ساقی۔
محفلین
عالمی سائبر جاسوسی نظام سے حساس معلومات چرانے کا انکشاف
کینیڈا سے تعلق رکھنے والے محققین نے دعوٰی کیا ہے کہ ایک عالمی
سائبر جاسوسی نظام کی مدد سے ہیکرز نے دنیا بھر کے ایک سو تین ممالک میں سرکاری اور نجی اداروں کی خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کی ہے۔ یہ بات انفارمیشن وار فئیر مانیٹر نامی گروپ کی دس ماہ کی تحقیق کے بعد آن لائن شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہی گئی ہے۔ محققین کے مطابق ’گھوسٹ نیٹ‘ نامی یہ جاسوسی نظام بنیادی طور پر چین میں قائم ہے اور اس کا نشانہ بنیادی طور پر ایشیائی حکومتیں رہی ہیں جبکہ اس کے ہیکرز نے دلائی لامہ اور دیگر تبتی جلا وطن شخصیات کے کمپیوٹرز بھی کھنگالے ہیں۔ کینیڈین گروپ کے رکن گریگ والٹن کے مطابق ’ ہمارے ہاتھ ایسے ثبوت لگے ہیں جن سے ظاہر ہے کہ تبتی کمپیوٹر نظام میں داخل ہو کر دلائی لامہ کے نجی دفتر سے حساس معلومات چرائی گئی ہیں‘۔اس جاسوسی نظام کے تحت ایران، بنگلہ دیش، لٹویا، انڈونیشیا ، برونائی اور بارباڈوس کی وزارتِ خارجہ اور پاکستان، بھارت، جنوبی کوریا، انڈونیشیا، رومانیہ، قبرص، مالٹا، تھائی لینڈ، تائیوان، پرتگال اور جرمنی کے سفارتخانوں کے قریباً تیرہ سو کمپیوٹرز ہیک کیے گئے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تجزیے سے یہ تو صاف ظاہر ہے کہ اس جاسوسی نظام کا مرکز چین ہے لیکن اسے چلانے والے ہیکرز کی شناخت یا عزائم کے بارے میں واضح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس سلسلے میں جب چین کی وزارتِ خارجہ اور وزارتِ اطلاعات سے رابطے کی کوشش کی گئی تو وہاں سے کوئی جواب موصول نہیں ہو سکا۔ سائبر جاسوسی پر تحقیق کرنے والے کینیڈین گروپ نے اپنی تحقیق کے دوران پتہ چلایا کہ اس جاسوسی نظام کے تحت ایران، بنگلہ دیش، لٹویا، انڈونیشیا ، برونائی اور بارباڈوس کی وزارتِ خارجہ اور پاکستان، بھارت، جنوبی کوریا، انڈونیشیا، رومانیہ، قبرص، مالٹا، تھائی لینڈ، تائیوان، پرتگال اور جرمنی کے سفارتخانوں کے قریباً تیرہ سو کمپیوٹرز ہیک کیے گئے۔ ان کمپیوٹرز تک رسائی کے بعد ہیکرز نے ان میں ایسے سافٹ ویئر نصب کر دیے جن کی مدد سے نہ صرف وہ انہیں کنٹرول کر سکتے تھے بلکہ ان پر موجود مواد بھی باہر بھیج سکتے تھے۔اس تحقیق میں شامل کیمرج یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے دو محققین بھی اسی سلسلے میں ایک رپورٹ اتوار کو جاری کر رہے ہیں۔
کینیڈا سے تعلق رکھنے والے محققین نے دعوٰی کیا ہے کہ ایک عالمی
سائبر جاسوسی نظام کی مدد سے ہیکرز نے دنیا بھر کے ایک سو تین ممالک میں سرکاری اور نجی اداروں کی خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کی ہے۔ یہ بات انفارمیشن وار فئیر مانیٹر نامی گروپ کی دس ماہ کی تحقیق کے بعد آن لائن شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہی گئی ہے۔ محققین کے مطابق ’گھوسٹ نیٹ‘ نامی یہ جاسوسی نظام بنیادی طور پر چین میں قائم ہے اور اس کا نشانہ بنیادی طور پر ایشیائی حکومتیں رہی ہیں جبکہ اس کے ہیکرز نے دلائی لامہ اور دیگر تبتی جلا وطن شخصیات کے کمپیوٹرز بھی کھنگالے ہیں۔ کینیڈین گروپ کے رکن گریگ والٹن کے مطابق ’ ہمارے ہاتھ ایسے ثبوت لگے ہیں جن سے ظاہر ہے کہ تبتی کمپیوٹر نظام میں داخل ہو کر دلائی لامہ کے نجی دفتر سے حساس معلومات چرائی گئی ہیں‘۔اس جاسوسی نظام کے تحت ایران، بنگلہ دیش، لٹویا، انڈونیشیا ، برونائی اور بارباڈوس کی وزارتِ خارجہ اور پاکستان، بھارت، جنوبی کوریا، انڈونیشیا، رومانیہ، قبرص، مالٹا، تھائی لینڈ، تائیوان، پرتگال اور جرمنی کے سفارتخانوں کے قریباً تیرہ سو کمپیوٹرز ہیک کیے گئے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تجزیے سے یہ تو صاف ظاہر ہے کہ اس جاسوسی نظام کا مرکز چین ہے لیکن اسے چلانے والے ہیکرز کی شناخت یا عزائم کے بارے میں واضح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس سلسلے میں جب چین کی وزارتِ خارجہ اور وزارتِ اطلاعات سے رابطے کی کوشش کی گئی تو وہاں سے کوئی جواب موصول نہیں ہو سکا۔ سائبر جاسوسی پر تحقیق کرنے والے کینیڈین گروپ نے اپنی تحقیق کے دوران پتہ چلایا کہ اس جاسوسی نظام کے تحت ایران، بنگلہ دیش، لٹویا، انڈونیشیا ، برونائی اور بارباڈوس کی وزارتِ خارجہ اور پاکستان، بھارت، جنوبی کوریا، انڈونیشیا، رومانیہ، قبرص، مالٹا، تھائی لینڈ، تائیوان، پرتگال اور جرمنی کے سفارتخانوں کے قریباً تیرہ سو کمپیوٹرز ہیک کیے گئے۔ ان کمپیوٹرز تک رسائی کے بعد ہیکرز نے ان میں ایسے سافٹ ویئر نصب کر دیے جن کی مدد سے نہ صرف وہ انہیں کنٹرول کر سکتے تھے بلکہ ان پر موجود مواد بھی باہر بھیج سکتے تھے۔اس تحقیق میں شامل کیمرج یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے دو محققین بھی اسی سلسلے میں ایک رپورٹ اتوار کو جاری کر رہے ہیں۔