جوش طوفان کی آرزو

حسان خان

لائبریرین
پھر دل کو ہے جراحتِ پنہاں کی آرزو
یعنی کسی کی جنبشِ مژگاں کی آرزو
پھر چبھ رہے ہیں قلب میں غربت کے خار و خس
پھر ہے وطن کے سنبل و ریحاں کی آرزو
پھر ہے جمودِ شامِ بلا، وحشت آفریں
پھر ہے طلوعِ صبحِ درخشاں کی آرزو
پھر روح، شورِ زاغ و زغن سے ہے بے قرار
پھر دل کو ہے خروشِ ہزاراں کی آرزو
پھر ہے ہوائے شہرِ ملامت کا اشتیاق
پھر ہے سوادِ کوچۂ جاناں کی آرزو
پھر قیدِ عقل و ہوش سے گھبرا چکا ہے دل
پھر ہے جنونِ سلسلہ جنباں کی آرزو
پھر ہے طلسمِ عشوۂ ترکانہ کی تلاش
پھر ہے فریبِ وعدۂ جاناں کی آرزو
پھر نبضِ شوق میں ہے تپاں خونِ اضطراب
پھر جوئے سست رَو کو ہے طوفاں کی آرزو
پھر قلب میں ہے پہلوئے جاناں کی حسرتیں
پھر دوش پر ہے زلفِ پریشاں کی آرزو
پھر لے رہی ہے شدتِ وحشت سے کروٹیں
پائے طلب میں کوہ و بیاباں کی آرزو
پھر بخیہ ہائے چاکِ جگر کو ہے آج کل
اک شوخ کے تبسمِ پنہاں کی آرزو
پھر شعلہ زن ہے عصرِ تغافل گَزیدہ میں
ماضی کے التفاتِ فراواں کی آرزو
پھر سقف و بامِ گوشۂ خلوت پہ ہے محیط
بزمِ نشاط و سیرِ گلستاں کی آرزو
پھر مسندِ خیال پہ ہے گرمِ رستخیز
شمع و شراب و شعر و شبستاں کی آرزو
پھر جلوہ گر ہے منظرِ وہم و خیال پر
اک نوبہارِ فتنۂ دوراں کی آرزو
بیزار ہے سکون کی راتوں سے جانِ زار
آنکھوں کو پھر ہے خوابِ پریشاں کی آرزو
بے گریہ، خال و خط پہ ہے رنگِ فسردگی
رخ پر ہے آنسوؤں سے چراغاں کی آرزو
پھر کچھ دنوں سے دیدۂ گریانِ جوش میں
غلطاں ہے اُن کے گوشۂ داماں کی آرزو
(جوش ملیح آبادی)
۱۹۳۰ء
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب شراکت
بیزار ہے سکون کی راتوں سے جانِ زار
آنکھوں کو پھر ہے خوابِ پریشاں کی آرزو
 

طارق شاہ

محفلین
جوش صاحب کی کیا بات ہے!
یوں تو، تمام اشعار ہی خُوب ہیں
مگر مطلع یعنی کی باعث غضب ہے۔
تشکّر شریک لطف کرنے کا
بہت خوش رہیں
 
Top