طارق شاہ
محفلین
غزل
ظہوراللہ خان نوا
گردش نصیب ہُوں میں اُس چشمِ پُرفسوں کا
دَورِ فلک بھی جس کے فتنے سے بر نہ آیا
دیوانۂ پری کو کب اُنس اِنس سے ہو !
جو اُس کے در پہ بیٹھا ، پھراپنے گھر نہ آیا
خُوبانِ جَور پیشہ گُزرے بہت ہیں، لیکن
تجھ سا کوئی جہاں میں ، بیداد گر نہ آیا
دیوار سے پٹک کر سر مر گئے ہزاروں
پر تُو وہ سنگ دل ہے ، بیرونِ در نہ آیا
غمازیوں نے ڈالے آپس میں تفرقے یہ
برسوں ہوئے کہ واں کا ، کوئی اِدھر نہ آیا
کِس کِس اذیّتوں سے مارا نوا کو تُو نے
کُچھ بھی خُدا کا ظالم تجھ کو حذر نہ آیا
ظہوراللہ خان نوا