فاخر
محفلین
ظریف ِ اعظم اسرارجامعیؔ
فخر ِ عظیم آباد’تھے ‘اسرارجامعی !
أبو حمدان فاخرؔ
آخر وہ وقت موعودآہی گیا ، جو ہر ذی روح کیلئے مقرر ہے ۔ اور یہ موت ہی تو ہے ، جس سے کسی جاندار نے انکار نہیں کیا،گرچہ خالق کا انکار ایک بار نہیں ؛بلکہ ہر بار کیا ہے ؛لیکن خالق کی پیدا کردہ موت سے کسی کو جائے فرار نہیں۔ وہ شخص جس نے کئی بار اپنی موت کے متعلق جھوٹی خبروں کی تردید کی ، آج اس کی خاموشی اس کوموت کی تصدیق کرتی ہے کہ واقعی اسرار جامعی ؔ ہم میں نہ رہے (انا للہ وانا الیہ راجعون)۔ان کا انتقال آج بروز سنیچر 4 اپریل 2020 کے دن دہلی میں ہوگیا ۔
زمانہ کی ستم ظریفی کہہ لیں کہ جس شخص کی شاعری سننے کیلئے لوگوں نے عظیم آباد کی سرزمین میں شرطیہ احتجاج کیا تھاکہ جب تک اسرارؔ جامعی مشاعرہ میں شریک نہ ہوں گے، اس وقت تک ہم کسی شاعر کو ہرگز نہیں سنیں گے ، لیکن ہائے افسوس ! آج ان کی تدفین کے موقعہ پر لاک ڈاؤن کے باعث بمشکل ۱۰؍ سے زائد افراد جمع ہوئے ہوں گے۔سب کو ہنسانے والااور چہروںپر مسکان بکھیردینے والا زمانے سے اس قدر نالاں ہواکہ :’ چپ چاپ ہزاروں منوں کے مٹی کی چادر اوڑھ کر خود کو دنیا سے چھپالیا‘۔ جنہوں نے عظیم آباد کی دھرتی کو اپنی جولان گاہ بنایا تھا، انہوں نے بے بسی اور قابلِ رحم حالت میں اوکھلا ، نئی دہلی کو اپنا دائمی مستقر بنالیا۔ تغمدہ اللہ بغفرانہ ۔اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے ، ڈاکٹر عبدالقادر شمس اور ان کے بچوں کو ، جنہوں نے اس وقت انہیں اپنا سمجھا تھا، اور ان کے ہر درد اوررنج میں شریک ہوئے ۔تدفین کے فرائض بھی یہی باہمت اور قدرشناس انجام دے رہے ہیں ۔ زمانہ کی بے حسی اور بے مروتی کے صرف یہی شکار نہیں ہوئے ؛بلکہ کئی شاعر اور ادیب اس کے شکار ہوئے ہیں ، حالیہ دنوں اظہاراثرؔبھی اسی ستم ظریفی کے شکار ہوکراللہ کے پیارے ہوگئے ۔اسرار جامعی ؔ کے استاد واہی ؔ نے جب ’جشن جمیل ‘ کے موقعہ پر پڑھی گئی نظم سنی تو ایک طویل نظم ان کے استقبال میں کہا تھا ، جس کا پہلا مصرعہ تھا :’فخر ِ عظیم آباد ہیں اسرار جامعی ‘‘ راقم نے تھوڑی سے ترمیم کرکے ’ہیں ‘‘ کی جگہ ’’تھے‘‘ کیا ہے ۔
اسرارجامعیؔ کا بس نام سنا ہے ، لیکن کبھی شرف زیارت حاصل نہ ہوسکی ،راقم یہی سمجھتا رہا کہ ’’اسرارؔ جامعی نام کے شاعر بہت پہلے اللہ کے پیارے ہوگئے ہیں، لیکن اس گماں کو بدگمانی سمجھنا پڑی کہ جن کے بارے میں یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ کب کے اللہ کے پیارے ہوگئے، ان کا آج انتقال ہوا ہے ۔ اخبار و رسائل میں ان کا نام پڑھا ، چونکہ’ ظرافت‘ سے میرا کوئی طبعی میلان نہیں ہے ؛ اس لیے بس دو چارمصرعوں پر سرسری نظر ڈال لی ، تھوڑی دیر محظوظ ہوئے ،پھر ورق پلٹ دیا ۔ اسرارؔ جامعی کی پیدائش مردم خیز سرزمین بہارکے معروف ضلع ’’گیا ‘‘ میں ہوئی تھی۔ان کی ولادت نانیہال میں ہوئی ، نانیہال کا نام ’’نظام پور ‘‘،جب کہ آبائی گاؤں’ شاہو بگہہ ‘ہے ۔ جہاں سے معروف و مشہور شخصیات کا تعلق رہا ہے ۔ان کے عم محترم پنچ کے مدیر تھے ، جنہیں دنیا علامہ فضل حق آزاد ؔ عظیم آبادی کے نام سے جانتی ہے ۔
ابتدائی تعلیم وطن میں ہی حاصل کیا ، اعلیٰ تعلیم کیلئے عالم انتخاب شہر دہلی میں واقع عظیم دانش گاہ ’جامعہ ملیہ اسلامیہ ‘ کو خاندان کے بزرگوں کے حسب ِ ایماء منتخب کیا ؛کیوں کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام میں ان کے جدامجدکی ’عملی دلچسپی ‘ شامل تھی۔ ان کے والد ماجد خودجامعہ ملیہ اسلامیہ کے فیض یافتگان میں تھے ، اورجامعہ کے کئی اساتذہ ان کے والد محترم کے ہم جماعت رہ چکے تھے ۔ اس تعلق کے باعث ان کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بورڈنگ ہاؤس میں داخل کرادیا گیا ، جہاں ان کے اساتذہ میں ڈاکٹر ذاکر حسین ، رشیدنعمانی جیسے لوگ قدآور ہستیاں تھیں ۔ جامعہ میں تعلیم کے بعدوالد کی معیت میں پٹنہ آگئے ، پٹنہ ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی ، کرتھا ہائی اسکول گیا سے ، ہائی اسکول پاس کیا ، بعد ازاں رانچی یونیورسٹی سے بی ایس سی کیا ۔ ڈاکٹر ذاکر حسین جو ا س وقت بہار کے گورنر تھے ، اور اسرار جامعی کو عزیز رکھتے تھے ، نے ان کو ’برلا ا نسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ‘‘ میں داخل کرایا ، لیکن والد کی موت سے باعث وہ دل برداشتہ ہوگئے ، اور انجینئر بن نہ سکے‘۔
