طوطی اور سوداگر

بزم خیال

محفلین
سندر خانی انگور ذائقہ اور مٹھاس میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ انورٹول آم خوشبو اور ذائقہ میں کسی سے کم نہیں۔اگر آم پھلوں میں بادشاہ کہلاتا ہے تو انگور بھی کسی رانی سے کم نہیں۔لیکن اعلان وفا سے پہلے دونوں ہی کسی دشمن سے کم نہیں ہوتے۔ایسے دانت کٹھے کرتے ہیں کہ کسی جلاد سے کم نہیں ہوتے۔ اعلان وفا چند دنوں سے زیادہ نہیں ہوتا مگر یہاں تک سفر طے کرنے میں سال بھر میدان جنگ کا منظر پیش کرتے ہیں اور بدلتے موسموں کی تغیرات سے بچتے بچاتے انجام صبر کی مثال بنتے ہیں۔سال بھر انتظار کے بعد حسن کے چرچے ہفتہ بھر ہی سننے میں رہتے ہیں۔ جن کے مقدر میں مٹھاس نہیں ہوتی ، وہ کٹھے ہی مرتبانوں کی زینت بن جاتے ہیں۔وہاں وہ منصب بادشاہت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔رانی جب ڈھل جائے تو گلے سڑے ہوئے پانی سے نشہ کی لت کی شکار ہو جاتی ہے۔نرالا دستور ہے زمانہ کاایسی حالت میں رانی کی بیٹی بن کرتمکن چیرہ دست ہو جاتی ہے۔معاملہ کچھ بھی ہو۔ بات سمجھنے کے لئے کہانی ضروری ہوتی ہے۔
اگر بغداد کا سوداگر ہندوستان کی طوطیوں کو ایک قیدی طوطی کا پیغام پہنچاتا ہے تو اسے قید سے رہائی کی ترکیب سوداگر کے زریعے پہنچا دی گئی۔ جسے سوداگر کی قید میں روزانہ مرتی ہوئی طوطی نے خود کو مار کر قید سے رہائی کا پروانہ پا لیا۔ جسے بظاہر طائر کی عقلمندی سے رہائی کی حکایت بنا دیا گیا۔ مولانا رومی نے اپنی مثنوی میں تشبیہات اور استعارات میں ایسی کئی کہانیاں بیان کی ہیں۔ان کے نزدیک طوطی تو دراصل ایک خوبصورت ، خوش گفتار اور دل کو چھو لینے والے حسن سے آراستہ روح تھی جو نفس کی سلاخوں سے بنے جسم کی قید میں تھی۔ جس نے نفس کی قید سے رہائی کا پروانہ تحسین و رغبت آدمیت کی نفی سے حاصل کیا۔ حسن جب نچھاور ہونے کے لئے حد سے بڑھ جائے تو رغبت انسانیت صیاد بے رحم بن کر دبوچ لیتا ہے۔پھر وہ نفس کی سلاخوں کے پیچھے قیدی بن کر رہ جاتا ہے۔
دوسروں سے آزادی کا نعرہ بلند کرنے سے قیدی سوداگروں سے رہائی نہیں پاتے بلکہ اس زندگی کو فنا کر دیتے ہیں جو صیاد کو دلربائی عطا کرتی ہے۔ خوبصورت اور خوش الہان پرندے قید و بند کی صعوبتوں سے گزرتے ہیں مگر ملکہ ترنم کوئل نہایت خوبصورت ، دلکش اور کانوں میں رس گھولنے والی آواز کے باوجود کھلے درختوں پر آزاد رہتی ہے۔ اس کی آزادی کا راز یہ ہے کہ وہ قید ہونے سے پہلے صیاد کے ہاتھوں میں ہائی بلڈ پریشر سے فنا ہو جاتی ہے۔ اس کا ایسے مر جانا آزاد زندگی کی علامت ہے۔
کھلے روشندان سے کمرے میں قید ہونے والی چڑیا آزادی کے لئے چھتوں ، پنکھوں سے جس طرح ٹکراتی ہے، وہ آزادی کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔ پیدائشی قیدی طوطا پنجرے کا دروازہ کھلا ملنے پر طوطا چشم ہو جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں پیدائشی آزاد روح انسانی ، نفس بدن کی قید میں بھی خوشی کے ترانے گنگناتی ہے۔ اس کی آزادی اس کے
تفکر میں ہے، صبر میں ہے ، شکر میں ہے۔
محبت میں ہے، قربت میں ہے، عبادت میں ہے۔
اقرار میں ہے، دلدار میں ہے، ابرار میں ہے۔
آسمان میں ہے، ایمان میں ہے، قرآن میں ہے۔
سبب میں ہے، طلب میں ہے، قلب میں ہے۔
احد میں ہے، حمد میں ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے۔
کامیابی قدم چومے تو دولت و شہرت کا پہلا شکار وہ خود ہوتا ہے۔ زر زمین کی فرمائش پر پہلے خود قربان ہوتا ہے۔ پھراپنی روح کو نفس بدن کا قیدی بنا دیتا ہے۔ ظاہری تبدیلیوں سے ارواح انسان کو نفس کی غلامی کا درس دیتا ہے۔ اس کی نشانیوں میں ایک نشانی ضرورتوں کا بڑھ کر آسائش بن جانا ہے۔ معاشرے کے لئے وہ آلائش بن جاتی ہیں۔ پھر ہر ایک کی وہ فرمائش بن جاتی ہے۔
انسان کے لئے پیغام انسانیت ہے، پیغام آدمیت ہے۔آدمی نے مادیت کا پیغام خود سے پہنچانا شروع کر دیا ہے۔ جس کی اساس مادہ پرستی ہے۔ مادہ پرستی نفس کے درون قید خانہ کی بالکونی ہے۔ جہاں سے روح کی آمدورفت کی راہ میں دعوت گمراہی کا انتظام ہوتا ہے۔
وجود کو آلائشوں سے پاک رکھنے کے لئے آزادی کی جنگ لڑی جاتی ہے جس سے انقلاب برپا ہوتا ہے۔ طوطی کی طرح خود کو فنا کر کے بقاء پائی جاتی ہے اور اس کے لئے نفس کے سوداگر سے آزادی کا مفہوم حاصل کرنا ہوتا ہے۔
قیدیوں کو دیکھ کر خوش نہیں ہوا جاتا بلکہ انہیں قید سے رہائی کا راستہ دکھایا جاتا ہے نا کہ سوداگر کے ہاتھ میں اپنی ہی آزادی سونپ دی جائے۔ملک آزاد ہوتے ہیں۔ جنگل آباد ہوتے ہیں۔ صرف طوطے قید ہوتے ہیں۔ ہاتھوں کی چوری جنہیں بادشاہ اور رانی سے بڑھ کر مٹھاس کا نشہ دیتی ہے اور دوسروں کو بھی اسی راستے کا مسافر بناتی ہے جس کی منزل قید ہو۔

تحریر : محمودالحق
 
Top