حسان خان
لائبریرین
عالم میں ہستِ مطلق شاہد بنا ہوا تھا
یہ طرفہ ماجرا تھا بیرنگِ ماسوا تھا
جس دم نشانِ ہستی نورِ قِدم بنا تھا
لاجنب و لاتغیر ایک جلوۂ بقا تھا
شاہد علیم ہو کر بزمِ ازل میں آیا
جو بے ہمہ ہمہ تھا، اب با ہمہ ہوا تھا
واحد ہوا مثنّی ذات و صفات بن کر
وہ جلوہ تھا سکوں کا یہ اضطراب کا تھا
تھا علمِ ذاتِ شاہد۔ قائم محیط و روشن
علمِ صفات نقشِ نیرنگی و فنا تھا
حادث ہوا جو آ کر حسنِ قِدم کا جلوہ
حسنِ علیم یکتا تثلیث بن گیا تھا
اک سلسلہ تھا قائم پیدائش و فنا کا
پیدائش و فنا میں جلوہ حیات کا تھا
یہ جس کو مانتے ہیں ہم سب حیات اپنی
شاہدِ کا حسنِ یکتا جلوے میں آ گیا تھا
ہم کو انانیت نے دیکھا ہے غیر اُس سے
نامحرمی سے پردہ آنکھوں پہ پڑ گیا تھا
قدرت کا اک کرشمہ کونین کا ہے جلوہ
نیرنگیوں نے جس کو دلکش بنا رکھا تھا
منزلگہِ یقیں تھا ساحر وہ حسنِ یکتا
خضرِ رہِ حقیقت عشقِ شکستہ پا تھا
(پنڈت امرناتھ مدن دہلوی 'ساحر')