تحریر: جاوید چوہدری
شاہ جی نے ہاں کر دی اور یوں میرے لیے صحافت کے دروازے کھل گئے‘ میں آج بیس سال بعد سوچتا ہوں اگر اس دن عباس اطہر صاحب ہاں میں گردن نہ ہلاتے تو کیا میں آج صحافی ہوتا؟ کیا مجھ پر عزت اور شہرت کے دروازے کھلتے؟ میراجواب عموماً ناں ہوتا ہے چنانچہ مجھے عباس اطہر عرف شاہ جی نے صحافی بنایا اور یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف نہ کرنا احسان فراموشی ہو گی‘ یہ اپریل 1992ء کے دن تھے‘ میں یونیورسٹی سے تازہ تازہ فارغ ہوا تھا‘ میں ایک ایسا نالائق دیہاتی لڑکا تھا جس کے پاس ضد کی حدوں تک پھیلی مستقل مزاجی کے سوا کچھ نہ تھا‘ میں روز آدھ درجن کیلے لے کر نوائے وقت لاہور کے دفتر پہنچ جاتا تھا اور سارا سارا دن استقبالیہ پر بیٹھ کر گزار دیتا تھا‘ میری اس مستقل مزاجی سے استقبالیہ کلرک‘ مجید نظامی صاحب کا ذاتی چپڑاسی اور بعد ازاں نوائے وقت کے کوآرڈی نیشن ایڈیٹر اقبال زبیری کا دل پسیج گیا‘ ان لوگوں نے مجھے موقع دینے کا فیصلہ کیا مگر حتمی منظوری عباس اطہر صاحب نے دینی تھی، یہ نوائے وقت لاہور کے نیوز ایڈیٹر تھے اور ان کے فیصلے کے بغیر کسی نوجوان کو نیوز سیکشن میں نوکری نہیں مل سکتی تھی۔
ایڈیٹر کوآرڈی نیشن نے بیل بجائی‘ چپڑاسی اندر آیا اور اقبال زبیری نے شاہ جی کو بلانے کا حکم دیا‘ شاہ جی اس وقت واک کرنے کے لیے سیڑھیاں اتر رہے تھے‘ چپڑاسی انھیں سیڑھیوں سے بلا لایا‘ وہ دفتر آ گئے‘ میں اقبال زبیری صاحب کے دفتر میں پریشان کھڑا تھا‘ زبیری صاحب نے میری طرف اشارہ کیا اور شاہ جی سے پوچھا ’’ کیا اس بغلول کو نوکری مل سکتی ہے‘‘ شاہ جی نے بغلول کی طرف دیکھا‘ مسکرائے اور ہاں میں سر ہلا دیا‘ اس ہاں کے ساتھ ہی میرے لیے صحافت کا دروازہ کھل گیا‘ مجھے آج یہ تسلیم کرتے ہوئے کوئی باک نہیں میں اس شہرت‘ اس عزت اور اس خوشحالی کو ڈیزرو نہیں کرتا تھا‘ یہ اندھوں کا ملک ہے جس کے ہر شعبے‘ ہر فیلڈ میں سے کسی کو ذرا سا نظر آنے لگتا ہے تو وہ ان کا سردار بن جاتا ہے‘ ہماری صحافت بھی اندھوں کے شہر کی اندھی دلہن ہے اور مجھے اللہ کے کرم اور شاہ جی کے رحم کی وجہ سے اس دلہن کے سامنے بیٹھنے کا موقع مل گیا‘ میں ذرا سا مستقل مزاج تھا چنانچہ اس مستقل مزاجی نے مجھے راستہ دکھانا شروع کر دیا اور میں لائم لائٹ میں آ گیا ورنہ میری جھولی میں جہالت کے سو چھید ہیں اور میں روز اپنے پیٹ کو ان چھیدوں سے بچانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔
شاہ صاحب ’’نئے فنکاروں‘‘ کے معاملے میں کھلے دل کے مالک تھے‘ یہ نوجوانوں کو موقع بھی دیتے تھے اور سہارا بھی‘مجھے بھی انھوں نے سہارا دیا‘ میں نوائے وقت کے نیوز سیکشن میں ٹرینی سب ایڈیٹر ہوگیا‘ یہ پڑھے لکھے چپڑاسی کی نوکری تھی‘ میں خبریں جمع کرتا تھا‘ کمپوزنگ سیکشن میں لے جاتا تھا‘ کمپوز شدہ خبروں کا پروف پڑھتا تھا اور اچھے وقت کا انتظار کرتا تھا‘ کبھی کبھار قسمت کی ماری کوئی خبر بھی ہتھے چڑھ جاتی تھی اور میں اس کا لولہ لنگڑا ترجمہ کر دیتا تھا یا اس پر سرخی جما دیتا تھا‘ ایک دن شاہ جی نے میری خبر پڑھی‘ یہ خبر انتہائی کمزور اور ناقابل اشاعت تھی‘ شاہ صاحب اگر روایتی نیوز ایڈیٹر ہوتے تو وہ مجھے اسی وقت نوکری سے برخاست کر دیتے مگر ان کے اندر کیونکہ ایک درویش‘ ایک عظیم انسان چھپا ہوا تھا چنانچہ انھوں نے اس خبر کا انگلش ورژن منگوایا‘ اپنے ہاتھ سے اس کا ترجمہ کیا اور میرے حوالے کر دیا‘ وہ ایک کالم کی خبر میرے لیے مشعل راہ بن گئی‘ میں خبر بنانا سیکھ گیا۔
مجھے عباس اطہر کے ساتھ تین بار کام کا موقع ملا‘ میرا کیریئر ان کے ہاتھ سے اسٹارٹ ہوا‘ دوسرا یہ پاکستان اخبار میں ایڈیٹر بن کر آئے‘ میں اس اخبار میں سب ایڈیٹر تھا‘ شاہ صاحب نے مجھے آخری صف کے آخری بنچ سے اٹھایا اور اس اخبار کا شفٹ انچارج بنا دیا اور ان کے ساتھ تیسری اور آخری بار کام کرنے کا موقع ایکسپریس اخبار میں ملا‘ یہ گروپ ایڈیٹر تھے اور میں اس اخبار کا ادنیٰ کالم نگار۔ شاہ جی صرف اخبار نویس‘ ایڈیٹر‘ کالم نگار یا نیوز ایڈیٹر نہیں تھے‘ یہ تخلیق کار تھے‘ ان کی ذات میں تخلیق موجیں مارتی تھی‘ یہ اپنی تخلیقی قوت سے جس چیز‘ جس فقرے کو چھو لیتے تھے وہ سونا بن جاتا تھا۔ ’’اُدھر تم۔ اِدھر ہم‘‘ شاہ صاحب کی ایسی سرخی تھی جو بھٹو صاحب کی شخصیت اور پاکستان کی تاریخ کا حصہ بن گئی‘ یہ 1971ء کے اس پس منظر کو ظاہر کرتی ہے جس میں کھڑے ہو کر ذوالفقار علی بھٹو نے شیخ مجیب الرحمن کو دعوت دی تھی تم مشرقی پاکستان میں حکومت بناؤ اور ہم مغربی پاکستان میں بناتے ہیں اور یوں ’’اُدھر تم۔ اِدھر ہم‘‘ کے نعرے کے ساتھ ملک تقسیم ہو گیا‘ یہ سرخی صرف سرخی نہیں تھی‘ یہ تاریخ کا ایک ایسا نوحہ تھی جو سردی کی چوٹ کی طرح ہر 16دسمبر کو تازہ ہو جاتی ہے‘ آپ اس میں شکست آرزو اور ٹوٹتے ہوئے دو قومی نظریئے کی چیخ سنتے ہیں‘ جنرل جہانگیر کرامت آرمی چیف بنے تو شاہ صاحب نے صرف ایک لفظ کی سرخی نکالی اور وہ لفظ تھا ’’ کرامت‘‘۔ یہ ایک لفظ اس واقعے کا پورا پس منظر اور جنرل جہانگیر کرامت کی آمد کا پورا بیک گراؤنڈ سمجھا جاتا ہے‘ شاہ جی نے 1996ء میں بے نظیر بھٹو کے حوالے سے سرخی لگائی ’’ ہم پھر آئیں گے‘ پھر آئیں گے اور پھر آئیں گے‘‘ یہ سرخی بھی بہت مشہور ہوئی۔
شاہ جی کا کالم ’’ کنکریاں‘‘ بھی اپنے اسلوب کی وجہ سے مقبولیت کی تمام حدیں کراس کر گیا‘ ہم لوگ صرف کالم لکھتے ہیں مگر لوگ شاہ جی کے کالم کا باقاعدہ انتظار کرتے تھے‘ وہ پورے سسٹم‘ پورے معاشرے کو لفظوں کی کنکریاں مارتے تھے اور یہ کنکریاں عہد کہن کو جڑوں سے ہلا دیتی تھیں‘ ہم میں سے بے شمار لوگ صحافی ہیں‘ پاکستان کی صحافت کے بارے میں کہا جاتا ہے‘ یہ تربوزوں کی فصل ہے جس میں ہر سال سیکڑوں ہزاروں تربوزوں کا اضافہ ہو جاتا ہے اور ہر تربوز خود کو جنت کا میوہ سمجھتا ہے‘ ہمارے ملک میں جب کسی شخص کو کوئی کام نہیں آتا تو وہ صحافی بن جاتا ہے اور روز مانگ تانگ کر پانچ دس کلو آٹا گھر لے جاتا ہے مگر شاہ جی ان سب سے مختلف تھے‘ یہ صرف صحافی نہیں تھے‘ یہ بہادر اور دلیر صحافی تھے‘ یہ اپنی رائے میں ہمیشہ بے لاگ اور بولڈ ہوتے تھے‘ یہ ہمیشہ غیر مقبول لائین لیتے تھے اور اس پر ڈٹ جاتے تھے‘ مثلاً ملک میں طالبان کا ایک ایسا بھی دور گزرا ہے جب میاں نواز شریف تک ان لوگوں کو آئیڈیالائز کرتے تھے‘ میاں نواز شریف ببانگ دہل کہتے تھے‘ ہم ملک میں طالبان جیسا نظام عدل نافذ کریں گے‘ اس دور کے زیادہ تر لکھنے والوں کے قلم نے سر پر عمامہ باندھ لیا تھا مگر شاہ جی نے غیر مقبول لائن لی‘ یہ طالبان کے خلاف لکھنے لگے‘ ہم انھیں روکتے تھے تو یہ کہتے تھے ’’ یہ لوگ زیادہ سے زیادہ کیا کر لیں گے‘ یہ مجھے قتل کر دیں گے‘ کر دیں‘ میں نے بالآخر مر ہی جانا ہے‘ ان کے ہاتھوں سے نہ مرا تو بیماری کے ہاتھوں مر جاؤں گا‘ جب موت برحق ہے تو پھر زندگی کے لیے کمپرومائز کرنے کی کیا ضرورت ہے‘‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے موجودہ دور میں جب پارٹی کے اپنے لوگ ’’ جئے بھٹو‘‘ کا نعرہ لگاتے وقت شرمندہ ہو جاتے تھے‘ شاہ جی واحد لکھاری تھے جو پاکستان پیپلز پارٹی کا کھل کر ساتھ دیتے تھے اور اس ساتھ پر ٹھیک ٹھاک گالیاں کھاتے تھے مگر وہ کہتے تھے ’’ میں صرف لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ان کی مرضی کے مطابق کیوں لکھوں؟‘‘۔
