فیصل عظیم فیصل
محفلین
یہی کہتے رہے ہم بھی لکھیں گے برسرِمحفل
مگر کچھ لکھ نہیں پائے ذرا سے سست جو ٹھہرے
طلباء کسی بھی قوم کا مستقبل ہیں ۔ اس میں پاکستانی یا غیر پاکستانی کی تخصیص نہیں کیونکہ معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیئے جہاں دوسرے معاشرتی اسباب متعلقہ ہیں وہیں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایک کسان کو تو یہ احساس ہے کہ اس کی کھیتی میں بیج اچھا ڈالا جائے ۔ اسکے لیئے زمین اچھی طرح تیار ہو ۔ اسے پانی اچھی طرح سے دیا جائے ۔ اسے چیل کوؤں کیڑے مکوڑوں سے بچایا جائے ۔لیکن ہماری حکومت (مراد حکومت پاکستان ہے) کو شاید یہ احساس نہیں ۔ علم کا حصول چند کتابوں کے مجموعے کو پڑھ لینے کا نام نہیں بلکہ کسی بھی فرد کی زندگی میں ان تمام عوامل سے آشناس کرانا ہے جن کے اثرات سے وہ ایک اچھا شہری اور معاشرے میں فعال کردار ادا کر سکے ۔ جب ہم خود پڑھتے تھے تو ہمارے انگریزی کے ایک استاد ہوا کرتے تھے جناب ضیاء الرحمٰن صاحب انہیں سب بچے پیار سے ابو جی کہا کرتے تھے ۔ موصوف انگریزی اور حساب پڑھایا کرتے تھے ۔ لیکن اس عمومی محاورے کے سخت خلاف تھے کہ '' رٹا لائزیشن از بیسٹ کوالی فی کیشن ان دا ایگزامی نیشن'' وہ کہتے تھے کہ موجودہ تعلیمی نظام طوطے اور کلرک تو پیدا کر سکتا ہے سوچنے والے دماغ نہیں اور انکی بات کافی حد تک درست بھی تھی ۔
ہمارے ملک کا سسٹم غلط ہے سب یہ کہتے ہیں
مگر اس کو بدلنے کا یہ حیلہ کیوں نہیں کرتے۔
جہاں طالب علموں کو اسکول میں کتابوں میں لکھے اسباق حفظ کرا کے یہ سمجھا جاتا ہو کہ بس امتحان میں کامیابی ہے مقصود مطلوب سسٹم تو وہاں واقعی میں ایسے طالب علم ملک کا مستقبل نہیں بلکہ ملک پر بوجھ بن جاتے ہیں ۔ جہاں بچے کو اسکول اس لیئے پڑھایا جاتا ہو کہ یہ بڑا ہو کر ڈاکٹر بنے گا ۔ انجیئر بنے گا ۔ اچھی سرکاری نوکری کرے گا تو وہاں آزاد سوچ کا پروان چڑھنا ناممکن تو نہیں البتہ مشکل ضرور ہو جاتا ہے ۔ ایسی تعلیم جہاں بچے کی تیاری زمانے کی مشاکل سے نبرد آزما ہونے کے لیئے کی جائے ۔ جہاں بچے کو آنے والے کل سے روشناس کرایا جائے جہاں بچے کی اچھی سوچ کو مسترد نہ کیا جائے ۔ یقینا اسکی شخصیت کی عمارت میں مضبوط بنیاد کا کام کرتی ہے ۔ اور ایسے بہت سے بچے مل کر ایک معاشرہ قائم کرتے ہیں جو کامل و مکمل تو نہیں لیکن ایک بہتر معاشرہ ضرور ہو سکتا ہے ۔
آج کے بچے کل کے جوان اور اس کے بعد آنے والے کل کے مدبر ہیں ۔ کوئی بھی ملک افراد کی اجتماعی کوششوں اور معاشرے کے بہاؤ کی بناء پر چلتا ہے ۔ جہاں سوچ میں والدین کے جھگڑے ۔ مشاہدے میں بجلی چوری، بدمعاشی ، مذہبی جنونیت، اختیارات کا ناجائز استعمال ہو وہاں زمین بنجر نہیں ہوتی بلکہ سیم زدہ ہو جاتی ہے اس پر بہت زیادہ محنت اور محبت سے کام کرنا درکار ہوتا ہے پھر جا کے کہیں وہ فصل گل ہوتی ہے جسے دیکھ کر کسان کا دل شاد ہوجائے ۔ جو کسان کے گھر میں خوشحالی لائے ۔ اور سب سے زیادہ ایک تعمیر اور آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرے ۔