والد کی موت کے بعدوہ آبائی گاؤں آگئے ، اور یہی آبائی جائیداد کی دیکھ ریکھ میں لگ گئے ؛لیکن اپنی ادبی سرگرمیوں سے ناطہ نہیں توڑا؛بلکہ کسی نہ کسی طرح ان سرگرمیوں سے تعلق قائم ہی رکھا۔انہوں نے شاعری کا آغاز بچپنے سے کی تھی، ان کی نظمیں ’’پیام ِ تعلیم ، دہلی ‘‘ میں شائع بھی ہونے لگی تھیں ، ان کی طبیعت میں ظرافت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ پھر باضابطہ طور پر انہوں نے اسرار جامعی کے قلمی نام سے 1957سے باضابطہ مزاحیہ شاعری کا آغاز کردیا ۔ انہوں نے شفیع الدین نیرؔ اور اردو کے ممتاز ظرافت نگار رضا نقوی واہی ؔ سے شرف ِ تلمذتہہ کیا ۔اسرارجامعی دبستانِ عظیم آبادکی انمول د ریافت ہیں ۔جو یکایک دبستانِ عظیم آباد کی کان سے یکایک دریافت ہوئے اور اپنی شخصیت سے ہر کسی کو متأثر کردیا ۔ایک مرتبہ پٹنہ میں ’’جشن جمیل ‘‘ منعقد کیا گیا ، جو علامہ جمیل مظہری کی ادبی خدمات کے اعزاز میں تھا۔عوام کے اصرار پر اسرار جامعی بھی بلائے گئے ، ان کا مقصد شاعری سنانا نہیں ؛بلکہ منتظمین کو ہوٹ کرنا تھا ، اسرار جامعی کے طنز کا نشانہ وہ ادبی رجحان تھا ، جس میں شعراء و ادبا ء کی حوصلہ افزائی کے بجائے ’’غیرادبی ‘‘ شخصیات کی حوصلہ افزائی اور جیب بھرائی کی جاتی ہے ۔ یہ سچ ہے کہ جمیل مظہری نہ تو ا س قسم کے شاعر تھے اور نہ ان کی ادبی خدمات ’مبہم ‘ تھی،لیکن اسرارؔ جامعی کے طنزکا نشانہ جمیل مظہری اور ان کی ادبی خدمات کے صلہ میں منعقد ’’جشن جمیل ‘‘ بھی محفوظ نہ رہ سکا ۔ جب اسرارؔ جامعی نے یہ شعر پڑھا ؎
ہر ذرہ چمکنے کی سیاست میں ہے مصروف
یہ جشن جمیلؔ آپ کا انعام نہیں ہے
یہ شعر سن کر منتظمین میں بے چینی اور خاموشی کا پیدا ہونا فطری تھا، منتظمین بپھرگئے ، لیکن اسرارؔ جامعی نے نتائج کی پرواہ کئے بغیر یہ شعر داغ دیا ؎
بیچو نہ اسے، مصر کے بازار میں لوگو!
اس عظمت ِ یوسف کا کوئی دام نہیں ہے !
جب یہ شعر منتظمین کے کانوں میں پڑا ، تو بے ساختہ پھول مالا لئے بپھرے ہوئے لوگوں کا ہجوم اُن پر ٹوٹ پڑا ،بلکہ جو پھول اور مالے جمیل مظہری کے گلے میں پڑے تھے ، اسی پھول مالے کو اسرارؔ جامعی کے گلے میں ڈال کر کندھوں پر اٹھالیا۔ سلطان اخترؔ کے مطابق اسرارؔ جامعی’’جشن ِ جمیل ‘‘ کے ہیرو تھے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ راتوں رات اسرارؔ جامعی کی شہرت اوجِ ثریا سے محو ِ گفتگو ہوگئی ۔اگلے ہی دن ایک مشاعرہ تھا،جس میں سامعین نے اسرارؔجامعی کو مدعو کئے جانے کیلئے ’احتجاج ‘ کیا کہ جب تک اسرار ؔ جامعی نہ ہوں گے ، ہم کسی شاعر کا کلام نہیں سنیں گے ۔ مشاعرہ انتظامیہ کو اسرارؔ جامعی کو بہ دقت تلاش کرکے لانا پڑا ۔ان کی ظریفانہ شاعری کا سکہ یوں رائج ہوا ہے کہ ہر مشاعرے کی جان سمجھے جانے لگے ، کوئی ایسا مشاعرہ نہ تھا، جو ان کی شرکت سے خالی ہو، اور وہ کامیاب تصور کرلیا جائے۔ انہوں نے مزاحیہ صحافت پر مبنی شمارہ ’’چٹنی ‘‘ اور ’’پوسٹ مارٹم‘‘ بھی نکالا ، حکومت وقت کیخلاف بھی انہیں نے اپنے طنز کے تیر چلائے ، اور اس میںبے حد کامیاب بھی ہوئے، ڈاٹا نظم کے ذریعہ اسرارؔ جامعی نے وزیر داخلہ ایس بی چوان کو اس قانون میں نقص کے تسلیم کرنے پر راضی کرایا۔
