جو خواتین و حضرات خود پر کنٹرول نہیں رکھ سکتے ان کے لیے بہتر رہے گا کہ وہ ان موضوعات سے دور رہا کریں۔ ضروری نہیں ہے کہ امت جیسے چیتھڑے اخبار کی ہر خبر پر یہاں مذہبی مناظرہ شروع ہو جائے۔
نبیل بھائی نے انتہائی زبردست بات کی ہے۔ میں خود بھی امت کی خبر دیکھتا ہوں تو بات کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہوں خود کو لیکن کبھی کبھی رک نہیں پاتا۔ میں تو کہتا ہون کہ اس اخبار کی سدا بہار قسم کی بارہا شایع کردہ رپورٹس کو محفل پر لٹکانے کی اجازت ہی نہیں دی جائے۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے پہلے تو میں ابن سعید بھائی کا انتہائی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری غیر موجودگی میں میری طرف سے وضاحت کی۔ میرے ساتھ خوش گمانی رکھی اور دوسروں کو اسی طرف راغب کیا۔ میں ان کی تمام وضاحتوں کی تائید کرتا ہوں۔(یہ تصدیق اور تائید میں فرق کیا ہے؟ ذہن میں نہیں آرہا اس وقت) خیر۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر کسی کے "تاریخی" (جسے وہ "اپنی" تاریخ مانتے ہیں اور ایمان لاتے ہیں) جذبات کو ٹھیس پہنچی تو معذرت، مقصد یہ نہیں تھا۔ دراصل ہم لوگ تاریخ اور کرداروں کو لے کر بہت جذباتی ہو جاتےہیں۔
غزل صاحبہ نے واقعی "عوام دوست" شاہوں کے بارے میں میرے نسبتا سخت جملوں کے باوجود صبر سے کام لیا اور انہوں نے الگ ہو جانا بہتر جانا۔ یہ ان کی بڑائی ہے۔ میں نے مثال کے طور پر ان کا نام استعمال کیا تھا کہ اس ذکر موجود تھا۔ لیکن انہوں نے لکھا ہے:
یہ تاریخ تو مسلمانوں کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ نہ تو سلطان صلاح الدین ایوبی رح نے اپنا کوئی رشتہ دار قتل کر کے حکومت کی اور نہ ہی سلطان نور الدین زنگی رح نے اپنے بھائیوں کو قتل کیا
یہاں میں نے مثال کے طور پر چند نام آپ ہی کی تحریر سے پیش کر دیے تھے۔ کیوں کہ میرے خیال سے تمام لوگ جو اس بحث میں شامل ہیں وہ باشعور ہیں اور انہیں اندازہ ہے ہم کیا بات کر رہے ہیں۔ یا ہماری بات سے کیا مراد ہے۔ میں کسی خاص شخص کی بات نہیں کر رہا بلکہ مجموعی ذکر کر گیا تھا۔ اس سے تاریخ خلط ہو گی نہ ملط، کیوں کہ ہمارے میڈیا، مسلم لکھاری اور گھروں میں ہر روز ہی کوئی نہ کوئی تاریخی قصہ کسی بزرگ کی کہانی، شاہ کی رعایا پروری کے گیت بچون کو سنائے جاتے ہیں۔ اور واقعی کم از کم "ہماری" تاریخ کی کتب کے اوراق کے مطابق تو کوئی بھی قاتل، سفاک، بددیانت، لوٹ مار کرنے والا، غاصب، بدنیت، جاہ و حشم کا طلب گار، اقتدار کا بھوکا حکم راں پیدا ہی نہیں ہوا( اس بات پر ایمان لانا ضروری ہے ورنہ مختلف الزامات لگنے کے ساتھ کفر کا فتوی بھی جاری ہو سکتا ہے) سب کے سب ٹوپیاں سیتے تھے، کوئی قرآن لکھتا تھا، چند گھروں میں راشن پہنچاتے تھے بھیس بدل کر، کسی نے ایک بیٹی کی آواز پر لبیک کہا اور اسے آزادی دلانے کے ساتھ ساتھ ایک بڑا زمین ٹکڑا بھی ہاتھ آگیا اس طرح مسلمانوں کا مرتبہ بلند ہوا، کسی نے مسجد بنوانے میں دن رات مزدورں کا ساتھ دیا اور حیرت کی بات ہے کہ مزدوروں کو پتا ہی نہیں چلا کہ ظل الہی، تاجدار ہند و بخارا و سمرقند و غرناطہ و بغداد و اناطولیہ و لنکا و غزنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وزنی ان کے ساتھ مزدور بن کر اللہ کی خوشنودی کے لیے کام کر رہے ہیں(لیکن صاحب اس زمانے میں بھی کھوجی رپورٹر موجود تھے، انہوں نے خبر چلا ہی دی جو آج تک ہم اپنے تاریخ ٹی وی اور تاریخ ریڈیو پر سن رہے ہیں، پڑھ رہے ہیں اور فخر کرتے ہیں)۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے یہ نہیں لکھا کہ ہمارے "بزرگوں" نے قتل کیا لوٹ مار کی، وغیرہ۔۔۔۔۔۔ میں نے ایک عام بات کی تھی۔