ہم کل کے طالب علم ہیں ۔ ہمارے کل میں بہت سی غلطیاں ہیں جن سے ہمیں سبق سیکھنا ہے ۔ وہ سب کچھ جو ہمیں نہیں ملا ہمیں آنے والی نسلوں کو دے کر جانا ہے ۔ ہمیں اس کھیت میں جو ہمارا ملک ہے سخت محنت کرنا ہے ۔ اس میں یقینا ہمارے ہاتھ بھی چھلیں گے۔ ہمارے پاؤں بھی زخمی ہوں گے ۔ لیکن یکسوئی کے ساتھ ہمیں یہاں سے مذہبی انتہا پسندی ، دھوکہ دہی ، وسائل کی چوری ، اختیارات کا غلط استعمال اور ملکی مفاد کے منافی کاموں کو ختم کرنا ہوگا ۔ کھیت بڑا ہے ۔ سیم زدہ ہے ۔ جگہ جگہ پر پتھر ہیں ۔ ہمارے جوتے ٹوٹے ہوئے ہیں ۔ پیاس سے گلا خشک ہے ، ساتھ والے کھیتوں سے بھی پانی رس ر س کر ہمارے کھیت میں آرہا ہے تو اس کھیت کو باتوں سے ہی نہیں بلکہ عمل سے بچانے کی کوشش کرنا ہمارا فرض ہے ۔ اس کھیت کی کھیتی ہمارے طالبعلم ہیں جو ہمارا آنے والا کل ہیں ۔ ہم نے پچھلے سالوں میں تھوہر لگایا تھا جو آج ہمارے ہی گلوں میں پھنس کر رہ گیا ہے ۔ آج ہمارے ساتھ کندھے سے کندھا لگا کر کھڑے ہونے والے بہت کم ہیں لیکن ہمیں اب سنجیدہ ہو کر اس کھیت کو بچانے اور آنے والی فصل کو اچھا کرنے کی سعی کرنا ہی ہوگی ورنہ
ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
ہمیں ان کا کل جو درحقیقت ہمارا کل ہے محفوظ کرنے کی مخلصانہ کوششیں کرنا ہوں گی ۔ کیونکہ اگر ان کا کل بہتر ہوگا تو یہ آنے والی نسلوں کو اس سے بہتر کل دے کر جائیں گے ۔ نہ کہ ہرقدم پیچھے کی جانب چلتی ہماری موجودہ معیشت ۔ تجارت ۔ علمی قابلیت اور ملکی و عالمی سیکیورٹی پر مشتمل آج جیسی کوئی اور صورت حال
مگر کچھ لکھ نہیں پائے ذرا سے سست جو ٹھہرے
طلباء کسی بھی قوم کا مستقبل ہیں ۔ اس میں پاکستانی یا غیر پاکستانی کی تخصیص نہیں کیونکہ معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیئے جہاں دوسرے معاشرتی اسباب متعلقہ ہیں وہیں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایک کسان کو تو یہ احساس ہے کہ اس کی کھیتی میں بیج اچھا ڈالا جائے ۔ اسکے لیئے زمین اچھی طرح تیار ہو ۔ اسے پانی اچھی طرح سے دیا جائے ۔ اسے چیل کوؤں کیڑے مکوڑوں سے بچایا جائے ۔لیکن ہماری حکومت (مراد حکومت پاکستان ہے) کو شاید یہ احساس نہیں ۔ علم کا حصول چند کتابوں کے مجموعے کو پڑھ لینے کا نام نہیں بلکہ کسی بھی فرد کی زندگی میں ان تمام عوامل سے آشناس کرانا ہے جن کے اثرات سے وہ ایک اچھا شہری اور معاشرے میں فعال کردار ادا کر سکے ۔ جب ہم خود پڑھتے تھے تو ہمارے انگریزی کے ایک استاد ہوا کرتے تھے جناب ضیاء الرحمٰن صاحب انہیں سب بچے پیار سے ابو جی کہا کرتے تھے ۔ موصوف انگریزی اور حساب پڑھایا کرتے تھے ۔ لیکن اس عمومی محاورے کے سخت خلاف تھے کہ '' رٹا لائزیشن از بیسٹ کوالی فی کیشن ان دا ایگزامی نیشن'' وہ کہتے تھے کہ موجودہ تعلیمی نظام طوطے اور کلرک تو پیدا کر سکتا ہے سوچنے والے دماغ نہیں اور انکی بات کافی حد تک درست بھی تھی ۔
ہمارے ملک کا سسٹم غلط ہے سب یہ کہتے ہیں
مگر اس کو بدلنے کا یہ حیلہ کیوں نہیں کرتے۔
