عالم میں ہستِ مطلق شاہد بنا ہوا تھا - پنڈت امرناتھ مدن دہلوی 'ساحر'

حسان خان

لائبریرین
عالم میں ہستِ مطلق شاہد بنا ہوا تھا
یہ طرفہ ماجرا تھا بیرنگِ ماسوا تھا
جس دم نشانِ ہستی نورِ قِدم بنا تھا
لاجنب و لاتغیر ایک جلوۂ بقا تھا
شاہد علیم ہو کر بزمِ ازل میں آیا
جو بے ہمہ ہمہ تھا، اب با ہمہ ہوا تھا
واحد ہوا مثنّی ذات و صفات بن کر
وہ جلوہ تھا سکوں کا یہ اضطراب کا تھا
تھا علمِ ذاتِ شاہد۔ قائم محیط و روشن
علمِ صفات نقشِ نیرنگی و فنا تھا
حادث ہوا جو آ کر حسنِ قِدم کا جلوہ
حسنِ علیم یکتا تثلیث بن گیا تھا
اک سلسلہ تھا قائم پیدائش و فنا کا
پیدائش و فنا میں جلوہ حیات کا تھا
یہ جس کو مانتے ہیں ہم سب حیات اپنی
شاہدِ کا حسنِ یکتا جلوے میں آ گیا تھا
ہم کو انانیت نے دیکھا ہے غیر اُس سے
نامحرمی سے پردہ آنکھوں پہ پڑ گیا تھا
قدرت کا اک کرشمہ کونین کا ہے جلوہ
نیرنگیوں نے جس کو دلکش بنا رکھا تھا
منزلگہِ یقیں تھا ساحر وہ حسنِ یکتا
خضرِ رہِ حقیقت عشقِ شکستہ پا تھا
(پنڈت امرناتھ مدن دہلوی 'ساحر')
 

نایاب

لائبریرین
بہت ہی خوب گہرا سوچ کو اجالتا انتخاب
حادث ہوا جو آ کر حسنِ قِدم کا جلوہ
حسنِ علیم یکتا تثلیث بن گیا تھا
 

نایاب

لائبریرین
نایاب بھائی، ذرا اس شعر کی تشریح کر دیجیے۔ کیونکہ تثلیث تو شاید عیسائیوں کا عقیدہ ہے۔ اہلِ تصوف اسے کن معنوں میں لیتے ہیں؟
میرے محترم بھائی
کیوں "سر دار " کھڑا کرتے ہو ۔ ؟
اگر شاعر کا نام نہ ہوتا اس کلام کے ساتھ تو عقلوں کو گھما دیتا یہ کلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے نہ تو دعوی تصوف ہے نہ ہی دعوی علم ۔
مجھے تو اس شعر سے
" بعد از خدا بزرگ توئی " کا منظر ابھرتے دکھا ۔
یہ " تثلیث " اللہ ۔ جبرائیل علیہ السلام ۔ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر مشتمل ہے ۔
تثلیث سے مراد صرف " صلیب " ہی نہیں ہوتی بلکہ " تکون " کے معنی بھی رکھتی ہے ۔
اس تکون کے اک زاویئے پر اللہ سبحان و تعالی ہے
دوسرے کونے پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
اور اس تکون کا تیسرا ذاویہ حضرت جبرائیل علیہ السلام
اک وہ نور ازل جو کہ جنت کہ باغوں میں فروزاں تھا ۔
جب وہ خلق ہوا ۔ اور اس نے بندگی میں عبودیت کو نبھاتے صدائے تکبیر بلند کرتے صدق و اخلاق و امانت کو اس طرح نبھایا کہ ۔
عند اللہ محبوب و مقرب قرار پایا ۔ لا الہ الا اللہ کی تصدیق واسطے محمد رسول اللہ کہنا لازم ٹھہرایا ۔
اور اس اللہ نے جو کہ ہر طرح کی تعریف کا حقدار ہے ۔
اس نے جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے یہ فرمان اپنی مخلوق تک پہنچایا کہ
"بیشک اللہ اور اس کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں،
اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو "
اور اسے اتنا مقرب فرما لیا کہ " ایمان والوں کا ایمان بھی درود پر قائم فرما دیا ۔"
اگر اس تشریح میں کہیں مجھے گمراہی کا سامنا ہوا تو پناہ مانگتا ہوں اللہ کی شیطان مردود کے شر سے
 
میرے محترم بھائی
کیوں "سر دار " کھڑا کرتے ہو ۔ ؟
اگر شاعر کا نام نہ ہوتا اس کلام کے ساتھ تو عقلوں کو گھما دیتا یہ کلام ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
مجھے نہ تو دعوی تصوف ہے نہ ہی دعوی علم ۔
مجھے تو اس شعر سے
" بعد از خدا بزرگ توئی " کا منظر ابھرتے دکھا ۔
یہ " تثلیث " اللہ ۔ جبرائیل علیہ السلام ۔ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر مشتمل ہے ۔
تثلیث سے مراد صرف " صلیب " ہی نہیں ہوتی بلکہ " تکون " کے معنی بھی رکھتی ہے ۔
اس تکون کے اک زاویئے پر اللہ سبحان و تعالی ہے
دوسرے کونے پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
اور اس تکون کا تیسرا ذاویہ حضرت جبرائیل علیہ السلام
اک وہ نور ازل جو کہ جنت کہ باغوں میں فروزاں تھا ۔
جب وہ خلق ہوا ۔ اور اس نے بندگی میں عبودیت کو نبھاتے صدائے تکبیر بلند کرتے صدق و اخلاق و امانت کو اس طرح نبھایا کہ ۔
عند اللہ محبوب و مقرب قرار پایا ۔ لا الہ الا اللہ کی تصدیق واسطے محمد رسول اللہ کہنا لازم ٹھہرایا ۔
اور اس اللہ نے جو کہ ہر طرح کی تعریف کا حقدار ہے ۔
اس نے جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے یہ فرمان اپنی مخلوق تک پہنچایا کہ
"بیشک اللہ اور اس کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں،
اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو "
اور اسے اتنا مقرب فرما لیا کہ " ایمان والوں کا ایمان بھی درود پر قائم فرما دیا ۔"
اگر اس تشریح میں کہیں مجھے گمراہی کا سامنا ہوا تو پناہ مانگتا ہوں اللہ کی شیطان مردود کے شر سے
واہ واہ نایاب بھائی بہت خوب روحانی بابا خوش ہوئے اس بات کی خوشی ہوئی کہ آپ رمز پر سمجھ گئے ہیں۔
حادث ہوا جو آ کر حسنِ قِدم کا جلوہ
حسنِ علیم یکتا تثلیث بن گیا تھا
اس موقعہ پر مجھے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کی ایک مشہور زمانہ نعت کا ایک مصرعہ یاد آیا
نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا
ساتھ ہی منشی رحمت کا قلمدان گیا
حادث یعنی جدید یعنی حال اور قدم یعنی قدیم
ایک صاحب جو کہ اب مرحوم ہوچکے ہیں وہ حادث اور قدیم کے بارے میں سوچ رہتے تھے۔۔۔ناگہاہ شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ کی روح مبارک جلوہ افروز ہوئی اور کہا ۔۔۔۔ظاہر قدیم فھوا حادث
 
Top