عبداللہ احمد کی غزلیں

انس معین

محفلین
اپنا اصلاح شدہ کلام اس لڑی میں اکٹھا کرنے کا سوچا ہے ، اگر احباب کو بہتری کی گنجائش نظر آئے تو ضرور اصلاح فرمائیے۔


زخموں کو اس ادا سے سیتا نہیں ہے کوئی
تیرے نام سے پیارا نغمہ نہیں ہے کوئی

خاموشیوں نے دل میں ڈالے ہیں ڈیرے جیسے
برسوں سے اس نگر میں آیا نہیں ہے کوئی

اب خود بھی خوف میں ہے جو کہہ رہا تھا کل تک
ا یسے جدائیوں میں مرتا نہیں ہے کوئی

کیسے کرے گا کوئی دیدار کی گزارش
جرات نہیں کسی میں ،موسی نہیں ہے کوئی

دیوانگی ہماری شعروں نے یوں چھپائی
ہم چیختے ہیں لیکن سنتا نہیں ہےکوئی

روکو ہوا کو یارو پتوں کو مت اڑائے
آہٹ ہو کس لیے جب آیا نہیں ہے کوئی

میں معجزے جنوں کے تم کو دکھاؤں لیکن
نہ قیس ہے کوئی اب لیلی نہیں ہے کوئی

تیری تلاش میں ہم یوں در بدر ہیں ورنہ
ایسے گلی گلی میں پھرتا نہیں ہے کوئی

تم سے رقابتوں کا الزام سر سے اترا
احمدؔ کو اب تمہارا کہتا نہیں ہے کوئی

عبداللہ احمدؔ
20 ستمبر 2019
 
آخری تدوین:

انس معین

محفلین
کچھ اس طرح سے دل میں تیرا خیال آئے
شرما کے جیسے کوئی آنچل میں منہ چھپائے

دھڑکن سی رک گئی ہے جب روٹھ کر گیا وہ
یہ آرزو ہے کوئی جائے اسے منائے

کانٹوں سے یہ بنا ہے لیکن سکوں بھرا ہے
جب دیکھیں گھونسلے کو تو گھر کی یاد آئے

پونچھے تھے اپنے آنسو ہم کچھ سنبھل رہے تھَے
پھر نم ہوئی ہیں آنکھیں، تم پھر سے یاد آئے

خاموش سی ہیں آنکھیں ہونٹوں پہ چپ لگی ہے
لیکن ہمارے دل سےچیخوں کا شور آئے

عبداللہ احمدؔ
4 جولائی 2019
 

انس معین

محفلین
ہیں آپ پھر کیوں آئے وہ رخسار دیکھ کر
سب کہہ رہے ہیں مجھکو یوں بیمار دیکھ کر

ہنستے تھے میرے حال پہ سب، یہ تھی اور بات
تم نے بھی ہنس دیا مجھے اس بار دیکھ کر؟

دل بھی پڑے ہوئے تھے کھلونوں کے آس پاس
آیا ابھی ابھی ہوں میں بازار دیکھ کر

ایسی تباہی پہلے تو دیکھی نہیں کبھی
کہتے ہیں میرے دل کے وہ آثار دیکھ کر

احمد کے دل کو تم نےکھلونا سمجھ لیا
تم کو تھما گیا تھا سمجھدار دیکھ کر

عبداللہ احمدؔ
 

انس معین

محفلین
مرے چہرے جو تم پر منکشف ہوں
نہیں گن پاؤ گے تعداد میری

نشیلی آنکھیں اپنی خود سنبھالو
کرو مت زندگی برباد میری

مرے ہر رنج و غم کی گفتگو ہے
نہیں غزلیں یہ بے بنیاد میری

عبداللہ احمدؔ

 
آخری تدوین:

انس معین

محفلین
خیال کے چراغ سے ہے شب میں روشنی ہوئی
بھری ہے دل نے آہ جو لکھی تو شاعری ہوئی

وفا کا پاس ہم سے ہے عنائتیں ہیں غیر پر
یہ کیسی دلبری ہوئی کہاں کی عاشقی ہوئی

بہار کے ہی شوق میں سفر کیا ہے گرد کا
بہت مسافتوں کے بعد شاخ صندلی ہوئی

گزار دی یہ زندگی منافقوں کے رنگ میں
نہ جم کے دوستی ہوئی نہ کھل کے دشمنی ہوئی

نہیں تھا سولیوں کا دور تو سرد آہ کھینچ لی
چلو نظامِ عشق میں ہے کچھ تو بہتری ہوئی

عبداللہ احمد ؔ
 

انس معین

محفلین
ہماری گلی میں وہ صورت نہیں ہے
یہ آفت نہیں ہے ، قیامت نہیں ہے ؟

مرے دل جو سب سے قریبی تھے تیرے
تجھے ان کے جانے پہ حیرت نہیں ہے؟

بڑے آدمی ہم بھی بن جاتے لیکن
ہمیں تیرے غم سے ہی فرصت نہیں ہے

یوں ہو جائے آسان دم کا نکلنا
وہ کہہ دیں کے ہم سے محبت نہیں ہے

وہ جنت میں گر مجھ سے ملنے نہ آئے
تو کہتا پھروں گا یہ جنت نہیں ہے

عبداللہ احمدؔ

 
آخری تدوین:

انس معین

محفلین
کوئی بات بولو یوں شرمانا چھوڑو
سبھی جانتا ہوں یہ سمجھانا چھوڑو

کہیں مل کے بیٹھو تو کچھ میں بتاؤں
اچانک یوں رستوں میں ٹکرانا چھوڑو

ہٹا دو یہ پردہ دکھا دو نہ مکھڑا
خدا کے لیے اب یہ تڑپانا چھوڑو

تمہاری یہ باتیں قیامت سے کم ہیں
قیامت کی باتیں تو مولانا چھوڑو

جہاں آنکھ سے آنکھ لڑ جائے احمدؔ
وہیں پر چلو اب یہ مے خانہ چھوڑو

عبداللہ احمدؔ

 
آخری تدوین:

انس معین

محفلین
تجھے یوں اچانک سے کیا ہو گیا ہے
جو لڑنے سے پہلے خفا ہو گیا ہے

سزا لگ رہا ہے جو اک پل بھی جینا
کوئی ہم سے شاید جدا ہو گیا ہے

یہ رب شناسی کا عالم خدایا
جسے دیکھتا ہوں خدا ہو گیا ہے

گیا کچھ نہیں ہے ترا مسکرا کر
غریبوں کا لیکن بھلا ہوگیا ہے

مریضِ محبت بھی بچ جائے شاید
تجھے دیکھنا جب دوا ہو گیا ہے

قیامت کا ان کو یقیں کیوں نہ آیا؟
محبت میں احمد فنا ہو گیا ہے

عبداللہ احمدؔ
 
آخری تدوین:

انس معین

محفلین
جو تیرے در کا ہوا نہیں ہوں
تو اپنے گھر بھی گیا نہیں ہوں

کیوں شیخ جنت چھپائے مجھ سے
ابھی میں کافر ہوا نہیں ہوں

یہ عشق اندر سے کھا چکا ہے
ذرا ابھی باقی بچا نہیں ہوں

گزر گیا ہوں تری گلی سے
میں اب کی باری رکا نہیں ہوں

عبداللہ احمدؔ

 

انس معین

محفلین
ہمارے لیے جو ہوئے اجنبی ہیں
وہی دل کی حسرت وہی زندگی ہیں

کبھی ہم نے دل میں اندھیرا نہ پایا
کہ یادوں میں ان کی بہت روشنی ہے

ترے بعد گلشن میں بلبل نہ بولی
نہ پھولوں میں اگلی سی وہ دلکشی ہے

بہتے رہے ہیں کیا آنکھوں سے چشمے
جو گالوں پہ احمدؔ بہت تازگی ہے

عبداللہ احمدؔ
 

انس معین

محفلین
ہم ان سے محبت کا انکار نہیں کرتے
چھپ کر بھی مگر وہ تو اقرار نہیں کرتے

یہ ایک نشانی ہے ہم اہلِ محبت کی
غم سہتے ہیں چپ رہ کر اظہار نہیں کرتے

قاصد جو ملو ان سے اک بار یہ کہہ دینا
اس طرح کسی کو بھی بیمار نہیں کرتے

اک ہم ہی تھے نامحرم کیا آپ کی نظروں میں
ہر ایک سے پردہ کیوں سرکار نہیں کرتے

سب بیٹھے ہوئے احمد اس عشق کی راہوں کے
قصے تو سناتے ہیں خبردار نہیں کرتے

عبداللہ احمدؔ
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اپنا اصلاح شدہ کلام اس لڑی میں اکٹھا کرنے کا سوچا ہے ، اگر احباب کو بہتری کی گنجائش نظر آئے تو ضرور اصلاح فرمائیے۔


زخموں کو اس ادا سے سیتا نہیں ہے کوئی
تیرے نام سے پیارا نغمہ نہیں ہے کوئی

خاموشیوں نے دل میں ڈالے ہیں ڈیرے جیسے
برسوں سے اس نگر میں آیا نہیں ہے کوئی

اب خود بھی خوف میں ہے جو کہہ رہا تھا کل تک
ا یسے جدائیوں میں مرتا نہیں ہے کوئی

کیسے کرے گا کوئی دیدار کی گزارش
جرات نہیں کسی میں ،موسی نہیں ہے کوئی

دیوانگی ہماری شعروں نے یوں چھپائی
ہم چیختے ہیں لیکن سنتا نہیں ہےکوئی

روکو ہوا کو یارو پتوں کو مت اڑائے
آہٹ ہو کس لیے جب آیا نہیں ہے کوئی

میں معجزے جنوں کے تم کو دکھاؤں لیکن
نہ قیص ہے کوئی اب لیلی نہیں ہے کوئی

تیری تلاش میں ہم یوں در بدر ہیں ورنہ
ایسے گلی گلی میں پھرتا نہیں ہے کوئی

تم سے رقابتوں کا الزام سر سے اترا
احمدؔ کو اب تمہارا کہتا نہیں ہے کوئی

عبداللہ احمدؔ
20 ستمبر 2019
بہت خوب!
قیس کا ٹائپو درست کرلیجئے ۔
انس معین آپ کا ہینڈل ہے یا پھر عبداللہ احمد قلمی نام ہے؟
 

انس معین

محفلین
بہت خوب!
قیس کا ٹائپو درست کرلیجئے ۔
انس معین آپ کا ہینڈل ہے یا پھر عبداللہ احمد قلمی نام ہے؟

بہت شکریہ ظہیر بھائی
عبداللہ نام ہے احمد تخلص ہے شروع کے دنوں میں محفل پر انس کے نام سے آئی ڈی بنائی سو ابھی تک وہی نام چل رہا ہے ۔
 
Top