راجیو گاندھی کے زمانے میں اسرارؔ جامعی نے وزیر اعظم راجیو گاندھی کیخلاف ’ہجو‘ لکھ دی ، مقامی لیڈران نے اسرارؔ جامعی کو یہ دھمکیاں بھی دیں کہ وہ سلاخوں کے پیچھے کئے جاسکتے ہیں ، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ راجیو گاندھی نے اسرارؔ جامعی کو دہلی مدعوکیا ، اور اپنے یہاں تین دن مہمان رکھا ، لطف تو یہ ہے کہ راجیو گاندھی نے اسرارؔ کی زبانی’ ہجویہ نظم‘ کئی بار سنی ۔ اسرارؔ جامعی نے چندر شیکھر اور وی پی نرسمہاراؤ کو بھی نہیں بخشا ۔نرسمہاراؤ کو انہوں نے اپنے ’’پوسٹ مارٹم ‘‘ اخبار کی ایک کاپی پیش کی ، جس کے صفحۂ اول پر خطرے کی نشان کی طرح کا ایک کارٹون بنایا گیا تھا ، جس میں وزیر اعظم نرسمہاراؤ کی تصویرکو دو ہڈیوں کے وسط میں دکھایا گیا تھا، اور اس کے نیچے طنز آمیز فقرے بھی درج تھے ۔ جب یہ کاپی نرسمہاراؤ کو پیش کی گئی تو نرسمہاراؤ نے اس پر نظر ڈالی اور مسکرادیئے ، مزے کی بات یہ ہے کہ نرسمہاراؤ نے اسی کاپی کے ساتھ اسرار جامعی کے ساتھ فوٹو بھی کھنچوائی!۔اسی طرح ’’ٹاڈا‘‘ کیخلاف اسرارؔ جامعی نے بڑی دلیری اور آئین جواں مردی کے ساتھ وزیر داخلہ ایس بی چوان کو ڈاٹا کے آمرانہ شقوں کو تسلیم کرنے پر راضی کرایا۔ رمضان کی افطار پارٹی میں ہر شخص ایس بی چوان سے گلے مل رہا تھا،لیکن اسرارؔ جامعی بڑی دلیری کے ساتھ وزیرداخلہ کی کرسی تک پہنچے اور مؤثر لہجہ میں کہا کہ :’ جناب عالی! آپ وزیر داخلہ ہیں ، پولیس فورس کی کشتی کے ناخدا، قانون اور نظم کے آقائے نامدار ، میں ایک مظلوم اردو شاعر ہوں ، ایک فریادی بن کر آیا ہوں ، آپ کو میری فریاد سننی پڑے گی ، یہ آپ کی ڈیوٹی ہے ‘‘۔اس بے باکانہ جملے پر تنخواہ دار نوکر شاہ دانت پیستے رہ گئے ، وزیرداخلہ نے جواباً زور دار آواز میں کہا کہ :’ ہاں ! ہاں ! کہئے کہئے ! ‘‘اسرارؔ جامعی نے اس اجازت پر ایک قطعہ بہ عنوان ’’بھائی چارہ پڑھا ؎
کیا پتے کی بات کہہ دی ، جامعی ا سرار ؔ نے
کیوں ادا کرنا پڑا ہے ، اس کا کفارہ ہمیں
٭٭
بھائی چارے کا یہ مطلب اب نہ ہونا چاہیے
ہم تو ان کو بھائی سمجھیں ، اور وہ ’’چارہ ‘‘ ہمیں !
اس قطعہ نے وزیرداخلہ سمیت تمام حاضرین پر سکتہ طاری کردیا، تمام لوگ دم بخود مبہوت ہوکر رہ گئے۔ اسرارؔ جامعی نے ’’میری فریاد سنئے ‘‘ کہتے ہوئے ’’ٹاڈا‘‘نظم پڑھ ڈالی ، جس کے کئی اشعار قیامت خیز تھے ۔ خیال رہے کہ ٹاڈا قانون کے خلاف سب سے پہلی یہ صدائے احتجاج تھی ، جو ایک غریب شاعر کے ذریعہ اقتدار وقت کے سامنے بلند کی گئی تھی ۔ وزیر داخلہ نے کچھ جز بز ، کچھ محظوظ کی کیفیت میں کہا کہ :’ ہاں!ٹاڈا کا غلط استعمال ہورہا ہے ، میں اس کی تحقیقات کراؤں گا ‘ ۔ اگلی صبح ملک کے کئی اخبارات میں اس تعلق سے یہ خبر شائع ہوئی کہ :’ اردو کے طنزیہ شاعر اسرارؔ جامعی نے وزیر داخلہ ایس بی چوان کوٹاڈا کے خلاف ایک نظم سنائی ، جس کے جواب میں انہوں نے ٹاڈا کے غلط استعمال کی بات مان لی ‘‘۔
اسرارجامعی کی ظریفانہ شاعری کیا تھی اور اس کی ہیئت و ماہیت کیا ہے ، اس تعلق سے بندۂ عاجزسردست کسی تبصرہ کا اہل نہیں؛کیوں کہ میں نے جس طرح کل تک ان کانام سنا تھا ، اسی طرح اب بھی ان کا نام ہی ’سن ‘اور ’پڑھ ‘رہا ہوں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ظریفانہ شاعری میری دلچسپی کا موضوع نہیں ہے ، اور نہ ہی اس ’باب‘کے متعلق کبھی غورکیا، گرچہ اکبرالٰہ آبادی کی ظرافت کا حددرجہ احترام کرتا ہوں ، تاہم اِن (اکبر الٰہ آبادی) کے علاوہ دوسرے مزاحیہ شاعر کو نہ کبھی پڑھا اور نہ کبھی اِن شاعروں کے کلام پر غور کیا ۔ بمشکل کبھی کبھار پڑھ لیا ، مسکرادیئے ، اور بات ختم ۔ اسرارجامعی کی شخصیت اور ان ظریفانہ شاعری کے متعلق کئی ناقدین نے اپنی اپنی بے لاگ رائے رکھی ہے۔ مناسب ہے کہ ا نہیں کے الفاظ میں من و عن درج کردیئے جائیں ۔ ’’شاعر ِ اعظم ‘‘ میں احمد جمال پاشا لکھتے ہیں:
’’اسرار ؔ جامعی دور حاضر کے طنزیہ شعراء کے صف اول میں متمکن نظر آتے ہیں ، ان کی ظرافت میں بلا کی آمد ہے ، نشتریت ہے اور طنز کی رونمائیاں ہیں ۔ طنزیہ شاعری مین سماجی تنقید اور تہذیبی بصیرت کے ساتھ ساتھ ادبیب اور لہجہ کی شرافت ان کے یہاں نمایاں ہے ، یہی وہ وصف ہے جو طنز کو ادب کا درجہ عطا کردیتا ہے او ر ادب میں پائیداری اور کلاسیکیت کا ضامن ہے ‘‘۔ (صفحہ ۳۴-۳۳)
وہیں پروفیسر پروفیسر محمد حسن لکھتے ہیںکہ :’
