تجمل نقوی
محفلین
عبداللہ خاکی!
اللہ نے جب انسان کو تخلیق کرنا چاہا تو فرشتوں نے فسادی ہونے کا کہا تو اللہ نے ارشاد فرمایا جو میرے بن کے رہیں گے وہ انعام یافتہ ہونگے۔
اللہ نے جب انسان کو تخلیق کرنا چاہا تو فرشتوں نے فسادی ہونے کا کہا تو اللہ نے ارشاد فرمایا جو میرے بن کے رہیں گے وہ انعام یافتہ ہونگے۔
- میں خاکی کائنات کی چلتی ہوئی کہانی کا مرکزی کردار ہوں۔ میری تخلیق کا مرحلہ اللہ کےفیصلے سے ہوا اور وہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ مجھے سات مراحل سے گزار کر کائنات کی رونق بنایا گیا۔ 1 چنی ہوئی مٹی2پانی کی بوند3 خون کا لوتھڑا4لوتھڑے کا گوشت5گوشت کی ہڈیاں6ہڈیوں پر گوشت کہ پرت7 صورت اور روح۔
میری بساط پہلے مرحلے میں ہی بتا دی گئی کہ میں خاک ہوں۔ حکم دیا گیا کہ کارخانہء قدرت سے مٹی لائی جائے۔حکم بجا لایا گیا۔ پھر دو مخالف جنس کو ازدواجی روابط قائم کرنے کا حکم دیا گیا۔حکم بجا لایا گیا۔ میرے مٹی کے خمیر کو ان دو مخالف جنسوں کے پانی جو ناپاک عضو کا اخراج ہے گوندھنے کیلئے جسم کے ناپاک عضو کا انتخاب کیا گیا اور اس پانی کی بوند میرے خمیر میں ملا کر گوندھا گیا۔ میری بساط اور اوقات میرا اصل اس مرحلے میں بھی عیاں کیا گیا۔ میرا غرور ختم کر دیا گیا۔ مجھ سے میں ہونے کا حق چھیں لیا گیا۔ پھر اس خمیر کو پالنے کی بہترین جگہ منتخب ہوئی اک عورت کا پیٹ ! اور اس عورت کو میری ماں کا نام دیا گیا۔اور ممتا کا پیار اس عورت کا دل اور میری خوراک کا انتظام اس کے سینے میں کیا گیا۔ اس پانی کی بوند کو خون کا لوتھڑا کُن کہنے پر بنا دیا گیا۔ وہ قادر ہے وہ بس كُن کہتا ہے اور فیکون عمل میں آتا ہے۔ وہ میرا تخلیق کردہ ہے وہ مالک ہے جو چاہے جیسا چاہے بنا دیتا میں کیا کر سکتا تھا میں تو حقیر اجزاء کی ملاوٹ ہوں۔ لوتھڑا گوشت میں تبدیل ہوا گوشت ہڈیوں میں اور ہڈیوں پر پھر سے گوشت کہ تہہ چڑھا دی گئی۔ میری یہاں تک کی تخلیق کے مرحلے پر حکم صادر ہوتا رہا اور کارخانہء خدا میں اپنے مالک کا حکم بجا لانے والے فرشتےحکمِ الہی سے مجھے بناتے رہے۔ میری رنگت میرا نسب میرا خمیر میرا علاقہ میری نسل میرے وارثین کا انتخاب سب ہو چکا تھا۔ میری قسمت تحریر ہو چکی تھی میرا رزق میری تکالیف میری خوشیاں اور غم سب لکھا جا چکا تھا- مگر اب تک اک مرحلہ باقی تھا اور وہ میری صورت بنانے کا تھا اللہ نے فرمایا فرشتو ! تم نے میرے حکم کی تعمیل کی بہت خوبصورت تیار کیا مگر اس کی صورت میں خود بناؤں گا تاکہ دنیا میں ظہور کیبعد میرا نام لیوا بنے اپنی صورت دیکھ کر میرا شکریہ ادا کرے۔ اسے معلوم ہو کی میری تخلیق کیسی ہوتی ہے۔ اسے یاد رہے کی اس کی بنائی گئی شاہ رگ اس کی زندگی کی امید میں میرا ٹھکانہ ہے میں اسکی صورت کے بہت قریب ہوں۔
میری صورت بنائی گئی اور مجھے مکمل کر دیا گیا اور روح عطا کی گئی۔
میں بن چکا تھا۔ میری تخلیق ہو چکی تھی میری تخلیق کا عرصہ مکمل ہو چکا تھا۔بس مجھے دنیا میں متعارف کروانا باقی تھا۔ اب یہاں پھر میری اوقات یاد دلائی گئی کہ اے انسان کس بات کا گھمنڈ کر رہا ہے ہم اگر چاہیں تو تیری تخلیق کیبعد دنیا میں جانے سے پہلے بھی واپس اپنے پاس رکھ سکتے ہیں وہ کر سکتا ہے وہ مالک ہے میرا-میں خاموش رہا اور اسکی حاکمیت و واحدانیت کو تسلیم کرنے لگا۔
اب میرے ظہور پزیر ہونے کا رستہ بنایا گیا اور وہ بھی اک ناپاک عضو کے ذریعے۔ میرا غرور میری اوقات میرا گھمنڈ توڑ دیا گیا اور مجھے باور کروایا گیا کہ جب تو دنیا میں پہنچ کر میں میں کی رٹ لگانے لگے تو اپنی تخلیق پر غور کرنا ابتدا سے لے کر انتہا تک تو غلیض مواد اور راستوں سے ہوتا ہوا یہاں آیا ہے۔
میں دنیا کی رونق میں اضافہ کر چکا تھا۔ مجھے مسلمان ، عیسائی ھندو یہودی اور کافی مزاہب کے لوگوں میں بھیج دیا گیا تھا۔ مگر میں فطری و ارتقائی طور پر اسکی واحدانیت کا قائل اور اسکے رسولوں پر ایمان لانے والا بنا کر بھیجا گیا تھا۔ کیونکہ مجھے اس واحد و احد نے بنا ہے جو رب العالمین ہے۔
میری تخلیق کے وسیلہ میں جن دو انسانوں کا نام سرِ فہرست ہے وہ میرے والدین ہیں۔
اب میں اس دنیا کا حصہ ہوں۔ اب میں فرد ہوں۔اپنے مالک کا نائب ہوں۔
میری پہچان کے لئے میرا دنیاوی نام رکھا گیا۔ میرا حسب و نسب مجھے دیا گیا۔ میری پہجان صرف دنیاوی نام ہے ورنہ میں عبداللہ خاکی ہوں۔ یعنی خاک سے بنا ہوا اللہ کا بندہ۔
مجھے عزیزواقارب دیئے گئے مجھے رشتے عطا ہوئے۔
پھر میں جوان ہوتا گیا اور اپنی تخلیق کے مراحل کو نظر انداز کرتا ہوا ستاروں پر کمند ڈالنے لگا۔ اب میں غرور اور تکبر کرنے لگا۔
میں بھول گیا کہ میں کیا ہوں۔ میں کن اجزاء کا محلول ہوں، مجھے جو رشتے عطا ہوئے ان ک حقوق کیا ہیں۔ میرے اوپر فرائض کیا ہیں۔
اللہ کے حقوق کیا ہیں میرے اپنے فرائض کیا ہیں۔ میں سب بھول چکا تھا۔
میں تو بس میں ہی بنے بیٹھا تھا۔حالانکہ اس نے میری اصلاح کے لئے اپنے برگزیدہ بندے رسول اور نبی بھیجے مگر میں غافل رہا اور اپنی تخلیق کو محظ حادثہ سمجھ بیٹھا۔
اللہ نے تو مجھے اپنی واحدانیت کا قائل بنا کر بھیجا تھا اس نے تو مجھے یہ حکم کیا تھا کہ میں اس کے ہی گیت گنگناتا پھروں۔ میں اس کے پسندیدہ مزہب اسلام کا انتخاب کروں۔ اس کے احکامات کی پیروی کروں۔ اس کے بنائے گئے دوسرے بندوں کا خیال رکھوں۔ اس نے تو مجھے زندگی گزارنے کی حدود بتا کر بھیجا تھا۔ اس نے تو مجھے یہ بھی کہا کہ تیرا دشمن شیطان ہے اس سے بچنا۔ اس نے یہاں تک فرما دیا تھا کہ تو واپس بھی بلایا جائے گا اور میں تیرا حساب لونگا۔ اللہ نے مجھے میرے امتحان کا سلیبس بھی بتایا تھا اس امتحان کی تیاری کے لئے اک کتاب بھی عطا کی اس کتاب کو پڑھانے اور عمل کروانے کے لئے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا ہے۔ یعنی مجھے وہ سب بتایا اور سکھایا جو میرے ساتھ ہونا تطا۔میرے امتحان کے سوالات کیا ہونگے حتی کہ جوابات بھی بتا دیئے گئے تھے مگر میں سب بھول کر دنیا کی رنگینیوں میں محو ہو گیا۔ میں جی کہاں رہا تھا۔ میں تو زندہ لاش تھا۔
لیکن ان سب باتوں کے باوجود وہ مجھے دکھاتا رہا کی وہ دیکھ تیرا فلاں عزیز میرے پاس لوٹ آیا ہے سمجھ جا اب بھی موقع ہے۔ ذرا ماضی پر نظر دوڑا تجھ سے پہلے کتنے آئے اور چلے گئے سنمبھل جا۔
وہ مجھے کہتا ہے میں غفور و رحیم ہوں، میں ستر (70) ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہوں تجھے۔ تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب۔
میں جب بلکل سرکش ہو گیا تو اس نے اک اور احسان کر دیا۔ مجھے تکلیفیں اور دکھ دیئے تاکہ میں سمجھ جاؤں۔
میں تھوڑی تکلیف سے بھی جب نہ سمجھا تو اس نے مجھے معزور اور لاغر بنا دیا میری رونقیں اور جوانی شوخیاں سب واپس لے لیں۔ اب میں کسی سہارے کے رحم و کرم پر تھا۔
میری گزرتی ہوئی زندگی لاچار ہو رہی تھی۔ میں لمحہ بہ لمحہ زمین کے اندر جانے والے رستے پر چل پڑا تھا، میری منزل نزدیک تھی اورجب میں موت کی آغوش میں جانے والا تھا تو مجھے اس کے کریم ہونے کا خیال آیا۔ میرے سامنے میری زندگی کسی فلم کی طرح چلنے لگی۔ میں ڈر گیا۔ میں سہم گیا۔
میں اپنے رب کے آگے رحم کی بھیک مانگنے لگا۔ میں یاد کرنے لگا کہ میں عبداللہ خاکی ہوں۔
میں اسکی بارگاہ میں توبہ کرنے لگا کیونکہ مجھے میرے گناہ یاد آ رہے تھے اور میں جان چکا تھا کی اب واپس جانا ہے، اب زندگی کا میلہ اپنے اختتام پر ہے، اب سانسیں ٹوٹنے والی ہیں اور موت کا فرشتہ حکمِ الہی کے انتظار میں میرے سامنے کھڑا ہے- مالک نے نوکر سے سونپے گئے کام کے متعلق سوال کرنے ہیں۔ مجھے میرے ابدی گھر واپس جانا ہے۔ مجھے کفن دیا جائے گا۔ میری دنیا ختم ہونے والی ہے۔ مجھے اک بار پھر یہ احساس دلایا جانا ہے کہ میں خاکی ہوں -مجھے خاک کے اندر لٹایا جانا ہے اور منوں مٹی مجھ پر ڈالی جانی ہے۔ میں اس کے قہر اور غضب سے ڈرنے لگا تھا مجھے موت آنے والی تھی۔ میرا دنیاوی نام مردہ یا مرحوم، میرا لباس کفن، میرا گھر قبر میں تبدیل ہونے والا تھا۔
مگر وہ رب ہے میرا تخلیق کار ہے وہ کیسے چاہے گا کہ میں اس کی رحمت سے مایوس ہو جاؤں۔ وہ کیسے چاہے گا کہ اس کے ہاتھ سے بنایا گیا شاہکار اس کا نائب آگ کا ایندھن بنے۔
اس نے مجھے ستر(70) ماؤں سے زیادہ پیار کرنے کا کہا ہے۔ اس نے رحیم ہونے کا کہا ہے۔ وہ مجھے بخشے گا۔
اس نے میری توبہ قبول کرنے کا آخری موقع دیا- جب میری سانس اٹک رہی تو تھی میں نے توبہ کی اور اس نے میرے لبوں پر اپنا نام جاری کر کے میرا عبداللہ خاکی ہونے کا شرف اور حق مجھے دے دیا ۔
کیا آپ اپنے دنیاوی نام سے اس کے ہاں پیش ہونا چاہتے ہو یا عبداللہ خاکی۔ یہ آپ پر منحصر ہے۔
اللہ خاتمہ ایمان پر کرے آمین۔ بقلم خود۔ تجمل نقوی