کیا یہ سچ نہیں ؟ کہ ہر بندہ جب انفرادی مستقبل کی منصوبہ بندی کرتا ہے تو وہ شعوری یا لا شعوری طور پر پیسے کے علاوہ دیگر باتوں کو نظر انداز کردیتا ہے۔ اسی طرح والدین جب اپنے بچوں کے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔تو ان کے ذہن میں بھی اکثر بچے کے مستقبل کی کمائی کی فکر ہوتی ہے۔اگرچہ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ بااخلاق و باکردار بنے ۔لیکن تربیت کی جس بھٹی میں وہ اسے ڈالتے ہیں، کیا وہاں سے کندن نکلتا ہے؟ ماضی کے طلباء جنھوں نے آج قوم کے مختلف شعبوں کو سنبھال رکھا ،کیا وہ والدین کے حقوق ادا کررہے ہیں؟ کیا وہ اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کر رہے ہیں؟
اسی سے پوچھ کہ پیش نگاہ ہے جو کچھ
جہاں ہے یا کہ فقط رنگ و بو کی طغیانی۔
طلباء ایک ایسی سادہ اور صاف تختی ہوتے ہیں ۔ جن پر تعلیم و تربیت کے ذریعے انکے فرائض سے آگاہی لکھی جاتی ہے۔
یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم اپنے مستقبل کو، گلوبل ولیج کی آٖڑ میں، اپنے تعلیمی اداروں اور اپنی گھریلو زندگی کے ذریعے، ترقی یافتہ اقوام کا علم دے رہے ہیں یا کہ ان کی نقالی میں اپنی پہچان کھو نے کر تربیت دے رہے ہیں۔
کیا آپ اپنے مستقبل کی جھلک دیکھنا چاہتے ہیں؟
سنا ہے کہ انسان کے باطن کی کافی پہچان اس کے ظاہر سے ہوتی ہے۔ تو مشاہد ہ کیجیے اپنے مستقبل کے معماروں کی وضع قطع ،زبان ،رہن سہن ،تربیت گاہوں (تعلیمی ادارے اور گھریلوزندگی )کا ۔
اور کیا آپ آج رائج شدہ تعلیم وتربیت کے نتائج دیکھنا چاہتے ہیں؟
تو کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری اداروں میں جائیے اور ان کے معمالات کا مشاہد ہ کیجیے۔اگر یہ ادارے ایماندار اور بااخلاق لوگوں سے پر ہیں تو آپ اپنے ملک و قوم کی توقع کے مطابق اپنے طلباء کو تربیت دے رہے ہیں۔ وگرنہ آپ ہنس کی چال والے تعلیمی ادارےاور گھریلو نظام چلا رہے ہیں۔اور ناراضی معاف ! آپ کا خورشید جلد ہی زرد ہونے کو ہے۔
تیری متاع حیات علم و ہنر کا سرور
میری متاع حیات ایک دل نا صبور!