’’بے شک اردو ادب کا دامن طنزو مزاح کے اعلیٰ نمونوں سے بھرا ہوا ہے ،مگر دورِ حاضر میں اسرارؔ جامعی کی تخلیقات نے اسے وسیع تر کیا ہے ، ادھر جو طنز و مزاح کی تمام تر توجہ نثر کی طرف ہوگئی تھی ، ، اسے پھر نظم کا پیرانہ بخشنے کے سلسلے میں ان کا کارنامہ قابلِ قدر ہے ، ان کے طنز و مزاح میں محض ہنسی اور قہقہوں کی کھنک ہی نہیں ہے ، انسانی زندگی کی اونچ نیچ پر بھی نگاہ ہے ۔ طنزو مزاح نہایت نازک صنف ہے ، اسرارؔ جامعی نے اسے پوری نزاکت اور لطافت کے ساتھ برتا ہے ۔ ان کے ہرشعر پر ان کے اپنے دور کی معاشرت کی اور اس کی ناہمواری کی مہریں ثبت ہیں ، اور اسی کے سا تھ ان کی اپنی سلاست ِ طبع ان ناہمواریوں پر نشان لگاتی جاتی ہے ، مگر اس طرح کہ اس کی ساری ناگواریوں کی تلخی محض خندہ زیب لب بن کر رہ جاتی ہے۔ دورِ حاضر میں جو خلا ء پیدا ہوا تھا ، اسے اسرارؔ جامعی کی شاعری نے پر کیا ہے اور اس انداز سے پرُ کیا ہے کہ اس میں رشید احمد صدیقی اور مشتاق احمد یوسفی ؔ کے نثری طنز و مزاح کی طرفگی اور نادرہ کاری میں جابجا در آئی ہے ۔ اس لحاظ سے اس خشک اور بے ہنگم دور میں اسرارؔ جامعی کا کلام تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح فرحت بخش ہے ‘‘ ( ص ۸)
ان عبارتوں کے بعدیہ بآسانی یہ محسوس کیا جاسکتا ہے کہ :’ اسرارِ جامعی نے طنز و ظرافت کا جو میدان قائم کیا تھا ، اور اس میں گل بوٹے سجائے تھے ، یہ ان کے ذاتی اجتہاد کا نتیجہ تھا ، انہوں نے طنز وظرافت میں اکبر الٰہ آبادی کی گرچہ پیروی نہ کی ہو؛لیکن طنز کے ایسے نشتر چبھوئے کہ مخالف زیر ہو کر رہ گیا ۔ ان کی ظرافت سے طبیعت کو شاد کامی ملتی ہے ، وہیں اس طنز میں چھپی مقصدیت کا بھی آشکارا ہوتی ہے ، جو بیدار مغز قاری اور سامع کیلئے سبق ہی سبق ہے ۔ ان کی یادگار کے طور پر مجموعۂ کلام ’’شاعراعظم ‘‘ کے علاوہ ہزاروں کے تعداد میں وہ کلام ہیں ، جن کو انہوں نے از خود اپنے ہاتھوں سے لکھ کر زمانہ کی بے حسی سے نالاں ہوکر تعویذکی شکل میں لوگوں میں تقسیم کیا تھا، جو شخص چہرے مہرے سے پڑھا لکھا نظرآتا ، اسے اپنا قطعہ تھماکر خاموشی سے آگے بڑھ جاتے ۔ برسیبل تذکرہ مشہور اور تاریخی نظم ’’ٹاڈا‘‘ جوموجودہ وزیرداخلہ بی ایس چوان کو پڑھ کر سنائی تھی ، پیش ہے ؎
قانون کالا آیا ، ٹاڈا میں بند کردو
سرکار نے بنایا، ٹاڈا میں بند کردو
خفیہ پولیس کی بیوی شوہر سے کہہ رہی تھی
مرغا یہ کیوں نہ لایا ، ٹاڈا میں بند کردو
جب ہم پولس کے ڈر سے اک بم پلس میں بھاگے
داروغہ ٹرٹرایا، ٹاڈامیں بند کردو
کل شام وہ ہماری بیوی کو دیکھتے ہی
دھیرے سے مسکرایا، ، ٹاڈا میں بند کردو
وہ سر جھکائے دیکھو ، جو شخص جارہا ہے
اک بم کہیں چھپایا، ٹاڈا میں بند کردو
یہ دل میں سوچتا ہے دلی ّ کومیں ا ڑادوں
اک شخص نے بتایا، ٹاڈا میں بند کردو
ایک بم بلاسٹ کرنے کی دل میں اس نے ٹھانی
کشمیر سے ہے آیا ، ٹاڈا میں بند کردو
ممکن ہے آر ڈی ایکس سے بم بلاسٹ کرکے
سب کا کرے صفایا، ٹاڈا میں بند کردو
پی ایم سے لے کر سی ایم ، سی ایم سے لے کر ڈی ایم
ہر ایک نے بتایا، ٹاڈا میں بند کردو
بوڑھا ہو یا کہ بچہ ، بخشو نہیں کسی کو
قانون کا ہے سایہ ، ٹاڈا میں بند کردو
گر موچھوں والا کوئی پکڑائے تو نہ پکڑو
گر داڑھی والا آیا ، ٹاڈا میں بند کردو
جب لوگ سو رہے تھے اک فون اس کے گھر پر
ہے دوبئی سے آیا ، ، ٹاڈا میں بند کردو
احمد ہو نام جن کا ان سب کو جاکے پکڑو
داؤد ہوگا تایا ، ٹاڈا میں بند کردو
مسجد گرائی جس نے اس کو کبھی نہ پکڑو
نعرہ یہ کیوں لگایا ، ٹاڈا میں بند کردو
چشتی کے اس چمن میں ،اس رام کے وطن میں
راون کا راج آیا ، ٹاڈا میں بند کردو
طنز و مزح کے شاعر اسرارؔ جامعی نے
طنزاً یہ گیت گایا ، ٹاڈا میں بند کردو
٭٭٭٭
(اس مضمون کی ترتیب میں ان کے مجموعۂ کلام ’’شاعراعظم‘‘سے بھرپور استفادہ کیا گیا ہے)
ریختہ ڈاٹ کام پربھی یہ کتاب موجود ہے ، اہل ذوق لنک
اسرار جامعی | ریختہ
پر جاکر پوری کتاب کا مطالعہ کرسکتے ہیں ۔
فخر ِ عظیم آباد’تھے ‘اسرارجامعی !
