اقبال طلوعِ اسلام (بانگِ درا)

عاطف بٹ

محفلین
طلوعِ اسلام
اقبال
دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی
افق سے آفتاب ابھرا، گیا دور گراں خوابی

عروق مردۂ مشرق میں خون زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی

مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی

عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونے والا ہے
شکوہ ترکمانی، ذہن ہندی، نطق اعرابی

اثر کچھ خواب کا غنچوں میں باقی ہے تو اے بلبل!
"نوا را تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی"

تڑپ صحن چمن میں، آشیاں میں، شاخساروں میں
جدا پارے سے ہو سکتی نہیں تقدیر سیمابی

وہ چشم پاک بیں کیوں زینت برگستواں دیکھے
نظر آتی ہے جس کو مرد غازی کی جگر تابی

ضمیر لالہ میں روشن چراغ آرزو کر دے
چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کر دے​
سرشک چشم مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا
خلیل اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا

کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا

ربود آں ترک شیرازی دل تبریز و کابل را
صبا کرتی ہے بوئے گل سے اپنا ہم سفر پیدا

اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

جہاں بانی سے ہے دشوار تر کار جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

نوا پیرا ہو اے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا

ترے سینے میں ہے پوشیدہ راز زندگی کہہ دے
مسلماں سے حدیث سوز و ساز زندگی کہہ دے​
خدائے لم یزل کا دست قدرت تو، زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے

پرے ہے چرخ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گرد راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے

مکاں فانی، مکیں آنی، ازل تیرا، ابد تیرا
خدا کا آخری پیغام ہے تو، جاوداں تو ہے

حنا بند عروس لالہ ہے خون جگر تیرا
تری نسبت براہیمی ہے، معمار جہاں تو ہے

تری فطرت امیں ہے ممکنات زندگانی کی
جہاں کے جوہر مضمر کا گویا امتحاں تو ہے

جہان آب و گل سے عالم جاوید کی خاطر
نبوت ساتھ جس کو لے گئی وہ ارمغاں تو ہے

یہ نکتہ سرگزشت ملت بیضا سے ہے پیدا
کہ اقوام زمین ایشیا کا پاسباں تو ہے

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا​
یہی مقصود فطرت ہے، یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہاں گیری، محبت کی فراوانی

بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی، نہ افغانی

میان شاخساراں صحبت مرغ چمن کب تک!
ترے بازو میں ہے پرواز شاہین قہستانی

گماں آباد ہستی میں یقیں مرد مسلماں کا
بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی

مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا، زور حیدر، فقر بو ذر، صدق سلمانی

ہوئے احرار ملت جادہ پیما کس تجمل سے
تماشائی شگاف در سے ہیں صدیوں کے زندانی

ثبات زندگی ایمان محکم سے ہے دنیا میں
کہ المانی سے بھی پائندہ تر نکلا ہے تورانی

جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا​
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

ولایت، پادشاہی، علم اشیاء کی جہاں گیری
یہ سب کیا ہیں، فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں

تمیز بندہ و آقا فساد آدمیت ہے
حذر اے چیرہ دستاں! سخت ہیں فطرت کی تعزیریں

حقیقت ایک ہے ہر شے کی، خاکی ہو کہ نوری ہو
لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں

یقیں محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

چہ باید مرد را طبع بلندے، مشرب نابے
دل گرمے، نگاہ پاک بینے، جان بیتابے​
عقابی شان سے جھپٹے تھے جو ، بے بال و پر نکلے
ستارے شام کے خون شفق میں ڈوب کر نکلے

ہوئے مدفون دریا زیر دریا تیرنے والے
طمانچے موج کے کھاتے تھے جو، بن کر گہر نکلے

غبار رہ گزر ہیں، کیمیا پر ناز تھا جن کو
جبینیں خاک پر رکھتے تھے جو، اکسیر گر نکلے

ہمارا نرم رو قاصد پیام زندگی لایا
خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں وہ بے خبر نکلے

حرم رسوا ہوا پیر حرم کی کم نگاہی سے
جوانان تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے

زمیں سے نوریان آسماں پرواز کہتے تھے
یہ خاکی زندہ تر، پائندہ تر، تابندہ تر نکلے

جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے، ادھر نکلے، ادھر ڈوبے ، ادھر نکلے

یقیں افراد کا سرمایۂ تعمیر ملت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گر تقدیر ملت ہے​
تو راز کن فکاں ہے، اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا

ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا

یہ ہندی، وہ خراسانی، یہ افغانی، وہ تورانی
تو اے شرمندۂ ساحل! اچھل کر بے کراں ہو جا

غبار آلودۂ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مرغ حرم! اڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا

خودی میں ڈوب جا غافل! یہ سر زندگانی ہے
نکل کر حلقۂ شام و سحر سے جاوداں ہو جا

مصاف زندگی میں سیرت فولاد پیدا کر
شبستان محبت میں حریر و پرنیاں ہو جا

گزر جا بن کے سیل تند رو کوہ و بیاباں سے
گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا

ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی
نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر ساز فطرت میں نوا کوئی​
ابھی تک آدمی صید زبون شہر یاری ہے
قیامت ہے کہ انساں نوع انساں کا شکاری ہے

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

وہ حکمت ناز تھا جس پر خرد مندان مغرب کو
ہوس کے پنچۂ خونیں میں تیغ کار زاری ہے

تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بناء سرمایہ داری ہے

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی، جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں، نہ نوری ہے، نہ ناری ہے

خروش آموز بلبل ہو، گرہ غنچے کی وا کر دے
کہ تو اس گلستاں کے واسطے باد بہاری ہے

پھر اٹھی ایشیا کے دل سے چنگاری محبت کی
زمیں جولاں گہ اطلس قبایان تتاری ہے

بیا پیدا خریدارست جان ناتوانے را
"پس از مدت گذار افتاد بر ما کاروانے ر"​
بیا ساقی نواے مرغ زار از شاخسار آمد
بہار آمد، نگار آمد، نگار آمد، قرار آمد

کشید ابر بہاری خیمہ اندر وادی و صحرا
صدائے آبشاراں از فراز کوہسار آمد

سرت گردم تو ہم قانون پیشیں سازدہ ساقی
کہ خیل نغمہ پردازاں قطار اندر قطار آمد

کنار از زاہداں برگیر و بے باکانہ ساغر کش
پس از مدت ازیں شاخ کہن بانگ ہزار آمد

بہ مشتاقاں حدیث خواجہ بدر و حنین آور
تصرف ہائے پنہانش بچشمم آشکار آمد

دگر شاخ خلیل از خون ما نم ناک می گرد
ببازار محبت نقد ما کامل عیار آمد

سر خاک شہیدے برگہائے لالہ می پاشم
کہ خونش با نہال ملت ما سازگار آمد

"بیا تا گل بیفشانیم و مے در ساغر اندازیم
فلک را سقف بشگافیم و طرح دیگر اندازیم"​
 

نایاب

لائبریرین
ہم نے ان عظیم انسانوں کے کلام کو عمل سے دور رکھتے
بحث و مباحثہ کرتے علم پھیلانا اپنا مقصود سمجھ لیا ہے ۔
بہت خوب شراکت محترم بھائی
 
Top