جہاں طالب علموں کو اسکول میں کتابوں میں لکھے اسباق حفظ کرا کے یہ سمجھا جاتا ہو کہ بس امتحان میں کامیابی ہے مقصود مطلوب سسٹم تو وہاں واقعی میں ایسے طالب علم ملک کا مستقبل نہیں بلکہ ملک پر بوجھ بن جاتے ہیں ۔ جہاں بچے کو اسکول اس لیئے پڑھایا جاتا ہو کہ یہ بڑا ہو کر ڈاکٹر بنے گا ۔ انجیئر بنے گا ۔ اچھی سرکاری نوکری کرے گا تو وہاں آزاد سوچ کا پروان چڑھنا ناممکن تو نہیں البتہ مشکل ضرور ہو جاتا ہے ۔ ایسی تعلیم جہاں بچے کی تیاری زمانے کی مشاکل سے نبرد آزما ہونے کے لیئے کی جائے ۔ جہاں بچے کو آنے والے کل سے روشناس کرایا جائے جہاں بچے کی اچھی سوچ کو مسترد نہ کیا جائے ۔ یقینا اسکی شخصیت کی عمارت میں مضبوط بنیاد کا کام کرتی ہے ۔ اور ایسے بہت سے بچے مل کر ایک معاشرہ قائم کرتے ہیں جو کامل و مکمل تو نہیں لیکن ایک بہتر معاشرہ ضرور ہو سکتا ہے ۔
آج کے بچے کل کے جوان اور اس کے بعد آنے والے کل کے مدبر ہیں ۔ کوئی بھی ملک افراد کی اجتماعی کوششوں اور معاشرے کے بہاؤ کی بناء پر چلتا ہے ۔ جہاں سوچ میں والدین کے جھگڑے ۔ مشاہدے میں بجلی چوری، بدمعاشی ، مذہبی جنونیت، اختیارات کا ناجائز استعمال ہو وہاں زمین بنجر نہیں ہوتی بلکہ سیم زدہ ہو جاتی ہے اس پر بہت زیادہ محنت اور محبت سے کام کرنا درکار ہوتا ہے پھر جا کے کہیں وہ فصل گل ہوتی ہے جسے دیکھ کر کسان کا دل شاد ہوجائے ۔ جو کسان کے گھر میں خوشحالی لائے ۔ اور سب سے زیادہ ایک تعمیر اور آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرے ۔
ہم کل کے طالب علم ہیں ۔ ہمارے کل میں بہت سی غلطیاں ہیں جن سے ہمیں سبق سیکھنا ہے ۔ وہ سب کچھ جو ہمیں نہیں ملا ہمیں آنے والی نسلوں کو دے کر جانا ہے ۔ ہمیں اس کھیت میں جو ہمارا ملک ہے سخت محنت کرنا ہے ۔ اس میں یقینا ہمارے ہاتھ بھی چھلیں گے۔ ہمارے پاؤں بھی زخمی ہوں گے ۔ لیکن یکسوئی کے ساتھ ہمیں یہاں سے مذہبی انتہا پسندی ، دھوکہ دہی ، وسائل کی چوری ، اختیارات کا غلط استعمال اور ملکی مفاد کے منافی کاموں کو ختم کرنا ہوگا ۔ کھیت بڑا ہے ۔ سیم زدہ ہے ۔ جگہ جگہ پر پتھر ہیں ۔ ہمارے جوتے ٹوٹے ہوئے ہیں ۔ پیاس سے گلا خشک ہے ، ساتھ والے کھیتوں سے بھی پانی رس ر س کر ہمارے کھیت میں آرہا ہے تو اس کھیت کو باتوں سے ہی نہیں بلکہ عمل سے بچانے کی کوشش کرنا ہمارا فرض ہے ۔ اس کھیت کی کھیتی ہمارے طالبعلم ہیں جو ہمارا آنے والا کل ہیں ۔ ہم نے پچھلے سالوں میں تھوہر لگایا تھا جو آج ہمارے ہی گلوں میں پھنس کر رہ گیا ہے ۔ آج ہمارے ساتھ کندھے سے کندھا لگا کر کھڑے ہونے والے بہت کم ہیں لیکن ہمیں اب سنجیدہ ہو کر اس کھیت کو بچانے اور آنے والی فصل کو اچھا کرنے کی سعی کرنا ہی ہوگی ورنہ
ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
ہمیں ان کا کل جو درحقیقت ہمارا کل ہے محفوظ کرنے کی مخلصانہ کوششیں کرنا ہوں گی ۔ کیونکہ اگر ان کا کل بہتر ہوگا تو یہ آنے والی نسلوں کو اس سے بہتر کل دے کر جائیں گے ۔ نہ کہ ہرقدم پیچھے کی جانب چلتی ہماری موجودہ معیشت ۔ تجارت ۔ علمی قابلیت اور ملکی و عالمی سیکیورٹی پر مشتمل آج جیسی کوئی اور صورت حال