سید زبیر
محفلین
عابد جعفری : درد کی آنچ میں جلتا ہے یہ گھر کیا کیجیئے
درد کی آنچ میں جلتا ہے یہ گھر ،کیا کیجیئے
خواب ہوتی ہے تمنا کی سحر ،کیا کیجئے
ہم بھی مانوس نہیں دل کے اندھیروں سے ابھی
طائر شب بھی ہے کھولے ہوئے پر ،کیا کیجیئے
وہ گئے وقت کی مانند نہ لوٹے گا کبھی
اب لٹا کر یہ وفاؤں کے گہر ،کیا کیجیئے
بے گواہی کے بھنور میں ہے مری ذات کہ اب
آنکھ کی جھیل بھی ہوتی نہیں تر کیا کیجیئے
بارش سنگ تو بے وجہ نہیں ہے عابد
آگیا مجھ کو وفاؤں کا ہنر کیا کیجیئے
عابد جعفری