عباس اطہر صاحب مجھ سے خوش نہیں تھے‘ یہ میری تحریروں اور پروگراموں کو پسند نہیں کرتے تھے‘ ان کا خیال تھا صحافی کو کمپرومائز نہیں کرنا چاہیے‘ اسے پانی کے بہاؤ کے خلاف چلنا چاہیے مگر میں ان سے عرض کرتا تھا ہم لوگ ٹیپو سلطان نہیں ہیں‘ ہم معاشرے کا حصہ ہیں اور ہمیں اس معاشرے کے ساتھ رہ کر آگے بڑھنا ہے‘ وہ اختلاف کرتے تھے مگر اس اختلاف میں انھوں نے کبھی ایڈیٹر کی ویٹو پاور استعمال نہیں کی‘ وہ ضرورت پڑنے پر ہمیشہ میرا ساتھ دیتے تھے‘ یہ شاہ جی کینسر سے ہار گئے‘ یہ 6مئی کو اِس دنیا سے اُس دنیا میں چلے گئے جہاں جانے والے کبھی لوٹ کرنہیں آتے اور جہاں ہم سب نے چلے جانا ہے اور ہم بھی وہاں سے واپس نہیں آئیں گے مگر شاہ جی جاتے جاتے پاکستانی صحافت پر کچھ ایسے نقش چھوڑ گئے ہیں جو اُس وقت تک قائم رہیں گے جب تک پاکستانی صحافت سانس لیتی رہے گی‘ پاکستان میں جب بھی اخباری سرخیوں کا ذکر ہو گا لوگ بے اختیار عباس اطہر کو یاد کریں گے اور یہ یاد شاہ جی کا سب سے چھوٹا احسان ہے‘ وہ اس ملک میں صحافیوں اور صحافتی روایات کی ایسی باقیات چھوڑ کر گئے ہیں جو شاہ جی کو کبھی گمنام نہیں ہونے دیں گی‘ یہ شاہ جی کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی‘شاہ جی اُدھر چلے گئے‘ ہم اِدھر رہ گئے مگر کتنی دیر؟ ہم بھی بالآخر ایک نہ ایک دن اِدھر سے اُدھر چلے جائیں گے اور یوں لائف کا سائیکل پورا ہوتا رہے گا اور یہ سائیکل اس کائنات کی سب سے بڑی سچائی ہے‘ وہ سچائی جو بھٹو کی بیٹی کو بھی نگل جاتی ہے اور بھٹو کی بیٹی کے لیے نظمیں لکھنے والے عباس اطہر کو بھی اور یہ نظمیں پڑھنے اور سننے والوں کو بھی‘ پیچھے صرف اللہ کا نام رہ جائے گا‘ وہ نام جسے کبھی زوال نہیں ہو گا‘ جو کسی سورج اور کسی ابھرتے ڈوبتے دن کا پابند نہیں‘ یہ دنیا شاہ جی کے بغیر بھی چل رہی ہے اور یہ ہمارے بعد‘ ہمارے بغیر بھی چلتی رہے گی‘ یہ وہ حقیقت ہے جسے ہم دنیا کو اپنے سینگوں پر اٹھاتے ہوئے ہمیشہ بھول جاتے ہیں‘ ہم سمجھتے ہیں اُدھر والے اُدھر چلے جائیں گے اور ہم اِدھر کے لوگ اِدھر رہ جائیں گے اور ہم ہر قبر کو ٹھوکر مار کر اُدھر تم‘ اِدھر ہم کا نعرہ لگائیں گے مگر ایسا نہیں ہوتا‘ اِدھر اور اُدھر والے دونوں کا انجام ایک ہوتا ہے‘ دونوں خاک ہیں اور دونوں خاک میں مل جاتے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس