طُرق و سَلاسِل (قلندریہ حیدریہ و قلندریہ صدیقیہ )

الف نظامی

لائبریرین
طُرق و سَلاسِل​
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے چار سو اصحابِ صفہ نے طریقت کی تعلیم حاصل کی۔ ان میں سے اکثر صحابہ سے سلسلہ جاری ہوا، یہ تمام سلاسل جو اصحاب صفہ سے جاری ہوئے اطراف عالم میں پھیلے ہوئے ہیں۔ سب اہل طریقت خواہ وہ کسی بھی سلسلہ کے وسیلہ سے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے وابستہ ہوں اور منزل مقصود تک پہنچ کر انعامات ربی سے سرفراز ہو چکے ہوں ، قرآنی اصطلاح میں ان کا شمار صالحین میں ہے۔

اصحابِ صفہ کے علاوہ خلیفہ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بھی طریقت کا سلسلہ جاری ہے جو طریقہ صدیقیہ سلمانیہ کہلاتا ہے۔ حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے بھی طریقت کے سلسلے جاری ہوئے جو بتوسط حضرات حسنین رضی اللہ عنہما اور حضرت شیخ حسن بصری علیہ الرحمۃ و حضرت عبد العزیز مکی علیہ الرحمۃ اور بعض دیگر حضرات سے اطراف عالم میں پھیلے۔
سلسلہ صدیقہ کی ایک شاخ بتوسط حضرت بایزید بسطامی علیہ الرحمۃ ہند میں نقشبندیہ کے نام سے مشہور ہے جس کے متعدد خانوادے ہیں، ممالک اسلامیہ ایران ، عراق ، حجاز ، شام ، مصر ، ترکستان اور افریقہ میں سلسلہ ء صدیقیہ کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے طریقت میں بہت لوگ فیضیاب ہوئے مگر سلسلہ حضرت سلمان فارسی سے جاری ہوا ۔ حضرت آقائے قلندراں پیشوائے ابدالاں خادمِ خاص حضرت رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم موذن باذن اللہ بلال حبشی رضی اللہ عنہ سے نسبت قلندریہ صدیقیہ حاصل تھی اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے حضرت سعید حبشی قدس سرہ فیضیاب ہوئے۔ جو حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ سے نسبت قلندریہ حیدریہ میں بھی شرف یاب ہوئے تھے اور جن سے دنیائے اسلام میں روحانیت کی روشنی پھیلی۔

منقول ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ پر " ھو اللہُ احد " کے اسرار منکشف ہوئے تھے۔

تجلیات اسماء کا انکشاف اصحاب طریقت کو ہوتا ہے اور تاثیرات اسما کا مشاہدہ اصحاب معرفت کو ہوتا ہے۔
اصحاب طریقت جب مجاہدہ میں مشغول ہوتے ہیں۔ اسماء حسنی کی تجلیات متجلی ہوتی ہیں۔ اسم اعظم اللہ کی تجلی میں ایک ایک اسم کی تجلی جلوہ افروز ہوتی ہے۔ سب سے آخر میں جب اسم قیوم کی تجلی ہوتی ہے تو روشنی قلب میں قائم ہو جاتی ہے۔

معرفت سے مراد ہے اسماء حسنی کا عرفان یعنی اسماء کے خواص کو پہچاننا اور "حقیقت" سے اسماء کی تاثیرات کا مشاہدہ مراد ہے۔

خواصِ اسماء کا پورا علم تو محال ہے کیونکہ یہ اسرارِ الہی ہیں۔

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو مقام قلندری حاصل تھا وہ مستجاب الدعوات کے درجہ تک پہنچے تھے اور ولی اللہ کے مرتبہ پر فائز تھے اور کیوں نہ ہوتےحضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادمِ خاص اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فیض یافتہ تھے۔

حضرت سعید حبشی قدس سرہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے نسبتِ قلندریہ صدیقیہ میں مشرف ہوئے تھے اور حضرت سیدنا امام حسن سے بھی نسبتِ قلندریہ حیدریہ میں فیضاب تھے۔

کوئی مانے یا نہ مانے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی سے جو تعلق حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو تھا۔ وہ کسی کو بھی نہ تھا ، صحیح معنوں میں یہی دو ہستیاں مسندِ خلافت و امامت کی اہل و مستحق تھیں اور ان ہی دو مبارک ہستیوں سے وہ نسبت وابستہ ہے جسے قلندری کہتے ہیں۔

قلندری ایک نسبت ہے جو بتوسط حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بندے کو اپنے رب سے قریب کر کے مقامِ رضا تک پہنچا دیتی ہے۔ اس کی حقیقت کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں کہ یہ قال نہیں حال ہے۔

معراج کی شب یہ نعمتِ خاص عطا ہوئی تھی ، سدرۃ المنتہی پر جب رویت آیاتِ کبری ہوئی۔ اسرار اسماء الہی سدرہ پر چھائے ہوئے تھے۔ نگاہ بہکی نہ حد سے بڑھی۔ تاثیراتِ اسماء کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔ بعد معراج حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اُس نعمتِ عظمی یعنی برکاتِ اسماء حسنی سے حضرت سیدنا ابابکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو مشرف فرمایا۔