أبو حمدان فاخرؔ
آخر وہ وقت موعودآہی گیا ، جو ہر ذی روح کیلئے مقرر ہے ۔ اور یہ موت ہی تو ہے ، جس سے کسی جاندار نے انکار نہیں کیا،گرچہ خالق کا انکار ایک بار نہیں ؛بلکہ ہر بار کیا ہے ؛لیکن خالق کی پیدا کردہ موت سے کسی کو جائے فرار نہیں۔ وہ شخص جس نے کئی بار اپنی موت کے متعلق جھوٹی خبروں کی تردید کی ، آج اس کی خاموشی اس کوموت کی تصدیق کرتی ہے کہ واقعی اسرار جامعی ؔ ہم میں نہ رہے (انا للہ وانا الیہ راجعون)۔ان کا انتقال آج بروز سنیچر 4 اپریل 2020 کے دن دہلی میں ہوگیا ۔
زمانہ کی ستم ظریفی کہہ لیں کہ جس شخص کی شاعری سننے کیلئے لوگوں نے عظیم آباد کی سرزمین میں شرطیہ احتجاج کیا تھاکہ جب تک اسرارؔ جامعی مشاعرہ میں شریک نہ ہوں گے، اس وقت تک ہم کسی شاعر کو ہرگز نہیں سنیں گے ، لیکن ہائے افسوس ! آج ان کی تدفین کے موقعہ پر لاک ڈاؤن کے باعث بمشکل ۱۰؍ سے زائد افراد جمع ہوئے ہوں گے۔سب کو ہنسانے والااور چہروںپر مسکان بکھیردینے والا زمانے سے اس قدر نالاں ہواکہ :’ چپ چاپ ہزاروں منوں کے مٹی کی چادر اوڑھ کر خود کو دنیا سے چھپالیا‘۔ جنہوں نے عظیم آباد کی دھرتی کو اپنی جولان گاہ بنایا تھا، انہوں نے بے بسی اور قابلِ رحم حالت میں اوکھلا ، نئی دہلی کو اپنا دائمی مستقر بنالیا۔ تغمدہ اللہ بغفرانہ ۔اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے ، ڈاکٹر عبدالقادر شمس اور ان کے بچوں کو ، جنہوں نے اس وقت انہیں اپنا سمجھا تھا، اور ان کے ہر درد اوررنج میں شریک ہوئے ۔تدفین کے فرائض بھی یہی باہمت اور قدرشناس انجام دے رہے ہیں ۔ زمانہ کی بے حسی اور بے مروتی کے صرف یہی شکار نہیں ہوئے ؛بلکہ کئی شاعر اور ادیب اس کے شکار ہوئے ہیں ، حالیہ دنوں اظہاراثرؔبھی اسی ستم ظریفی کے شکار ہوکراللہ کے پیارے ہوگئے ۔اسرار جامعی ؔ کے استاد واہی ؔ نے جب ’جشن جمیل ‘ کے موقعہ پر پڑھی گئی نظم سنی تو ایک طویل نظم ان کے استقبال میں کہا تھا ، جس کا پہلا مصرعہ تھا :’فخر ِ عظیم آباد ہیں اسرار جامعی ‘‘ راقم نے تھوڑی سے ترمیم کرکے ’ہیں ‘‘ کی جگہ ’’تھے‘‘ کیا ہے ۔
اسرارجامعیؔ کا بس نام سنا ہے ، لیکن کبھی شرف زیارت حاصل نہ ہوسکی ،راقم یہی سمجھتا رہا کہ ’’اسرارؔ جامعی نام کے شاعر بہت پہلے اللہ کے پیارے ہوگئے ہیں، لیکن اس گماں کو بدگمانی سمجھنا پڑی کہ جن کے بارے میں یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ کب کے اللہ کے پیارے ہوگئے، ان کا آج انتقال ہوا ہے ۔ اخبار و رسائل میں ان کا نام پڑھا ، چونکہ’ ظرافت‘ سے میرا کوئی طبعی میلان نہیں ہے ؛ اس لیے بس دو چارمصرعوں پر سرسری نظر ڈال لی ، تھوڑی دیر محظوظ ہوئے ،پھر ورق پلٹ دیا ۔ اسرارؔ جامعی کی پیدائش مردم خیز سرزمین بہارکے معروف ضلع ’’گیا ‘‘ میں ہوئی تھی۔ان کی ولادت نانیہال میں ہوئی ، نانیہال کا نام ’’نظام پور ‘‘،جب کہ آبائی گاؤں’ شاہو بگہہ ‘ہے ۔ جہاں سے معروف و مشہور شخصیات کا تعلق رہا ہے ۔ان کے عم محترم پنچ کے مدیر تھے ، جنہیں دنیا علامہ فضل حق آزاد ؔ عظیم آبادی کے نام سے جانتی ہے ۔
ابتدائی تعلیم وطن میں ہی حاصل کیا ، اعلیٰ تعلیم کیلئے عالم انتخاب شہر دہلی میں واقع عظیم دانش گاہ ’جامعہ ملیہ اسلامیہ ‘ کو خاندان کے بزرگوں کے حسب ِ ایماء منتخب کیا ؛کیوں کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام میں ان کے جدامجدکی ’عملی دلچسپی ‘ شامل تھی۔ ان کے والد ماجد خودجامعہ ملیہ اسلامیہ کے فیض یافتگان میں تھے ، اورجامعہ کے کئی اساتذہ ان کے والد محترم کے ہم جماعت رہ چکے تھے ۔ اس تعلق کے باعث ان کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بورڈنگ ہاؤس میں داخل کرادیا گیا ، جہاں ان کے اساتذہ میں ڈاکٹر ذاکر حسین ، رشیدنعمانی جیسے لوگ قدآور ہستیاں تھیں ۔ جامعہ میں تعلیم کے بعدوالد کی معیت میں پٹنہ آگئے ، پٹنہ ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی ، کرتھا ہائی اسکول گیا سے ، ہائی اسکول پاس کیا ، بعد ازاں رانچی یونیورسٹی سے بی ایس سی کیا ۔ ڈاکٹر ذاکر حسین جو ا س وقت بہار کے گورنر تھے ، اور اسرار جامعی کو عزیز رکھتے تھے ، نے ان کو ’برلا ا نسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ‘‘ میں داخل کرایا ، لیکن والد کی موت سے باعث وہ دل برداشتہ ہوگئے ، اور انجینئر بن نہ سکے‘۔
