محمد اظہر نذیر
محفلین
داستاں تو نہیں ہوں میں ہرگز
اک گُماں تو نہیں ہوں میں ہرگز
ڈھونڈتا ہے مجھے وہ خوابوں میں
پر وہاں تو نہیں ہوں میں ہرگز
ڈانٹئے گا تو شور کر دوں گا
بے زباں تو نہیں ہوں میں ہرگز
چلتے چلتے میں رُک سا جاتا ہوں
اب رواں تو نہیں ہوں میں ہرگز
سر کا سائیہ جو کہ رہے ہو مجھے
سائباں تو نہیں ہوں میں ہرگز
تُم پہ برسوں جو مہرباں اک دم
ناگہاں تو نہیں ہوں میں ہرگز
چوڑیاں تو نہیں پہن رکھیں
ناتواں تو نہیں ہوں میں ہرگز
کہ رہے ہو مجھے اُڑا دو گے
اک دھنواں تو نہیں ہوں میں ہرگز
تُم سے جانے کیوں پیار ہے اظہر
مہرباں تو نہیں ہوں میں ہرگز
اک گُماں تو نہیں ہوں میں ہرگز
ڈھونڈتا ہے مجھے وہ خوابوں میں
پر وہاں تو نہیں ہوں میں ہرگز
ڈانٹئے گا تو شور کر دوں گا
بے زباں تو نہیں ہوں میں ہرگز
چلتے چلتے میں رُک سا جاتا ہوں
اب رواں تو نہیں ہوں میں ہرگز
سر کا سائیہ جو کہ رہے ہو مجھے
سائباں تو نہیں ہوں میں ہرگز
تُم پہ برسوں جو مہرباں اک دم
ناگہاں تو نہیں ہوں میں ہرگز
چوڑیاں تو نہیں پہن رکھیں
ناتواں تو نہیں ہوں میں ہرگز
کہ رہے ہو مجھے اُڑا دو گے
اک دھنواں تو نہیں ہوں میں ہرگز
تُم سے جانے کیوں پیار ہے اظہر
مہرباں تو نہیں ہوں میں ہرگز