انگریزی سے اردو کا حق ادا کرنے والا فنکار :
مظہر الحق علوی
دہلی اُردو اکادیمی نے وارث علوی اور محمد علوی کے ساتھ مظہر الحق علوی کو بھی ایوارڈ کا مستحق قرار دے کر ایک بہت بڑی خدمت کا اعتراف کیا ہے۔ نئی نسل اُن کے کارناموں سے واقف نہیں۔ اسی لئے انقلاب کیدرخواست پر سلمان غازی نے یہ مختصر تعارفی مضمون تحریر کیا ہے جو نذر قارئین ہے۔
اردو میں انگریزی ناولوں کے تراجم کا دور بیسویں صدی کے اوائل میں منشی تیرتھ رام کے ترجموں سے شروع ہوکر مقبول ہوا لیکن وسط صدی میں رائیڈر ہیکرڈ کے ضخیم مہمائی ناول جس انداز میں مظہر الحق علوی نے اُردو میں ترجمہ کئے اس نے عجیب تاریخ رقم کی۔ ان میں سے ہر ناول کی ضخامت ۷۰۰/۸۰۰ صفحات سے کم نہیں تحی لیکن وہ اپنی زبان اور انداز بیان کے سبب اتنے کامیاب رہے کہ مقبولیت میں مظہر الحق نے اپنے دور کے بڑے ناول نگاروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ بد قسمتی سے ترجمہکو ادب کا حصہ نہیں مانا جاتا اس لءے اپنا جائز مقام حاصل کرنے کے لئے مظہر الحق علوی کو بھی بعد میں اسی طرز کے طبع زاد مہمائی ناول لکھنے پڑے جو ان کے مخصوص انداز بیان کے سبب اتنے ہی مقبول ہوئے۔ اس سے انہوں نے ثابت کردیا کہ وہ صرف مترجم نہیں ہیں بلکہ ایک اعلیٰ پائے کے ادیب بھی ہیں۔
عموما ترجمے بہت بے کیف ہوتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ لفظی ترجمے ہوتے ہیں جو اکثر غلط بھی ہوتے ہیں۔ اُردو والوں نے کبھی بھی ترجمے کو بطور فن اختیار نہیں کیا حتیٰ کہ ادبی اور دینی کتب کے تراجم میں بھی خامیاں نظر آتی ہیں۔ البتہ مظہر الحق علوی نے دونوں زبانوں پر قدرت کے سبب اعلیٰ تراجم پیش کئے۔ یہ حقیقت ہے کہ ترجمے میں مترجم کو اپنی علمی بصیرت اور خیالات کے اظہار کا کم ہی موقع ملتا ہے۔ وہ اصل تحریر کا غلام ہوتا ہے اور مصنف کے خیالات کا پابند بھی۔ البتہ مظہر الحق کے فن کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے انہوں نے مصنف کے خیالات جو انگریزی زبان میں تھے انہیں اپنے قاری کے سامنے اس مہارت اور خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا کہ قاری، معنیٰ آفرینی کی لذتوں کا نہ صرف ادراک کرتا تھا بلکہ اسے اس ترجمے پر اصل کا گمان ہوتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ایک مترجم دوسری زبان کے ادب اور ثقافت کا سفیر ہوتا ہے جس کی کاوشیں دو ممالک یا زبانوں ہی کو نہیں بلکہ دو ثقافتوں، دو تہذیبوں کو قریب لاتی ہیں اس لئے ایک سفیر ہی کی طرح ایک مترجم کا بھی اپنے کام میں ایماندار ہونا ضروری ہے اور یہ وصف مظہر الحق علی میں بدرجہ اتم موجود رہا۔
مظہر الحق علوی کے تراجم میں جہاں انشاءپردازی ، ادائیگی اور زورِ بیان کی اہمیت تھی وہیں ان کی خصوصی توجہ زبان کے محاوروں اور روز مرہ پر بھی رہتی تھی تاکہ ترجمہ کو لوگ ایک بامحاوہ اور سلیس وشتہ تحریر سمجھ کر پڑھیں۔ وہ فن کی اس باریکی سے واقف تھے کہ ترجمے میں اس بات کا خصوصی التمزام رکھنا ضروری ہے کہ اسل تحریر کے معنیٰ اور مفہوم کی خاطر خواہ حفاظت کی جائئے۔ ان کے تراجم میں جہاں سلاست اور روانی تھی وہیں اصل تحریر کا مفہوم ان کے زور قلم کا کبھی شکار نہیں ہوا۔
ترجمہ میں مفہوم کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنا ہوتا ہے۔ اس میں سب سے بڑی مشکل یہ پیش آتی ہے کہ دونوں زبانوں کے محاورے اتنے مختلف ہوتے ہیں کہ اگر ان کا ترجمہ ہوجائے تو مطلب خبط ہوجاتا ہے اور اگر ان کے مترادف محاورے ترجمے میں نہ استعمال کئے جائیں تو زبان کی خوبصورتی باقی نہیں رہتی۔ یہی نہیں جملوں میں الفاظ کی نشت بھی مختلف ہونے کے سبب لفظی ترجمے سے تحریر گنجلک ہوسکتی ہے جو نہ صرف یہ کہ کسی واقعہ کو تبدیل کرسکتی ہے بلکہ غلط فہمی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ مظہر الحق علوی جہاں اس میں کامیاب تھے کہ مصنف کا مفہوم جس حد تک ممکن ہو ایمانداری کے ساتھ قاری تک پہنچادیا بلکہ وہ محسوسات جو کسی تحریر کا حصہ ہوتے ہیں جنہیں ایک مصنف یا شاعر محض اپنے زور بیان سے قاری تک پہنچانا چاہتا ہے اور جن کا ترجمہ نہیں کیا جاسکتا انہیں بھی علوی صاحب اپنے قاری تک پہنچانے میں کامیاب رہے کیوں کہ وہ دونوں زبانوں کے ماہر ہیں۔ پھر یہ مہارت صرف زباندانی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ وہ دونوں زبانوں کے محاورے ، روز مرہ سے کماحقہ واقفیت رکھتے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ دونوں زبانوں میں انشاء پردازی کی اہلیت رکھتے ہیں۔ علوی صاحب کے تراجم میں افریقہ کے ان جنگلوں کی خوشبو بھی رچی بسی ہوتی تھی جہاں کے واقعات ناول نگارنے پیش کئے تھے اور جس کے سبب ان کا قاری جو ایک الگ ماحول اور سماج کا پروردہ ہے وہ ایک بلکل مختلف سماج، معاشرہ، تہذیب اور ثقافت کا مطالعہ کرکے اس کی لذتوں سے بھی روشناس ہوتا تھا۔ یہی نہیں جو قاری اس تہذیب اور اور قوم کے مزاج شناس ہونگے وہ اس تحریر یا واقعہ کو صحیح تناظر میں دیکھ کر زیادہ لطف اندوز ہوتے ہونگے۔
وہ وہ ادب تھا جس نے پوری ایک نسل کو اردو زبان سکھائی اور بہتوں کو قلم پکڑنا سکھایا تھا۔ آج علوی صاحب کے تراجم کے ساتھ ساتھ اس زمانے کا پورا اردو ادب تقریبا ناپید ہے۔ پھر اگر اردو ادب مائل بہ انحطاط ہوتو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہئے۔