والد کی موت کے بعدوہ آبائی گاؤں آگئے ، اور یہی آبائی جائیداد کی دیکھ ریکھ میں لگ گئے ؛لیکن اپنی ادبی سرگرمیوں سے ناطہ نہیں توڑا؛بلکہ کسی نہ کسی طرح ان سرگرمیوں سے تعلق قائم ہی رکھا۔انہوں نے شاعری کا آغاز بچپنے سے کی تھی، ان کی نظمیں ’’پیام ِ تعلیم ، دہلی ‘‘ میں شائع بھی ہونے لگی تھیں ، ان کی طبیعت میں ظرافت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ پھر باضابطہ طور پر انہوں نے اسرار جامعی کے قلمی نام سے 1957سے باضابطہ مزاحیہ شاعری کا آغاز کردیا ۔ انہوں نے شفیع الدین نیرؔ اور اردو کے ممتاز ظرافت نگار رضا نقوی واہی ؔ سے شرف ِ تلمذتہہ کیا ۔اسرارجامعی دبستانِ عظیم آبادکی انمول د ریافت ہیں ۔جو یکایک دبستانِ عظیم آباد کی کان سے یکایک دریافت ہوئے اور اپنی شخصیت سے ہر کسی کو متأثر کردیا ۔ایک مرتبہ پٹنہ میں ’’جشن جمیل ‘‘ منعقد کیا گیا ، جو علامہ جمیل مظہری کی ادبی خدمات کے اعزاز میں تھا۔عوام کے اصرار پر اسرار جامعی بھی بلائے گئے ، ان کا مقصد شاعری سنانا نہیں ؛بلکہ منتظمین کو ہوٹ کرنا تھا ، اسرار جامعی کے طنز کا نشانہ وہ ادبی رجحان تھا ، جس میں شعراء و ادبا ء کی حوصلہ افزائی کے بجائے ’’غیرادبی ‘‘ شخصیات کی حوصلہ افزائی اور جیب بھرائی کی جاتی ہے ۔ یہ سچ ہے کہ جمیل مظہری نہ تو ا س قسم کے شاعر تھے اور نہ ان کی ادبی خدمات ’مبہم ‘ تھی،لیکن اسرارؔ جامعی کے طنزکا نشانہ جمیل مظہری اور ان کی ادبی خدمات کے صلہ میں منعقد ’’جشن جمیل ‘‘ بھی محفوظ نہ رہ سکا ۔ جب اسرارؔ جامعی نے یہ شعر پڑھا ؎
ہر ذرہ چمکنے کی سیاست میں ہے مصروف
یہ جشن جمیلؔ آپ کا انعام نہیں ہے
یہ شعر سن کر منتظمین میں بے چینی اور خاموشی کا پیدا ہونا فطری تھا، منتظمین بپھرگئے ، لیکن اسرارؔ جامعی نے نتائج کی پرواہ کئے بغیر یہ شعر داغ دیا ؎
بیچو نہ اسے، مصر کے بازار میں لوگو!
اس عظمت ِ یوسف کا کوئی دام نہیں ہے !
جب یہ شعر منتظمین کے کانوں میں پڑا ، تو بے ساختہ پھول مالا لئے بپھرے ہوئے لوگوں کا ہجوم اُن پر ٹوٹ پڑا ،بلکہ جو پھول اور مالے جمیل مظہری کے گلے میں پڑے تھے ، اسی پھول مالے کو اسرارؔ جامعی کے گلے میں ڈال کر کندھوں پر اٹھالیا۔ سلطان اخترؔ کے مطابق اسرارؔ جامعی’’جشن ِ جمیل ‘‘ کے ہیرو تھے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ راتوں رات اسرارؔ جامعی کی شہرت اوجِ ثریا سے محو ِ گفتگو ہوگئی ۔اگلے ہی دن ایک مشاعرہ تھا،جس میں سامعین نے اسرارؔجامعی کو مدعو کئے جانے کیلئے ’احتجاج ‘ کیا کہ جب تک اسرار ؔ جامعی نہ ہوں گے ، ہم کسی شاعر کا کلام نہیں سنیں گے ۔ مشاعرہ انتظامیہ کو اسرارؔ جامعی کو بہ دقت تلاش کرکے لانا پڑا ۔ان کی ظریفانہ شاعری کا سکہ یوں رائج ہوا ہے کہ ہر مشاعرے کی جان سمجھے جانے لگے ، کوئی ایسا مشاعرہ نہ تھا، جو ان کی شرکت سے خالی ہو، اور وہ کامیاب تصور کرلیا جائے۔ انہوں نے مزاحیہ صحافت پر مبنی شمارہ ’’چٹنی ‘‘ اور ’’پوسٹ مارٹم‘‘ بھی نکالا ، حکومت وقت کیخلاف بھی انہیں نے اپنے طنز کے تیر چلائے ، اور اس میںبے حد کامیاب بھی ہوئے، ڈاٹا نظم کے ذریعہ اسرارؔ جامعی نے وزیر داخلہ ایس بی چوان کو اس قانون میں نقص کے تسلیم کرنے پر راضی کرایا۔
