طلسمِ ہوش ربا

جاسم محمد

محفلین
طلسمِ ہوش ربا
سہیل وڑائچ
19 نومبر ، 2019

الف لیلوی کہانیوں کی بنیاد تو بغداد میں پڑی لیکن برصغیر میں بھی اس روایت کو خاصا فروغ ملا، منشی محمد حسین جاہ کی داستان ’’طلسمِ ہوشربا‘‘ (زمانۂ تحریر 1888-1889) منشی نول کشورپریس سے شائع ہوئی تو بھوت پریت، جنوں اور پریوں کی کہانیاں ہندوستان میں بھی عام ہو گئیں۔

مرزا رجب علی بیگ سرور (1758ء تا 1869ء) نے ’’فسانۂ عجائب‘‘ میں گل بکائولی، حاتم طائی اور داستان امیر حمزہ کے اجزا سے نئے کردار تخلیق کئے۔ جانِ عالم اور انجمن آرا کا قصہ مافوق الفطرت عناصر، سحر و طلسم کی کارروائی اور زبان و بیان کی شیرینی سے مرصّع ہے۔

یہ جادوئی داستانیں بہت طویل ہوتی تھیں، وقت کی تنگی ہوئی تو داستان کی بجائے ناول آ گئے۔ وقت اور تنگ ہوا تو افسانہ یا شارٹ اسٹوری آ گئی۔ ابھی شاید اس سے بھی کم اختصار والی کوئی صنف آ جائے۔ اصناف بدلنے کے باوجود انسانی احساسات و جذبات بالکل نہیں بدلے۔

خوشی، غم، غصہ، تکلیف، ڈر، محبت، نفرت اور تعصب آج بھی ویسے کے ویسے ہیں، ضعیف الاعتقادی البتہ کچھ کم ہوئی ہے لیکن موجود اب بھی ہے، جادو کے اثر پر آج بھی یقین کیا جاتا ہے، جن، بھوت اور ان کے اثرات پر اب بھی بحث رہتی ہے۔

کوئی مانے یا نہ مانے، طلسم ہوش ربا کے جادوئی کھیل اب بھی جاری ہیں، اب ایک طرف سیاست کے جن ہیں تو دوسری طرف طاقت کے جن۔ نجومی کہہ رہے ہیں کہ اگلے دس دن میں اگلے دو سال کی سیاست کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ فسانہ عجائب کا ہیرو جان عالم، دیو مالائی داستانوں کی طرح کاحسین تھا، جان عالم اور ملکہ انجمن آرا کے حسن کے آج بھی چرچے ہیں۔

آج بھی جن اور بھوت ان کے اشارۂ ابرو کے منتظر رہتے ہیں، اُن کو عالم غیب کی باتیں بتا دیتے ہیں اور تو اور حساس ترین موضوعات پر بھی انہیں اندر کی کہانی کی خبر دیتے ہیں۔ طاقت کا جن بھی جادو سے بے خبر نہیں، اسے بھی جادو کے منحوس اثرات کا علم ہے۔ دونوں جن ایک دوسرے کا طلسم توڑنے کے ماہر ہیں،

ایک مرد جن، طلسماتی لوح کے ذریعے دوسرے کے چراغ کو گل کرنا چاہتا ہے جبکہ دوسری خاتون جن، طاقت کے دیوتا کے زیر اثر ہے۔ جب آج کا کوئی رجب علی بیگ سرور ’’نیا فسانہ عجائب‘‘ لکھے گا تو ان دو جنوں کی چپقلش کی کہانی ضرور لکھے گا۔ طلسم ہوش ربا کے اندر کئی تہہ در تہہ داستانیں ہیں۔ پہلے سیاست اور طاقت کے جن ایک ہی صفحہ پر تھے، اب یوں لگتا ہے کہ ورق الٹا جا رہا ہے، سیاست انگڑائی لے رہی ہے۔

مولانا کے دھرنے نے فی الحال وقتی طور پر سیاست اور میڈیا کے اسٹیٹس کو کو توڑ دیا ہے۔ گزشتہ 15ماہ سے سیاسی شطرنج کے مہرے ایک ہی خانے میں جمے بیٹھے تھے، اب وہ متحرک ہو گئے ہیں، شطرنج کے بادشاہ کو نواز شریف کے باہر جانے کے ایشو پر پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔ شاہ مات کا وقت تو اگلے سال مارچ، اپریل میں آنا تھا مگر پیادوں نے ایسی کھلبلی مچائی ہے کہ سیاسی اتار چڑھائو صاف نظر آنے لگا ہے۔

قاف لیگ اور نون لیگ ابتدائے آفرینش سے ایک دوسرے کا توڑ کر رہی ہیں مگر قاف لیگ کا نواز شریف کے لئے جذبۂ ہمدردی گرینڈ مسلم لیگ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگلے دس دن میں بازی گر کیا فسوں کاری دکھاتا ہے۔ اگر تو جان عالم کے جن نے کام دکھا دیا تو پھر اگلے دو تین سال جانِ عالم کی گرد کو چھونا مشکل ہوگا لیکن اگر جان عالم کے جن کا توڑ کر لیا گیا تو ہما کسی اور سر پر بیٹھنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ طلسماتی دنیا کی کہانیاں عجیب و غریب ہیں، نواز شریف کی بیماری کے بعد انہیں باہر لے جانے کا معاملہ زیر بحث آیا تو جانِ عالم اور شہزادی انجمن آرا کے سائے زلف پجاری نے کھل کھلا کر ضمانتی بانڈ لینے کی حمایت کی بلکہ اس حمایت کی تشہیر کا بندوبست بھی کیا یوں شہزادی انجمن آرا کی بساط پر پیادوں کی چال کا اندازہ ہو گیا،

قیافہ شناسوں نے یہ بھی بوجھ لیا کہ اب انجمنِ آرا کے جن کے مقابلے میں بھی نسوانی جن ہے، اب لڑائی یکطرفہ نہیں دو طرفہ ہے۔ بزکشی کے ماہر، پنجاب کے دُلہا کسی سے کم نہیں ہیں، دُلہا نے دو شادیاں کیںیا تین؟ اس کے دامن پر کوئی داغ ہے یا نہیں؟ اس کے بھائی کتنے ایماندار ہیں؟ یہ سب سازشی تھیوریاں ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اسے بد دستور جانِ عالم اور انجمن آرا کی حمایت حاصل ہے۔ حد تو یہ ہے کہ یہ سرائیکی دُلہا حد سے بڑھ کر اپنے مخالفوں پر توپ کے گولے بھی برسا رہا ہے۔

کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ دُلہا بھائی کی توپ اُدھر بھی چل گئی ہے جہاں بارود ہی بارود ہے اور وہاں آگ بھڑکنے کی اطلاع بھی ملی ہے۔ اگر دس دن میں کچھ نہ ہوا تو اس کی وجہ مفاہمت ہوگی اور مفاہمت میں وٹو، فیصل صالح فارمولا اپنایا جا سکتا ہے یعنی بزدار برقرار رہیں اور ان کے ساتھ طاقتور مشیر لگا دیا جائے جو ڈیلیور کر سکے اور دُلہا بھائی اسی طرح رنگ رلیاں مناتے رہیں۔

اس فارمولے پر غور و فکر جاری ہے مگر نہ یہ پہلے کامیاب ہوا تھا نہ اب کامیاب ہوگا۔ اندازے یہی تھے کہ دھرنے سے کچھ ہو نہ ہو، پنجاب میں تبدیلی کے لئے دبائو بڑھے گا اور توقع ہے کہ اگلے دو ماہ میں یہ دبائو کوئی نہ کوئی نتیجہ نکالنے میں کامیاب ہوگا۔

طلسم ہوش ربا کا سب سے کمزور کردار عوام ہیں، مہنگائی اور معاشی بدحالی نے ان کو پریشان کر رکھا ہے۔ ریلیف کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے، معاشی بابو خسارے میں کمی کے اعداد و شمار بتاکر خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ سب طلسماتی دنیا کے کردار ہیں۔

مشیر خزانہ کو ٹماٹر کا نرخ تک پتا نہیں، کابینہ میں اکثر کو آٹے دال کا بھائو بھی معلوم نہیں ہوگا، ایسے میں کیا توقع کی جائے کہ حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟ لگ یوں رہا ہے کہ انقلاب فرانس کے موقع پر ڈبل روٹی مانگنے والوں کو جس طرح کیک کھانے کا مشورہ دیا گیا تھا، وہی صورتحال یہاں پیدا ہو رہی ہے۔ بظاہر تاجروں کو ٹیکس میں ریلیف مل گیا، ہڑتالیں ختم ہو گئیں لیکن کیا معاشی پہیہ چل سکا ہے؟ بظاہر ایسا نہیں اور اس کی وجہ 2بی کی ناراضی ہے، بزنس مین اور بیورو کریٹس عدم تعاون کی راہ پر گامزن ہیں، وہ نہ جارحیت کر رہے ہیں نہ مزاحمت، بس خاموشی سے عدم تعاون کرتے جا رہے ہیں۔ کیونکہ اُنہیں علم ہے کہ پہیہ اُن کے بغیر نہیں چلے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
طلسم ہوش ربا کا سب سے کمزور کردار عوام ہیں، مہنگائی اور معاشی بدحالی نے ان کو پریشان کر رکھا ہے۔ ریلیف کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے، معاشی بابو خسارے میں کمی کے اعداد و شمار بتاکر خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ سب طلسماتی دنیا کے کردار ہیں۔
پچھلی حکومت بھی تو طلسم ہوش ربا خسارے کر کے عوام کو ریلیف فراہم کر رہی تھی۔ پھر اسے تبدیل کیوں کیاگیا؟ کیونکہ بیرونی قرضے لے کر ڈالر مصنوعی سستا کر دینے سے معیشت نہیں چلتی۔ اُلٹا ملک دیوالیہ ہو جاتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
دوستو! انقلاب مؤخر ہوا
19/11/2019 عاصمہ شیرازی

وہی جو ہمیشہ ہوتا رہا ہے، پھر سے ہو رہا ہے۔

بالکل اُسی طرح جیسے پیپلز پارٹی کو پچھاڑنے کے لیے پہلے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا گیا جس میں سے ن لیگ، ق لیگ، ضیا لیگ، فنکشنل، نان فنکشنل اور کئی ایک ’جمہوری‘ گروپ اور کئی عدد چھوٹی چھوٹی الف سے ے تک مسلم لیگیں برآمد ہوئیں۔

پھر دو بڑی جماعتیں ایک دوسرے سے محاذ آرائی کرتی رہیں، لڑتی رہیں، جھگڑتی رہیں اور پھر ’لڑتے لڑتے ہو گئی گم، ایک کی چونچ اور ایک کی دُم۔‘

احساس ہوا کہ دونوں جماعتوں کی محاذ آرائی میں جمہوریت اور جمہور کہیں پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ یوں میثاق جمہوریت نے جنم لیا اور اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو احساس ہوا کہ وہ کچھ تہی دست سی ہو گئی ہے۔

جنرل مشرف کے دور آمریت میں عمران خان اپنی ذات میں ہی جماعت تھے اور پھر جماعت کو اُن کے ساتھ کر دیا گیا جس کی کہانی چوہدری پرویز الٰہی صاحب نے حال ہی میں سنائی۔ یعنی پنجابی کے محاورے کے عین مطابق ’چوراں نوں پے گئے مور، تے موراں نوں پے گئے ہور‘۔

109739396_gettyimages-77911913.jpg

Getty Images
ن لیگ کے تیسرے دور حکومت سے قبل ’تبدیلی‘ جنم لے چکی تھی مگر اس دور میں پچھلی تمام ’غلطیوں‘ کے مداوے اور سویلین بالادستی کی خواہش نے اداروں کے درمیان خلیج پیدا کر دی تھی جس کا بھر پور فائدہ ’تبدیلی‘ والوں نے اُٹھایا

وقت نے ثابت کیا کہ ہر جماعت بوقت ضرورت اور حسب استطاعت کام آتی رہی، استعمال ہوتی رہی اور مقتدر اپنی سہولت اور ضرورت کے تحت انھیں استعمال کرتے رہے۔

پاکستان میں اِس سانپ سیڑھی کے کھیل میں اصل موڑ تب آیا جب بقول پرانی سیاسی جماعتوں کے انھوں نے وقت سے ’سیکھ‘ لیا۔

حالات سے سمجھوتہ کرنے کی بجائے دو ہزار آٹھ میں دو حریف جماعتوں نے باضابطہ حکومت میں ہاتھ ملایا اور سیاہ پٹیاں باندھ کر جنرل پرویز مشرف سے حلف لیا۔

ہمیں آج بھی وہ دن یاد ہے جب اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کے جیالے اور ن لیگ کے متوالے ایک صفحے پر نہ صرف نظر آئے بلکہ دونوں نے مل کر جنرل پرویز مشرف کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا، اٹھارویں ترمیم کی اور پارلیمنٹ کے اختیارات پارلیمان کو واپس دیے۔

پیار کی یہ پینگیں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی تحریک کی نذر ہوئیں اور نواز شریف کا لانگ مارچ جنرل کیانی کی گوجرانوالہ میں آنے والی ٹیلی فون کال پر اختتام کو پہنچا۔

یہ انقلاب بھی جی ایچ کیو کی مداخلت کے بنا کامیاب نہ ہوتا سو یہ تحریک کامیاب ہوئی۔

109739398_gettyimages-78688210.jpg

Getty Images
وزیراعظم نے ججوں کو بحال کیا مگر وقت نے ثابت کیا کہ آصف زرداری کے جسٹس چوہدری کے بارے میں شکوک و شبہات درست نکلے اور پاکستان کے عدالتی فیصلوں نے عملاً انتظامیہ اور مقننہ کو مفلوج کیے رکھا

وزیراعظم نے ججوں کو بحال کیا مگر وقت نے ثابت کیا کہ آصف زرداری کے جسٹس چوہدری کے بارے میں شکوک و شبہات درست نکلے اور پاکستان کے عدالتی فیصلوں نے عملاً انتظامیہ اور مقننہ کو مفلوج کیے رکھا۔

ن لیگ نے اس معاملے پر بہت بعد میں پچھتاوے کا اظہار کیا لیکن اس دوران میمو گیٹ میں بھی ن لیگ استعمال ہوئی جس پر نواز شریف صاحب پشیمان ضرور ہوئے مگر تب تک چڑیاں کھیت چُگ چکی تھیں اور طوطے اُڑ چکے تھے۔

ن لیگ کے تیسرے دور حکومت سے قبل ’تبدیلی‘ جنم لے چکی تھی مگر اس دور میں پچھلی تمام ’غلطیوں‘ کے مداوے اور سویلین بالادستی کی خواہش نے اداروں کے درمیان خلیج پیدا کر دی تھی جس کا بھر پور فائدہ ’تبدیلی‘ والوں نے اُٹھایا۔

قوم کو ’سونامی‘ اور پھر ’تبدیلی‘ اور پھر ’ریاست مدینہ‘ کے خواب یوں دکھائے گئے کہ جیسے تحریک انصاف جادو کی چھڑی سے ملک کی تقدیر پہلے نوے دنوں میں ہی بدل کر رکھ دے گی۔ دو سو ارب یہاں سے آئے گا اور ملازمتوں کی لائنیں لگ جائیں گی، سبز پاسپورٹ دنیا بھر میں کمال دکھائے گا اور پچاس لاکھ گھر راتوں رات بن جائیں گے۔

خواب دیکھنے کو محض دو بند آنکھیں ہی چاہییں مگر تعبیر کے لئے کئی ایک متحرک بازو۔ خواب تعبیر کے بنا بُنتے رہیں تو آنکھیں سوتی رہتی ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں جو حشر تبدیلی کا ہوا اتنے کم عرصے میں کبھی دیکھنے کو نہ ملا۔

’تبدیلی‘ میں تبدیلی بھی آ سکتی ہے اور آ رہی ہے۔ نواز شریف باہر جا رہے ہیں اور کپتان غصے میں آ رہے ہیں۔ اب بھی وہی حالات ہیں۔

109739400_gettyimages-186073670.jpg

Getty Images
جیسے پیپلز پارٹی کو پچھاڑنے کے لیے پہلے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا گیا جس میں سے ن لیگ، ق لیگ، ضیا لیگ، فنکشنل، نان فنکشنل اور کئی ایک ‘جمہوری’ گروپ اور کئی عدد چھوٹی چھوٹی الف سے ے تک مسلم لیگیں برآمد ہوئیں

مولانا کا انقلاب چھوٹی چھوٹی ٹولیوں اور ن لیگ کا انقلاب اگلی حکومت کی تگ و دو میں تقسیم ہو چکا ہے۔

پیپلز پارٹی اپنی سندھ سرکار بچانے میں مصروف ہے اور ق لیگ نئی لابیئنگ کا حصہ۔ ’ووٹ کو عزت دو‘ فی الحال اگلے اعلان تک موقوف اور تحریک انصاف اگلے دن کی بقا کی جنگ میں مصروف۔

اب بھی وہی ہو گا، ایک جماعت دوسری کی حکومت کو گرانے اور تیسری جماعت لائن میں لگ کر اپنی باری آنے کے انتظار میں رہے گی۔

سب اپنی اپنی گیم کے لیے نیٹ پریکٹس کرنے میں مصروف رہیں گے اور ڈوریوں والے ہاتھ تھک جانے پر ایک بازو کو آرام اور کبھی دوسرے سے طنابیں کھینچتے رہیں گے اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔

چلو دوستو! انقلاب کچھ دنوں کے لیے مؤخر ہوا۔
 
Top