اس نسبتِ عُلیا میں حضرت ابابکر صدیق رضی اللہ عنہ سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ وابستہ ہوئے۔ اور حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے حضرات حسنین رضی اللہ عنہما شرف یاب ہوئے۔

حضرت سعید حبشی قدس سرہ کو حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ سے فیض حاصل ہو کر سلسلہ ء قلندریہ صدیقیہ جاری ہوا جس کی شاخیں شام و حبش اور مصر و حجاز میں پھیلی ہوئی ہیں۔

سلسلہ قلندریہ حیدریہ حضرت سید الشہدا امام الاولیا حسین رضی اللہ عنہ سے جاری ہوا جس کی شاخیں دُنیائے اسلام میں پھیلی ہیں۔

ساری دنیا کے حیدری قلندر سب حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے وابستہ ہیں۔ صدیقی قلندر بھی بواسطہ ء حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے وابستہ ہیں۔ گویا جملہ قلندر نسبتِ علوی ہی رکھتے ہیں۔

تعلیمات قلندریہ:
طریقہ قلندریہ میں داخل ہونے کے لیے چھ باتیں ضروری ہیں۔ اگر ان میں سے ایک بات بھی ناقص ہوگی تو منزل مقصود تک پہنچنا محال ہے:-
عقائد صحیحہ
اعمال صالحہ
اخلاق حمیدہ
معاملات پسندیدہ
اطاعتِ مرشد
صبر و استقلال

بحوالہ: کشکول قلندری ، حضرت سید اسد الرحمن قدسی کے ملفوظات و ارشادات ، مرتبہ سید زمرد حسین شاہ جیلانی ، صفحہ 42
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
قلندروں کی تین اقسام ہیں:
مہری
قہری
دہری

قلندران مہری بستیوں اور آبادیوں سے قریب اپنا تکیہ یا دائرہ قائم کر کے مقیم ہو جاتے ہیں۔ رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری ہوتا ہے۔ خلق خدا فیض پاتی ہے۔ ان میں بعض متاہل ہوتے ہیں اور بعض مجردانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان ہی حضرات میں سے بعض اہل ارشاد ہوتے ہیں۔ بعض اہل خدمات۔ کوئی قطب ہوتا ہے ، کوئی غوث۔ انتظامیہ امور قطب سے متعلق ہوتے ہیں اور عدلیہ کا تعلق غوث سے ہوتا ہے۔

قلندرانِ قہری جنگلوں ، پہاڑوں اور چشموں پر سنسان اور ویران مگر پُرفضا مقاموں میں اپنا زاویہ بناتے ہیں۔ ان حضرات تک عوام کی رسائی نہیں ہوتی۔ عسکری تنظیم اور دفاعی امور ان حضرات سے متعلق ہوتے ہیں۔ بعض اپنی جگہ مقیم رہتے ہیں۔ بعض اپنی حدودِ مقررہ میں گشت کرتے ہیں۔ اوتاد اور ابدال ان ہی حضرات میں سے ہوتے ہیں۔ یہ حضرات ازدواجی زندگی سے قطعا دور رہتے ہیں۔

قلندران دہری کسی جگہ مستقل قیام نہیں کرتے۔ ہمیشہ گشت و گرداوری میں رہتے ہیں۔ انتظام دُنیا کے بعض کام ان کے سپرد ہوتے ہیں۔ بڑے صاحب کمال ، صاحب تصرف ، صاحب کرامت ، صاحب خوارقِ عادات اور بڑے بلند پایہ اولیاء اللہ ہوتے ہیں۔ ان ہی حضرات میں سے کوئی ایک فرد قلندر اعظم ہوتا ہے جو مستجاب الدعوات کے درجہ اور مرتبہ پر فائز ہو کر خضر وقت کہلاتا ہے۔

طریقت کی طرح قلندرانہ مسلک عام نہیں ، اگرچہ طریقت کے لئے بھی ذوقِ سلیم اور طلب صادق شرط ہے۔

بحوالہ: کشکول قلندری ، حضرت سید اسد الرحمن قدسی کے ملفوظات و ارشادات ، مرتبہ سید زمرد حسین شاہ جیلانی ، صفحہ 57
 

الف نظامی

لائبریرین
مقام صدق اور صدیقین :
نسبت یا جذبہ وجدانی درحقیقت ایک رحمت ہے جس کو یہ چیز القا ہوتی ہے اُسے اسماء حُسنی سے بے پناہ محبت ہو جاتی ہے۔ پھر جب وہ اسماء پاک کی تسبیحات پڑھتا ہے اور نظر میں نقش مبارک اللہ جماتا ہے تو معارف و حقائق کا ایک بحر بیکراں سامنے آکر جوش زن ہوتا ہے جس میں سے گزر کر اُس مقام عالی تک رسائی ہوتی ہے جسے صدق یا قلندری کہتے ہیں۔
مقام صدق یا مرتبہ قلندری پر فائز ہو کر زمرہ ء صدیقین میں شمولیت نصیب ہوتی ہے اور نعمتِ حق الیقین کی تصدیق و تکمیل ہو کر انعام یافتوں میں شمار ہوتا ہے۔
بحوالہ: کشکول قلندری ، حضرت سید اسد الرحمن قدسی کے ملفوظات و ارشادات ، مرتبہ سید زمرد حسین شاہ جیلانی ، صفحہ 70
 
Top