راجیو گاندھی کے زمانے میں اسرارؔ جامعی نے وزیر اعظم راجیو گاندھی کیخلاف ’ہجو‘ لکھ دی ، مقامی لیڈران نے اسرارؔ جامعی کو یہ دھمکیاں بھی دیں کہ وہ سلاخوں کے پیچھے کئے جاسکتے ہیں ، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ راجیو گاندھی نے اسرارؔ جامعی کو دہلی مدعوکیا ، اور اپنے یہاں تین دن مہمان رکھا ، لطف تو یہ ہے کہ راجیو گاندھی نے اسرارؔ کی زبانی’ ہجویہ نظم‘ کئی بار سنی ۔ اسرارؔ جامعی نے چندر شیکھر اور وی پی نرسمہاراؤ کو بھی نہیں بخشا ۔نرسمہاراؤ کو انہوں نے اپنے ’’پوسٹ مارٹم ‘‘ اخبار کی ایک کاپی پیش کی ، جس کے صفحۂ اول پر خطرے کی نشان کی طرح کا ایک کارٹون بنایا گیا تھا ، جس میں وزیر اعظم نرسمہاراؤ کی تصویرکو دو ہڈیوں کے وسط میں دکھایا گیا تھا، اور اس کے نیچے طنز آمیز فقرے بھی درج تھے ۔ جب یہ کاپی نرسمہاراؤ کو پیش کی گئی تو نرسمہاراؤ نے اس پر نظر ڈالی اور مسکرادیئے ، مزے کی بات یہ ہے کہ نرسمہاراؤ نے اسی کاپی کے ساتھ اسرار جامعی کے ساتھ فوٹو بھی کھنچوائی!۔اسی طرح ’’ٹاڈا‘‘ کیخلاف اسرارؔ جامعی نے بڑی دلیری اور آئین جواں مردی کے ساتھ وزیر داخلہ ایس بی چوان کو ڈاٹا کے آمرانہ شقوں کو تسلیم کرنے پر راضی کرایا۔ رمضان کی افطار پارٹی میں ہر شخص ایس بی چوان سے گلے مل رہا تھا،لیکن اسرارؔ جامعی بڑی دلیری کے ساتھ وزیرداخلہ کی کرسی تک پہنچے اور مؤثر لہجہ میں کہا کہ :’ جناب عالی! آپ وزیر داخلہ ہیں ، پولیس فورس کی کشتی کے ناخدا، قانون اور نظم کے آقائے نامدار ، میں ایک مظلوم اردو شاعر ہوں ، ایک فریادی بن کر آیا ہوں ، آپ کو میری فریاد سننی پڑے گی ، یہ آپ کی ڈیوٹی ہے ‘‘۔اس بے باکانہ جملے پر تنخواہ دار نوکر شاہ دانت پیستے رہ گئے ، وزیرداخلہ نے جواباً زور دار آواز میں کہا کہ :’ ہاں ! ہاں ! کہئے کہئے ! ‘‘اسرارؔ جامعی نے اس اجازت پر ایک قطعہ بہ عنوان ’’بھائی چارہ پڑھا ؎
کیا پتے کی بات کہہ دی ، جامعی ا سرار ؔ نے
کیوں ادا کرنا پڑا ہے ، اس کا کفارہ ہمیں
٭٭
بھائی چارے کا یہ مطلب اب نہ ہونا چاہیے
ہم تو ان کو بھائی سمجھیں ، اور وہ ’’چارہ ‘‘ ہمیں !
اس قطعہ نے وزیرداخلہ سمیت تمام حاضرین پر سکتہ طاری کردیا، تمام لوگ دم بخود مبہوت ہوکر رہ گئے۔ اسرارؔ جامعی نے ’’میری فریاد سنئے ‘‘ کہتے ہوئے ’’ٹاڈا‘‘نظم پڑھ ڈالی ، جس کے کئی اشعار قیامت خیز تھے ۔ خیال رہے کہ ٹاڈا قانون کے خلاف سب سے پہلی یہ صدائے احتجاج تھی ، جو ایک غریب شاعر کے ذریعہ اقتدار وقت کے سامنے بلند کی گئی تھی ۔ وزیر داخلہ نے کچھ جز بز ، کچھ محظوظ کی کیفیت میں کہا کہ :’ ہاں!ٹاڈا کا غلط استعمال ہورہا ہے ، میں اس کی تحقیقات کراؤں گا ‘ ۔ اگلی صبح ملک کے کئی اخبارات میں اس تعلق سے یہ خبر شائع ہوئی کہ :’ اردو کے طنزیہ شاعر اسرارؔ جامعی نے وزیر داخلہ ایس بی چوان کوٹاڈا کے خلاف ایک نظم سنائی ، جس کے جواب میں انہوں نے ٹاڈا کے غلط استعمال کی بات مان لی ‘‘۔
اسرارجامعی کی ظریفانہ شاعری کیا تھی اور اس کی ہیئت و ماہیت کیا ہے ، اس تعلق سے بندۂ عاجزسردست کسی تبصرہ کا اہل نہیں؛کیوں کہ میں نے جس طرح کل تک ان کانام سنا تھا ، اسی طرح اب بھی ان کا نام ہی ’سن ‘اور ’پڑھ ‘رہا ہوں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ظریفانہ شاعری میری دلچسپی کا موضوع نہیں ہے ، اور نہ ہی اس ’باب‘کے متعلق کبھی غورکیا، گرچہ اکبرالٰہ آبادی کی ظرافت کا حددرجہ احترام کرتا ہوں ، تاہم اِن (اکبر الٰہ آبادی) کے علاوہ دوسرے مزاحیہ شاعر کو نہ کبھی پڑھا اور نہ کبھی اِن شاعروں کے کلام پر غور کیا ۔ بمشکل کبھی کبھار پڑھ لیا ، مسکرادیئے ، اور بات ختم ۔ اسرارجامعی کی شخصیت اور ان ظریفانہ شاعری کے متعلق کئی ناقدین نے اپنی اپنی بے لاگ رائے رکھی ہے۔ مناسب ہے کہ ا نہیں کے الفاظ میں من و عن درج کردیئے جائیں ۔ ’’شاعر ِ اعظم ‘‘ میں احمد جمال پاشا لکھتے ہیں:
’’اسرار ؔ جامعی دور حاضر کے طنزیہ شعراء کے صف اول میں متمکن نظر آتے ہیں ، ان کی ظرافت میں بلا کی آمد ہے ، نشتریت ہے اور طنز کی رونمائیاں ہیں ۔ طنزیہ شاعری مین سماجی تنقید اور تہذیبی بصیرت کے ساتھ ساتھ ادبیب اور لہجہ کی شرافت ان کے یہاں نمایاں ہے ، یہی وہ وصف ہے جو طنز کو ادب کا درجہ عطا کردیتا ہے او ر ادب میں پائیداری اور کلاسیکیت کا ضامن ہے ‘‘۔ (صفحہ ۳۴-۳۳)
وہیں پروفیسر پروفیسر محمد حسن لکھتے ہیںکہ :’
’’بے شک اردو ادب کا دامن طنزو مزاح کے اعلیٰ نمونوں سے بھرا ہوا ہے ،مگر دورِ حاضر میں اسرارؔ جامعی کی تخلیقات نے اسے وسیع تر کیا ہے ، ادھر جو طنز و مزاح کی تمام تر توجہ نثر کی طرف ہوگئی تھی ، ، اسے پھر نظم کا پیرانہ بخشنے کے سلسلے میں ان کا کارنامہ قابلِ قدر ہے ، ان کے طنز و مزاح میں محض ہنسی اور قہقہوں کی کھنک ہی نہیں ہے ، انسانی زندگی کی اونچ نیچ پر بھی نگاہ ہے ۔ طنزو مزاح نہایت نازک صنف ہے ، اسرارؔ جامعی نے اسے پوری نزاکت اور لطافت کے ساتھ برتا ہے ۔ ان کے ہرشعر پر ان کے اپنے دور کی معاشرت کی اور اس کی ناہمواری کی مہریں ثبت ہیں ، اور اسی کے سا تھ ان کی اپنی سلاست ِ طبع ان ناہمواریوں پر نشان لگاتی جاتی ہے ، مگر اس طرح کہ اس کی ساری ناگواریوں کی تلخی محض خندہ زیب لب بن کر رہ جاتی ہے۔ دورِ حاضر میں جو خلا ء پیدا ہوا تھا ، اسے اسرارؔ جامعی کی شاعری نے پر کیا ہے اور اس انداز سے پرُ کیا ہے کہ اس میں رشید احمد صدیقی اور مشتاق احمد یوسفی ؔ کے نثری طنز و مزاح کی طرفگی اور نادرہ کاری میں جابجا در آئی ہے ۔ اس لحاظ سے اس خشک اور بے ہنگم دور میں اسرارؔ جامعی کا کلام تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح فرحت بخش ہے ‘‘ ( ص ۸)
ان عبارتوں کے بعدیہ بآسانی یہ محسوس کیا جاسکتا ہے کہ :’ اسرارِ جامعی نے طنز و ظرافت کا جو میدان قائم کیا تھا ، اور اس میں گل بوٹے سجائے تھے ، یہ ان کے ذاتی اجتہاد کا نتیجہ تھا ، انہوں نے طنز وظرافت میں اکبر الٰہ آبادی کی گرچہ پیروی نہ کی ہو؛لیکن طنز کے ایسے نشتر چبھوئے کہ مخالف زیر ہو کر رہ گیا ۔ ان کی ظرافت سے طبیعت کو شاد کامی ملتی ہے ، وہیں اس طنز میں چھپی مقصدیت کا بھی آشکارا ہوتی ہے ، جو بیدار مغز قاری اور سامع کیلئے سبق ہی سبق ہے ۔ ان کی یادگار کے طور پر مجموعۂ کلام ’’شاعراعظم ‘‘ کے علاوہ ہزاروں کے تعداد میں وہ کلام ہیں ، جن کو انہوں نے از خود اپنے ہاتھوں سے لکھ کر زمانہ کی بے حسی سے نالاں ہوکر تعویذکی شکل میں لوگوں میں تقسیم کیا تھا، جو شخص چہرے مہرے سے پڑھا لکھا نظرآتا ، اسے اپنا قطعہ تھماکر خاموشی سے آگے بڑھ جاتے ۔ برسیبل تذکرہ مشہور اور تاریخی نظم ’’ٹاڈا‘‘ جوموجودہ وزیرداخلہ بی ایس چوان کو پڑھ کر سنائی تھی ، پیش ہے ؎
قانون کالا آیا ، ٹاڈا میں بند کردو
سرکار نے بنایا، ٹاڈا میں بند کردو
خفیہ پولیس کی بیوی شوہر سے کہہ رہی تھی
مرغا یہ کیوں نہ لایا ، ٹاڈا میں بند کردو
جب ہم پولس کے ڈر سے اک بم پلس میں بھاگے
داروغہ ٹرٹرایا، ٹاڈامیں بند کردو
کل شام وہ ہماری بیوی کو دیکھتے ہی
دھیرے سے مسکرایا، ، ٹاڈا میں بند کردو
وہ سر جھکائے دیکھو ، جو شخص جارہا ہے
اک بم کہیں چھپایا، ٹاڈا میں بند کردو
یہ دل میں سوچتا ہے دلی ّ کومیں ا ڑادوں
اک شخص نے بتایا، ٹاڈا میں بند کردو
ایک بم بلاسٹ کرنے کی دل میں اس نے ٹھانی
کشمیر سے ہے آیا ، ٹاڈا میں بند کردو
ممکن ہے آر ڈی ایکس سے بم بلاسٹ کرکے
سب کا کرے صفایا، ٹاڈا میں بند کردو
پی ایم سے لے کر سی ایم ، سی ایم سے لے کر ڈی ایم
ہر ایک نے بتایا، ٹاڈا میں بند کردو
بوڑھا ہو یا کہ بچہ ، بخشو نہیں کسی کو
قانون کا ہے سایہ ، ٹاڈا میں بند کردو
گر موچھوں والا کوئی پکڑائے تو نہ پکڑو
گر داڑھی والا آیا ، ٹاڈا میں بند کردو
جب لوگ سو رہے تھے اک فون اس کے گھر پر
ہے دوبئی سے آیا ، ، ٹاڈا میں بند کردو
احمد ہو نام جن کا ان سب کو جاکے پکڑو
داؤد ہوگا تایا ، ٹاڈا میں بند کردو
مسجد گرائی جس نے اس کو کبھی نہ پکڑو
نعرہ یہ کیوں لگایا ، ٹاڈا میں بند کردو
چشتی کے اس چمن میں ،اس رام کے وطن میں
راون کا راج آیا ، ٹاڈا میں بند کردو
طنز و مزح کے شاعر اسرارؔ جامعی نے
طنزاً یہ گیت گایا ، ٹاڈا میں بند کردو
٭٭٭٭
(اس مضمون کی ترتیب میں ان کے مجموعۂ کلام ’’شاعراعظم‘‘سے بھرپور استفادہ کیا گیا ہے)
ریختہ ڈاٹ کام پربھی یہ کتاب موجود ہے ، اہل ذوق لنک
اسرار جامعی | ریختہ
پر جاکر پوری کتاب کا مطالعہ کرسکتے ہیں ۔
آخری تدوین: