ربیع م
محفلین
عثمانی ترکوں کی بحریہ
ثروت صولت
تاریخ اسلام میں عربوں کے بعد بحری قوت کو سب سے زیادہ ترقی عثمانی ترکوں نے دی ۔ عثمانی مملکت کا آغاز شمالی مغربی ترکی کے ایک ایسے علاقے سے ہوا جو چاروں طرف خشکی سے گھرا ہوا تھا اس لئے ابتداء میں بحری قوت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ہاں اس زمانے میں ان ترک ریاستوں کے پاس جو بحیرہ ایجن اور بحیرہ روم کے کنارے واقع تھیں چھوٹے چھوٹے بحری بیڑے موجود تھے ۔ سلطان اور خان (1326 تا 1259) کے زمانے میں جب عثمانی مملکت کی حدود بحیرہ مرمرہ تک پہنچ گئیں تو پہلی مرتبہ عثمانیوں کو بحری بیڑے کی ضرور ت محسوس ہوئی ۔ چنانچہ 1354ء میں جب ترک درہ دانیال پارکرکے پہلی مرتبہ یورپ میں داخل ہوئے تو انھوں نے ایک ساحلی ترک ریاست قرہ سی کے جہاز استعمال کئے ۔ یہ ریاست چند سال پہلے عثمانیوں کے قبضے میں آچکی تھی ۔
بایزید یلدرم (1389 تا 1402) کے زمانے میں آیدن ، منتشے ، اور صاروں خان کی ساحلی ریاستیں عثمانی مملکت میں ضم کر لی گئیں اور ان کے بحری بیڑے عثمانی بیڑے میں شامل کر لئے گئے اور اس طرح پہلا عثمانی بیڑہ وجود میں آیا ۔ اب عثمانی مملکت کی حدود بحیرہ ایجن اور بحیرہ روم تک پہنچ گئی تھیں اور عثمانیوں نے بحیرہ ایجن میں پہلی مرتبہ بحری سرگرمیوں کا آغاز کیا ۔ گیلی پولی میں جہاز سازی کا پہلا کارخانہ قائم کیا گیا ۔گیلی پولی کو سنجق بے کا درجہ دے کر اس کو عثمانی بحریہ کا مرکز قرار دیا گیا۔
عثمانیوں کی پہلی بحری جنگ 29 مئی 1416 ء کو وینس والوں سے ہوئی ۔یہ جنگ جزیرہ مرمرہ اور گیلی پولی کے درمیان ہوئی ۔ اس جنگ میں عثمانیوں کو شکست ہوئی اور ان کا کپتان چالی بے شہید ہو گیا۔ وینس کے بیڑے کے امیر البحر کی آنکھ زخمی ہوئی ۔ اس جنگ کے بعد عثمانیوں کو بحری قوت کی ضرورت کا پہلی مرتبہ احساس ہوا لیکن بحریہ کو ترقی دینے کی باضابطہ کوشش محمد فاتح (1451 تا 1481ء) کے زمانے میں ہوئی ۔
محمد فاتح اور بحریہ
محمد فاتح عثمانی بحریہ کا حقیقی بانی ہے ۔ اس کے زمانے میں عثمانی بحریہ بحیرہ روم کی صف اول کی طاقت بن گئی اور اس نے بحیرہ اسود ، بحیرہ ایجن اور بحیرہ روم میں کئی اہم معرکے سر کئے ۔ 1456ء میں محمد فاتح نے جو بیڑہ جزائر ایجن کی تسخیر کیلئے گیلی پولی سے روانہ کیا تھا وہ 180 جہازوں پر مشتمل تھا ۔ اس بیڑے نے بحیرہ ایجن کے کئی جزیروں پر قبضہ کر لیا جن میں جزائر امبروس ، تھاسوس ، ساموتھریس اور لیمونس قابل ذکر ہیں ۔ 1462ء میں لیبوس کا جزیرہ بھی فتح کر لیا گیا ۔ اس کے بعد وینس سے سخت بھری جنگوں کا آغاز ہوا جس کے دوران 1470ء میں جزیرہ ایوبیا(Eubuea) بھی فتح کر لیا گیا جو وینس کا اہم اڈہ تھا۔ اس کے چند سال بعد بحیرہ ایجن کے وہ جزیرے بھی فتح کر لئے گئے جو جزائر آیونین کہلاتے ہیں ۔
1450ء میں عثمانی بیڑے نے جو ایک سو جہازوں پر مشتمل تھا احمد گدک پاشا کی سرکردگی میں چالیس ہزار فوج بحیرہ اسود وکو پار کرکے جزیرہ نما کریمیا میں اتار دی جس نے نہ صرف کا فہ کا مشہور شہر اور بحیرہ اسود کے دوسرے بندرگاہ جو اہل جنیوا کے قبضے میں تھے فتح کر لیے بلکہ کریمیا کی منگول مملکت کو بھی باجگذار بنا لیا۔
1480 ء میں محمد فاتح نے ایک سو ساٹھ جہازوں کی مدد سے جزیرہ رہوڈس پر حملہ کیا۔ اگرچہ یہ حملہ ناکام رہا اور رہوڈس تسخیر نہ ہو سکا لیکن اسی سال احمد گدک پاشا نے البانیہ کی طرف سے بحیرہ ایڈریاٹک پار کر کے اٹلی کی بندرگاہ اوٹرانٹو فتح کر لی ۔
اگر محمد فاتح کا اس موقع پر انتقال نہ ہو جاتا اور بایزید ثانی جو اس کا جانشین ہوا احمد گدک کو واپس نہ بلا لیتا تو کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اٹلی کا ایک بڑا حصہ ترکوں کے قبضہ میں آ چکا ہوتا ۔
سلطان بایزید ثانی (1481 تا 1512) کے زمانہ میں عثمانی بیڑے کو مزید توسیع دی گئی اور اس زمانے میں ترکوں نے کئی اہم بحری معرکے سر کئے اور عثمانی بیڑے نے پہلی مرتبہ مغربی بحیرہ روم میں داخل ہو کر اسپین کے ساحل پر حملے کئے ۔ یہ حملے 1490 ء میں غرناطہ کے آخری حکمران کی مدد کیلئے کئے گئے تھے ۔ بایزید ثانی کے زمانے میں امیر البحر کمال رئیس نے بڑا نام پیدا کیا ۔ اسپین پر حملے اسی نے کئے تھے پھر 1498ء میں مشرقی بحیرہ روم میں کئی بحری مہموں میں حصہ لیا اور مسیحی حکومتوں کے کئی جہاز پکڑے ۔ 1499ء میں جب وینس سے جنگ ہوئی تو عثمانی بیڑے کا امیر البحر کمال رئیس ہی تھا ۔ اس بیڑے میں تین غیر معمولی طور پر بڑے اور نو تعمیر جہاز شامل تھے ۔ اس جنگ میں وینس کے بیڑے کو شکست دے کر ترکوں نے لپانٹو کی بندرگاہ فتح کر لی اس کے بعد اگلے سال کمال رئیس نے چالیس جہازوں سے نوارینو پر حملہ کر کے اسے بھی فتح کر لیا اور اس طرح جزیرہ نما موریا سے وینس کو ہمیشہ کیلئے بے دخل کر دیا گیا[ii]۔
بایزید کے بعد اس کے جانشین سلیم اول (1513ء تا 1520ء ) نے مصر کی فتح کے بعد بحری بیڑے پر خاص طور پر توجہ دی ۔ اس کے زمانے میں جہاز سازی کے کئی کارخانے تعمیر کیے گئے جن میں ڈیڑھ سو بڑے سائز کے اور ایک سو چھوٹے سائز کے جہاز تیار کئے گئے ۔ بڑے جہازوں میں سے ہر ایک کا وزن سات سات سو ٹن [iii] تھا ۔ لیکن قبل اس کے کہ سلیم نئے بیڑے کی مدد سے کوئی مہم شروع کرتا اس کا انتقال ہو گیا۔
عثمانی بحریہ کا عہد عروج
سلیم کے لڑکے سلیمان اعظم قانونی (1520ء تا 1566ء ) کے زمانے میں عثمانی بیڑہ اپنی طاقت اور جہازوں کی تعداد کے لحاظ سے اپنے عروج پر پہنچ گیا اور بحرروم کی سب سے بڑی بحری طاقت بن گیا اور عثمانی سلطنت دنیا کی عظیم ترین سلطنت بن گئی ۔ سلیمان قانونی کے زمانہ میں بحری جہازوں کی تعداد تین سو تک پہنچ گئی [iv] اور عثمانی بیڑے کی سرگرمیاں بحیرہ روم سے گزر کر بحیرہ احمر، خلیج فارس اور بحیرہ عرب اور بحرہند تک پھیل گئیں ۔ ترکوں نے کئی بڑی بحری جنگیں لڑیں جن کے نتیجے میں طرابلس ، الجزائر اور یمن کے علاوہ عرب کے مشرقی ساحل اور حبش کے مشرقی ساحل پر عثمانیوں کا تسلط قائم ہو گیا ۔ بحیرہ روم میں رہوڈوس کا جزیرہ فتح ہوا۔ ترکی کے مشہور امیرالبحر خیرالدین باربروسہ ، پیالہ پاشا، پیری رئیس ، سیدی علی اور طورغود اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں اور دنیا کے بہترین جہازرانوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ اس زمانے میں فن جہازرانی پر ترکی زبان میں کتابیں بھی لکھی گئیں اور بحری نقشے بھی تیار ہوئے جن میں امریکہ کی بھی نشاندہی کی گئی تھی ۔ اسلامی دنیا میں یہ پہلی کتابیں اور نقشے تھے جن میں امریکہ کا تذکرہ کیا گیا تھا۔
سلیمان قانونی کے زمانے میں خیرالدین باربروسہ نے 1538ء میں پری ویسا کے مقام [v] پر اور پیالہ پاشا نے 1560ء میں جربہ کے مقام پر یورپ کے متحدہ بحری بیڑوں کو شکست دی ۔
سلیمان قانونی کے دور کی آخری بڑی مہم جزیرہ مالٹا پر حملہ تھا جس میں 181 جہازوں اور تیس ہزار فوج نے حصہ لیا تھا۔لیکن مالٹا کی مضبوط قلعہ بندیوں کی وجہ سے مالٹا فتح نہ ہو سکا اور ترکوں کو محاصرہ اٹھا کر واپس آنا پڑا۔
بحیرہ عرب میں اس زمانے میں جو بحری مہمیں بھیجی گئیں ان میں 1538ء کی مہم اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کہ اس مہم کے دوران امیر البحر سلیمان پاشا نے عدن کو پرتگیزوں سے آزاد کرانے کے بعد گجرات پہنچ کر پرتگیزی بندرگاہ " دیو" کا محاصرہ کر لیا ۔ لیکن سلیمان کی خودآرائی نے امرائے گجرات کو آزردہ کر دیا اور انھوں نے عثمانی بیڑے کو رسد بھیجنا بند کر دی نتیجہ یہ ہوا کہ ترکی بیڑے کو واپس ہونا پڑا۔
سلیمان اعظم کے بعد 1571ء میں لپانٹو کے مقام پر عثمانی بیڑے کو یورپ کے متحدہ بیڑے کے مقابلے میں جو اسپین ، وینس اور مالٹا کے بیڑوں پر مشتمل تھا بڑی تباہ کن شکست ہوئی جس میں چالیس جہازوں کوچھوڑ کر جن کو امیرالبحر اولوج پاشا بمشکل بچا سکا پورا عثمانی بیڑہ تباہ ہوگیا۔ لیکن اس شکست سے قبل ترک قبرص کا جزیرہ وینس سے چھین چکے تھے ۔ لپانٹو کی شکست کے بعد وینس کا سفیر لپانٹو کی شکست کے اثرات معلوم کرنے کیلئے وزیراعظم محمد صوقولی پاشا کے پاس آیا تو صوقولی پاشا اس کی وجہ سمجھ گیا اور اس نے سفیر کو مخاطب کر کے کہا:
"میں تمہاری آمد کی وجہ جانتا ہوں ۔ تم یہ جاننا چاہتے ہو کہ لپانٹو کی جنگ کا ہمارے اوپر کیا اثر پڑا ، لیکن یہ سمجھ لو کہ ہم نے تم سے قبرص لے کر تمہارا ایک بازو کاٹ دیا ہے اور تم نے ہمارے بیڑے کو تباہ کر کے صرف ہماری ڈاڑھی مونڈی ہے ۔ لیکن یاد رکھو کہ کٹا ہوا بازوپھر واپس نہیں لگ سکتا لیکن مونڈی ہوئی ڈاڑھی پھر سے نکل آئے گی اور زیادہ بھرپور ہوگی ۔[1]
صوقولی پاشا نے جیسا کہا تھا ویسا ہی ہوا۔ اس موقع پر وزیراعظم صوقولی پاشا اور امیر البحر اولوج پاشا کے درمیان جو گفتگو ہوئی اس سے عثمانی سلطنت کے عظیم وسائل کا اندازہ کی جا سکتا ہے ۔ وزیراعظم نے امیرالبحر اولوج پاشا کو موسم سرما کے اندر اندر دو سو نئے جہاز تیار کرنے کی ہدایت کی ۔ اولوج پاشا نے جب اتنی کم مدت میں اتنے کم جہازوں کی تیاری کو مشکل قرار دیا تو صوقولی پاشانے اس کو مخاطب کر کے کہا:
"پاشا ابھی تم اس سلطنت کو نہیں پہچانے ۔یہ وہ مملکت ہے کہ اگر وہ چاہے کہ بیڑے کے تمام اسطول چاندی سے ، رسیاں ریشم سے اور بادبان اطلس و کمخواب سے بنائے جائیں تو وہ ایسا کرنے پر قادر ہے "[2]
چنانچہ صوقولی پاشا کی ہدایت پر 168 جہازوں کی تعمیر کا کام فورا شروع ہو گیا اور پانچ ماہ کی مختصر مدت میں ان کی تعمیر مکمل کر لی گئی ۔ 1572ء میں جب اتحادی بیڑہ بحیرہ روم کے مشرقی حصہ میں جمع ہوا تو اولوج پاشا اپنے نئے بیڑے کے ساتھ مقابلے پر نکل آیا۔ مسیحی بیڑے نے جب اپنی توقع کے خلاف اتنے بڑے بیڑے کو صف آراء دیکھا تو وہ حملہ کئے بغیر واپس چلا گیا۔ اس نئے بیڑے کی مدد سے اولوج پاشا نے 1573ء میں تونس کو پھر فتح کرلیا جس پر 1569ء میں اسپین نے قبضہ کر لیا تھا۔
اسی زمانے میں 1570ء میں ترک جہازران خضررئیس کی کمان میں ترک بیڑہ بحرہند کو پار کر کے سماترہ پہنچا اور پرتگیزوں کے خلاف وہاں کے حکمراں کی مدد کی۔
صوقولی پاشا ہی کے دور میں عثمانی تاریخ کا (دفاعی جہازوں کے دور سے قبل) سب سے بڑا جہاز بنایا گیا جس کی پتواریں 576 آدمی چلاتے تھے ۔
سترہویں صدی میں بھی ترکی بیڑہ ایک حد تک اپنی برتری قائم رکھنے میں کامیاب رہا۔ 1625ء میں امیرالبحر مراد رئیس کی کمان میں ترکی بیڑے نے ایک بڑا جرات مندانہ اقدام کیا۔ بیڑہ بحر اوقیانوس کو چیرتا ہوا انگلستان اور آئرلینڈ کے درمیان لونڈی(Lundi) کے جزیرہ پر قابض ہو گیا۔ اس کے بعد وہ ڈنمارک پہنچا ، پھر وہاں سے ناروے کا کے شمال مغربی ساحل تک گشت کرنے کے بعد آئس لینڈ کے جنوب سے گذرتا ہوا بحراوقیانوس کو پار کر کے نیوفاؤنڈلینڈ کے قریب پہنچ گیالیکن یہاں امیرالبحر مراد رئیس اور اس کا جہاز ایک طوفان میں غرق ہو گیا۔
مذکورہ بالا مہم سے قطع نظر سترھویں صدی کے نصف اول میں عثمانی بحری قوت میں کسی قدر کمی آ گئی تھی اور اہل وینس نے دردانیال کا راستہ بند کردیا تھا۔ وزیراعظم کوپرولو (1656ء تا 1661ء) نے بحریہ کی تنظیم نو کی اور بیڑے کو اتنا طاقتور کردیا کہ عثمانی بیڑنے نے نہ صرف وینس کے بیڑے کو دردانیال کے قریب شکست دی بلکہ 1669ء میں وزیر اعظم احمد کوپرولو (1661ء تا 1672ء) نے کریٹ پر قبضہ کر کے وینس کی قوت کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیا۔
اب تک عثمانی بیڑے کے جہاز پتواروں سے چلائے جاتے تھے ۔ صرف الجزائر کے بیڑے سے متعلق جہاز بادبانوں سے چلتے تھے لیکن وزیراعظم قرہ مصطفیٰ (1667ء تا 1683ء ) کے زمانے سے عثمانی بیڑے میں بھی بادبانی جہاز استعمال ہونے لگے ۔ 1695ء میں جزیرہ ساکز (Chios) وینس سے ایک بار پھر چھین لیا گیا ۔ یہ عثمانی بیڑے کی آخری کامیابی تھی ۔
عثمانی بحریہ کا زوال
اٹھارہویں صدی سے وینس کے ساتھ عثمانی بحریہ کا زوال بھی شروع ہو گیا ۔ 1768ء کی روس اور ترکی کی جنگ میں روسی بیڑہ جسے انگریزوں نے تیار کیا تھا بحیرہ بالٹک اور جبل الطارق کے راستہ بحیرہ روم میں آیا اور 1770ء میں بندرگاہ چشمہ میں داخل ہو کر عثمانی بیڑے کو تباہ کر دیا۔
1774ء کے معاہدہ کوچک کناری کے بعد ترکوں کا زوال تیزی سے شروع ہو گیا اور خشکی اور تری دونوں میں یورپ کی برتری قائم ہو گئی ۔ ترکوں نے پہلی بار محسوس کیا کہ ان کو فوجی تنظیم نو یورپ کے انداز پر کرنی چاہئے ۔ چنانچہ ترکی میں ایک اسکول آف انجنئیرنگ قائم کیا گیا جس میں یورپی ماہرین کام کرتے تھے ۔ سلیم ثالث (1787ء تا 1807ء) کے زمانے میں بحریہ کو جدید طرزپر تیار کرنے کی کوشش کی گئی ، انجنئیرنگ اسکول کی توسیع کی گئی اور فوجی انجینرنگ کا اسکول قائم کیا گیا۔ تنظیم نو کا یہ کام جاری تھا کہ محمود ثانی (1808ء تا 1839ء) کے زمانہ میں برطانیہ ، فرانس اور روس کے متحدہ بیڑے نے خلیج نوارینو میں داخل ہو کر عثمانی بیڑےکو تباہ کر دیا ۔ یہ حادثہ 1827ء میں پیش آیا۔
ترکوں نے نوارینو میں عثمانی بیڑے کی تباہی کے بعد بھی بحریہ کی تشکیل و ترقی کا کام جاری رکھا ۔ 1828ء میں جزیرہ ہبیلی ادا میں بحریہ کی اکادمی قائم کی گئی۔ بادبانی جہازوں کی جگہ دخانی جہازوں کا استعمال شروع ہوا اور سلطان عبدالعزیز (1861ء تا 1876ء) کے زمانہ میں عثمانی بیڑے کو اتنا طاقتور بنا دیا گیا کہ وہ اس زمانے میں یورپ میں تیسرا سب سے طاقتور بیڑہ سمجھا جاتا تھا۔ سلطان عبدالحمید ثانی (1876ء تا 1909ء ) کے زمانہ میں یہ بیڑہ جو بڑی کوشش سے بنا تھا تغافل کا شکار ہو گیا اور اس نے اپنی قدیم اہمیت کو کھو دیا۔
جہازوں کی قسمیں
عثمانی بحریہ کے جہاز پتوار اور بادبان دونوں سے چلتے تھے ۔ شروع میں پتوار سے چلنے والے جہازوں کی تعداد زیادہ ہوتی تھی لیکن سترھویں صدی کے اواخر سے بادبانی جہازوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ۔ ان جہازوں کی پتواروں کی تعداد اور جہاز کے سائز کے مطابق مختلف نام ہوتے تھے ۔ پتواروں کے لحاظ سے عثمانی جہازوں کی بڑی بڑی قسمیں یہ تھیں :
1. قادرغہ یا چکتیری: انگریزی میں ان کو گیلے (Galley) لکھا جاتا ہے ۔ قابودان یعنی کپتان کا بڑا قادرغہ جہاز باشتردہ کہلاتا تھا۔ اس قسم کا سب سے بڑا جہاز جس کو (Maons) کا نام دیا گیا تھا 1575ء میں بنایا گیا تھا۔ اس میں پتوار چلانے والوں کی تعداد 567 تھی ۔ ویسے ایک قادرغہ میں عام طور پر ایک سو پچاس پتوار باز ہوتے تھے ۔ شروع میں ان جہازوں میں سے ہر ایک پر بیس بیس توپیں ہوتی تھیں لیکن لپانٹو کی جنگ کے بعد ان کی تعداد اور معیار دونوں میں اضافہ کر دیا گیا۔ قادرغہ کو ہم اس دور کے ہلکے کروزر کہہ سکتے ہیں ان کی وہ اقسام جو باشتردہ اور (Maons) کہلاتی تھی اس دور کے بھاری جنگی جہاز تھے ۔
2. قالیتہ (Kalite) جن کو انگریزی میں (Galliot) لکھا جاتا ہے یہ قادرغہ کے مقابلے میں چھوٹے ہوتے تھے ۔
3. فرقاتہ (Firkate) ان کو انگریزی میں فریگیٹ لکھا جاتا ہے ۔ قادرغہ جہاز کی دو قسمیں ہوتی تھیں ایک خاصہ قادرغہ لر کہلاتے تھے اور دوسرے بے قادرغہ لر ۔ خاصہ کو مرکزی حکومت خود بناتی تھی اور بے قادرغہ لر کو کپتان پاشا کی ایالت کے سنجق بے بناتے تھے ۔
بادبانی جہازوں کے نام یہ تھے :
1. قروت(Kurvet) یہ سب سے بڑا جہاز ہوتا تھا ۔ بادبانی جہازوں میں اس کی وہی حیثیت ہوتی تھی جو پتوار سے چلنے والے جہازوں میں قادرغہ کی تھی ۔ اس قسم کے جہازوں میں سب سے بڑا جہاز قالیون (Kalyon) کہلاتا تھا۔ ان میں سے ہر جہاز پر توپوں کی دو دو قطاروں کے علاوہ دو دو ہزار فوجی اور ملاح ہوتے تھے ۔
2. فرقاتین : یہ قروت سے چھوٹے ہوتے تھے اور دو قسم کے ہوتے تھے جن کو بالترتیب دوپٹ والے دروازوں والے (Iki Amberli Kapek) اور تین پٹ والے دروازوں والے (Uch Amberli Kapak) جہاز کہا جاتا تھا۔
بحری بیڑے کے کمان دار کو قابودانِ دریائی یا صرف قابودان پاشا کہا جاتا تھا۔ بیڑے کے چھوٹے حصوں کے سردار کو صرف قابودان (کپتان ) اور رئیس کہا جاتا تھا رئیس کے مقابلے میں کپتان بڑا ہوتا تھا بادبانی جہازوں کے رواج کے بعد بیڑوں کو تین امیر البحروں کے سپرد کیاگیا تھا جو قابودان دریائی کے تحت ہوتے تھے۔ مرتبہ کے لحاظ سے وہ بالترتیب قابودانہ ، پترونہ اور ریالے کہلاتے تھے ۔
جہازوں کا عملہ عارضی ملاحوں ، جنگی قیدیوں ، کاریگروں ، نجاروں ، رنگسازوں اور توپچیوں وغیرہ پر مشتمل ہوتا تھا۔
جنگ ہو یا نہ ہو عثمانی بیڑہ ہر سال اوئل موسم بہار میں بحیرہ روم میں نکل جاتا تھا اور موسم خزاں کے اختتام تک گشت کرتا رہتا تھا اور سردیاں شروع ہونے سے پہلے استنبول کی بندرگاہ میں واپس جاتا تھا۔
جنگ کا طریقہ یہ تھا کہ سب سے پہلے توپوں سے شدید گولہ باری ہوتی تھی۔ اس کے بعد جہازوں کو ایک دوسرے سے قریب لا کر ان پر چڑھنے کی کوشش کی جاتی تھی اور پھر دست بدست جنگ شروع ہوجاتی تھی ۔ الجزائر ، تونس اور طرابلس کے بیڑے الگ تھے ، لیکن بڑی جنگ کے زمانے میں وہ عثمانی بیڑے میں شامل ہو جاتے تھے اور جب جنگ نہیں ہوتی تھی تو بحیرہ روم اور بحراوقیانوس میں قزاقی کرتے تھے ۔ بحرہند کا بیڑہ بھی جس کا مرکز سوئز تھا اصل عثمانی بیڑے سے الگ تھا۔ عروج کے زمانے میں عثمانی بیڑے میں جہازوں کی تعداد تین سو تھی ۔
جہاز سازی
عثمانی دور میں تمام جہاز ترک خود بناتے تھے ۔ مزدور یونانی ہوتے تھے اور جہاز سازی کی نگرانی اہل وینس کرتے تھے ۔جہاز سازی کے سب سے بڑے کارخانے استنبول ، گیلی پولی اور ازمت میں تھے ۔ عروج کے زمانے میں اہل وینس اپنے جہاز بھی ترکی کے کارخانوں میں بنواتے تھے جن کو ترسانہ کہا جاتا تھا۔ لکڑی بحیرہ اسود کے جنگل سے ، دھاتیں ، مولداویا اور ولاچیا کی کانوں سے اور بادبانی کپڑا فرانس سے آتا تھا ۔ ایک باضابطہ نظام کے تحت ہر کارخانہ کیلئے سامان فراہم کرنے کے لئے علاقے مخصوص کردئیے گئے تھے ۔ مثلا لیمفوس کے کارخانے کیلئے لکڑی جزیرہ تھاسوس سے حاصل کی جاتی تھی ۔ اسی طرح بحریہ کے عملے کیلئے پوری سلطنت کو اضلاع میں تقسیم کردیا گیا تھا اور ہر ضلع کیلئے بھرتی کا کوٹا مقر ر کر دیا گیا تھا۔
استنبول کے ترسانہ میں کپتان پاشا کے بعد ترسانہ کد خدا کا درجہ تھا اور پھر ترسانہ امین کا ۔ ترسانہ کا محافظ جانب آفندی کہلاتا تھا۔ بادبانی جہازوں کے آغاز تک ترسانہ کدخدا کی حیثیت نائب امیر البحر کی ہوتی تھی اور وہ ترسانہ میں موجود رہتا تھا۔
ترسانہ امین کی تربیت باب عالی میں ہوتی تھی اور وہ رسد ، آمدنی اور اخراجات کا حساب رکھتا تھا۔ یہ عہدہ 1830ء میں ختم کر دیا گیا اور اس کے فرائض کپتان پاشا کے سپرد کر دئیے گئے ۔
1841ء میں فوج اور بحریہ کے لئے نئے عہدے مقرر کئے گئے ۔ 1851ء وزارت بحریہ قائم کی گئی ۔ اب ترسانہ امینی کے فرائض اس کے سپرد کر دئیے گئے ۔ قابودان دریائی کا نام ختم کردیا گیا اور بحری بیڑے کی ایک کمانڈ کونسل بنا دی گئی ۔ 1876ء میں قابودان دریائی کا نام پھر بحال کر دیا گیا ۔ آخر 1881ء میں وزیر بحریہ اور بحریہ کے کمانڈر انچیف کے عہدے ملا دئیے گئے اور مشیر کے نام سے نیا عہدہ قائم کیا گیا۔ یہ انتظام عثمانی سلطنت کے آخر تک قائم رہا۔
اس جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان چند عثمانی جہازرانوں کے مختصر حالات بھی پیش کر دئیے جائیں جنہوں نے عثمانی بحریہ کی تنظیم وترقی کے کام میں حصہ لے کر اس کو دنیا کا طاقتور ترین بحریہ بنا دیا تھا اور بحری معرکوں میں شاندار کامیابیاں حاصل کیں ۔
خیرالدین باربروسہ (1483ء تا 1546ء)
عثمانی جہازرانوں میں خیرالدین کا نام سرفہرست ہے
خیرالدین کا اصلی نام خضربے تھا۔ وہ 1483ء میں بحیرہ ایجن کے جزیرے مدتی میں پیدا ہوا ۔ یہ کئی بھائی تھے ۔ اس کا سب سے بڑا بھائی عروج بے تونس کی حکومت کا ملازم تھا ۔ شروع میں یہ سب بھائی بحری قزاقی کرتے تھے عروج نے بعد میں الجزائر میں اپنی حکومت بھی قائم کر لی ۔ عروج کے مرنے کے بعد خضر بے اس کا جانشین ہوا ، لیکن اس موقع پر الجزائر میں عام بغاوت ہو گئی ۔ خضر بے نے سلطان سلیم عثمانی سے مدد طلب کی اور خراج دینے کا وعدہ کیا ۔ سلطان سلیم نے جو 1517ء میں مصر فتح کر چکا تھا اس موقع سے فائدہ اٹھایا ، اس کو پاشا کا خطاب اور بیلر بے کا عہدہ دیا اور دو ہزار سپاہی مع توپ خانہ کے الجزائر روانہ کر دئیے ۔ خضر بے کئی سالوں تک مقامی قبائل اور اسپین کے حملہ آوروں سے لڑتا رہا بالآخر اس نے پورا الجزائر فتح کرلیا۔
الجزائر کی بندرگاہ اسی کی تعمیر ہے ۔ 1533ء میں سلیمان قانونی کے طلب کرنے پر وہ استنبول پہنچا جہاں اس کا پرجوش خیر مقدم کیا گیا۔ سلیمان نے اس کو خیرالدین کا خطاب دیا اور عثمانی بیڑے کا قابودان پاشا یعنی امیرالبحر مقرر کیا۔ وہ اپنی وفات تک اس عہدہ پر فائز رہا۔
خیرالدین باربروسہ نے ترکی بیڑے کو ازسرنو منظم کیا اور اس میں توسیع کی ۔ خیرالدین کے زمانہ میں عثمانی بیڑے کی سرگرمیوں میں بہت اضافہ ہو گیا۔ اگست 1534ء میں خیرالدین نے تونس پر قبضہ کر لیا لیکن اگلے سال جولائی میں ہسپانوی حکمران چارلس پنجم نے یہ شہر پھر چھین لیا۔ اس کے بعد خیرالدین نے جزائر بلیارک پر جوابی حملہ کیا اور وہاں سے چھ ہزار قیدی پکڑ کر الجزائر لے آیا۔ 1537ء میں اس نے اٹلی میں اپولیا کا ساحل تاراج کیا اور برنڈزی کی بندرگاہ پر چھاپا مارا ۔ بحیرہ ایجن میں اس نے جزائر ڈوڈاکینیر فتح کئے اور جزیرہ کریٹ پر چھاپہ مارا۔ اسی زمانہ میں خیرالدین باربروسہ نے جنیوا کے امیرالبحر ایندریاس ڈوریا کو جو مسیحی دنیا کا بحرروم میں سب سے بڑا جہازراں سمجھا جاتا تھا دو بحری جنگوں میں شکست دی ۔ ایک خلیج پرے ویزا کے مقام پر اور دوسری سینٹ مورا کے مقام پر ۔ پرے ویزا کی جنگ دنیا کی عظیم ترین بحری جنگوں میں شمار ہوتی ہے ۔ یہ جنگ 2 ستمبر 1538ء کوئی ہوئی تھی اور اس میں خیرالدین پاشا نے صرف 122 درمیانی درجہ کے جہازوں سے اسپین ، جنیوا ، پاپائے روم ، وینس اور مالٹا کے متحدہ صلیبی بیڑے کو جو 393 بڑے جہازوں پر مشتمل تھا شکست فاش دے کر اپنی جنگی مہارت کا حیرت انگیز ثبوت دیا۔
1539ء میں اس نے جزیرہ نما موریا میں وینس کے مقبوضہ کئی مقامات فتح کرکے وینس کو باب عالی سے صلح کرنے پر مجبور کردیا۔
1541ء میں جب فرانس اور اسپین میں جنگ شروع ہوئی تو عثمانی حکومت نے خیرالدین کو فرانس کی مدد پر مامور کیا ۔ 1543 ء میں اس نے اٹلی کے ساحلوں کا گشت کیا ، ریگیو فتح کیا ، کلابریا کا ساحل تاراج کیا اور نیس (فرانس) کی بندرگاہ فتح کر لی ۔ خیرالدین نے موسم سرما طولون میں گذارا لیکن اسی دوران اس کے بیڑے کے دوسرے حصے نے اسپین میں قطلونیا کے ساحل کو تاراج کیا ۔ 1544ء میں جب جنگ بند ہوگئی تو باربروسہ اٹلی میں ٹسکنی اور نیپلز کے ساحلوں کو تاراج کرتا ہوا استنبول واپس آگیا۔ خیرالدین باربروسہ کے عظیم کارناموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے ستر ہزار مظلوم مسلمانوں کو اسپین سے نکال کر الجزائرپہنچایا۔
باربروسہ نے 4جولائی 1546ء کو استنبول میں انتقال کیا جہاں باسفورس کے کنارے اس کے کئی محل تھے ۔ وہ محلہ بیوک دیرے میں اپنی بنوائی ہوئی مسجد کے صحن میں دفن ہوا ۔
مرنے سے پہلے اس نے وصیت کی تھی کہ اس کے ان آٹھ سو غلاموں کو جن کی عمر پندرہ سال سے کم ہے آزاد کر دیا جائے اور باقی غلام اور اس کے ذاتی تیس مسلح جہازوں کو سلطان کے سپرد کر دیا جائے ۔ باقی دولت اس کے بیٹے حسن پاشا اور بھتیجے کو ملی ۔ خیرالدین باربروسہ علم وفن کا سرپرست تھا اور اس نے اپنی دولت کا بڑا حصہ ایک مدرسہ قائم کرنے پر صرف کیا تھا۔
وہ الجزائر کی نیم حکومت آزاد حکومت کا حقیقی بانی تھا۔
پیالہ پاشا
خیرالدین پاشا کے بعد بحری معرکہ آرائیوں میں سب سے زیادہ شہرت پیالہ پاشا نے حاصل کی ۔ وہ نسلا کرشیائی تھا ۔ اس کا باپ عبدالرحمٰن نومسلم تھا ۔ پیالہ نوعمری ہی میں استنبول میں شاہی محل سے وابستہ ہو گیا تھا اور وہیں اس نے تربیت حاصل کی ۔ 1554ء میں سنان پاشا کی جگہ جو 1548 ء سے 1554 ء تک عثمانی بیڑے کا امیرالبحر رہا تھا ، پیا لے پاشا کو قابودان پاشا یعنی امیر البحر مقرر کیا گیا اور سنجق بے کا عہدہ ملا۔ چار سال بعد بیلر بے ہو گیا۔ سلیمان قانونی نے اپنی پوتی جوہر سلطان سے اس کی شادی کر دی تھی اور اس طرح شاہی خاندان سے اس کا قریبی تعلق قائم ہو گیا۔
پیالہ پاشا سلطان سلیمان قانونی کی وفات تک قابودان پاشا کے عہدے پر فائز رہا ۔ اس دوران میں اس نے کئی بحری مہموں میں حصہ لے کر ایک عظیم ترین عثمانی امیر البحر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی ۔ اس نے نیپلز کے قریب اٹلی کے ساحل کو تاراج کیا۔
ریگیوفتح کیا ۔ 1555ء میں جزائر ایلبا اور پیوم بینو کا محاصرہ کیا ۔ اگلے سال اس نے ساٹھ جہازوں کی مدد سے تونس میں بزرتا کی بندرگاہ کو فتح کیا اور دوسرے سال ڈیڑھ سو جہازوں سے جزیرہ مجارکا کو تاخت وتاراج کیا اور نیپلز کے پاس سورنتو کے قصبہ کو جلا دیا۔
1560 ء میں دو جہازوں پر مشتمل ایک مسیحی بیڑہ طرابلس کو واپس لینے کیلئے ڈوریا کی سرکردگی میں طرابلس کی طرف روانہ ہوا۔ اس کی خبر ملتے ہی پیالہ پاشا ایک سو بیس جہازوں کو لے کر دردانیال سے نکلا ۔ تونس کے مشرق میں واقع جزیرہ جربہ کے پاس 14مئی 1560ء کو زبردست جنگ ہوئی ۔ڈوریا کو شکست فاش ہوئی ۔ اس کے پچاس جہاز تباہ ہوگئے اور سات گرفتار کر لئے گئے ۔ اس کے بعد پیالہ پاشا نے جزیرہ جربہ اور وہران کے صوبے پر جو الجزائر کے مغرب میں واقع ہے اور اسپین کے قبضے میں تھے حملہ کر کے دونوں کو سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لیا۔ 27 ستمبر کو وہ فاتحانہ انداز میں استنبول میں داخل ہوا۔
1565ء میں جب عثمانی ترکوں نے مالٹا پر حملہ کیا تو عثمانی بیڑے کا امیرالبحر پیالہ پاشا ہی تھا ۔ وہ اس سے قبل ابتدائی کاروائی کے طور پر اگست 1564ء میں چٹانی جزیرہ نما" پی نون دی ویلیز"(Penon Develez) فتح کر چکا تھا۔
1566ء میں پیالہ پاشا نے جزیرہ ساکز( Chios) فتح کیا اور اٹلی میں اپولیا کے ساحل پر چھاپہ مارا ۔ اسی سال ہنگری کی مہم کے دوران پیالہ استنبول کی بندرگاہ اور ترسانہ کا انچارج مقرر کیا گیا۔
سلطان سلیم ثانی کے زمانہ میں پیالہ پاشا معزول کر دیاگیا لیکن اس کے بعد بھی اس نے کئی بحری معرکوں میں حصہ لیا ۔ 1570 میں 75 قادرغہ اور تیس چھوٹے جہازوں کو لے کر اس نے جزیرہ تینا(Tine) فتح کیا اور قبرص کی فتح میں حصہ لیا ۔ پیالہ پاشا کا 21 جنوری 1578ء کو استنبول میں انتقال ہوا۔
پیری رئیس
اس کا اصل نام پیری محی الدین رئیس تھا۔ بایزید ثانی کے مشہور امیر البحر کمال رئیس کا بھتیجا تھا ۔ اس نے پہلے کمال رئیس کے ساتھ اور پھر خیرالدین باربروسہ کے ساتھ کئی بحری مہموں میں حصہ لیا۔ اپنے نمایاں کارناموں کی بدولت سلیمان قانونی نے اس کو مصر قابودان پاشا مقرر کیا اور اس کی قیادت میں ایک بیڑہ بحیرہ عرب اور خلیج فارس کی طرف روانہ کیا تاکہ وہاں سے پرتگیزوں کو بے دخل کیا جا سکے ۔ پیری رئیس 1551 ء میں سوئیز سے روانہ ہوا۔ عدن اور مسقط کی بندرگاہوں کو پرتگیزوں سے چھین لیا اور مسقط میں پرتگیزوں کے کئی جہاز بھی چھین لئے ۔ اس کے بعد اس نے پرتگیزوں کے اڈے ہرمز کا محاصرہ کر لیا۔ لیکن یہ سن کر کہ دشمن کا بیڑہ قریب آرہا ہے محاصرہ اٹھا کر بصرہ واپس آگیا اور پندرہ جہاز وہاں چھوڑ کر صرف تین جہاز لے کر مصر واپس آگیا۔ والی بصرہ کی شکایت پرپیری رئیس پر دشمن سے رشوت لینے کا الزام لگایا گیا اور اسی جرم میں اسے 1552ء میں قتل کردیا گیا۔
پیری رئیس کی زیادہ شہرت ایک جغرافیہ دان کی حیثیت سے ہے ۔وہ بحیرہ روم اور بحیرہ ایجن میں جہاز رانی سے متعلق بحریہ نامی ایک کتاب کا مصنف ہے۔ اس کتاب میں اس نے ذاتی معلومات کی بنا پر ان سمندروں کے دھاروں گردوپیش کے علاقوں ، بندرگاہوں اور ساحل پر اترنے کے لیے مناسب جگہوں کے حالات بیان کئے ہیں ۔ یہ کتاب اس نے 930 ھ (بمطابق 1523ء تا 1524ء ) میں سلیمان قانونی کو پیش کی تھی ۔ اب تک یہ کتاب برلن اور ڈریسڈن کے شاہی کتب خانوں اور روم میں پوپ کے کتب خانہ اور بولونا کے کتب خانہ میں قلمی نسخوں کی شکل میں موجود تھی ۔ لیکن 1973ء میں دو جلدوں میں استنبول سے شائع ہو گئی ہے ۔
پیری رئیس نے بحراوقیانوس کا ایک نقشہ بھی مرتب کیا تھا یہ ترکی زبان میں جھلی پر شوخ رنگوں میں ہے اور سائز 60 ضرب 85 سینٹی میٹر ہے ۔ یہ نقشہ امریکہ کے مشرقی ساحل اور یورپ اور افریقہ کے مغربی ساحل سے متعلق ہے ۔ یہ نقشہ پیری رئیس نے 1513 ء میں تیار کیا تھا اور 1517ء میں سلطان سلیم کو پیش کیا تھا۔ پیری رئیس کا تیار کردہ دنیا کے دوسرے حصوں کا نقشہ ضائع ہو گیا ۔
بروکلمان نے پیری رئیس کے ایک دوسرے نقشے کا بھی ذکر کیا ہے جو جنوبی اور وسطی امریکہ اور نیوفانلینڈ کے بارے میں پرتگالیوں کی دریافت پر مشتمل تھا۔ یہ معلوم نہیں کہ بروکلمان کی مراد اسی نقشہ سے ہے جو ضائع ہو گیا یا کسی اور نقشے سے ۔
سیدی علی
سیدی علی رئیس کا نام علی بن حسین ہے ۔ اس کے والد غلطہ (استنبول ) کے ترسانہ کے امیر تھے ۔ سیدی علی نے بھی خاندانی پیشہ کو جاری رکھا اور عثمانی بحریہ میں خدمات انجام دیں ۔ 1522ء میں جزیرہ رہوڈس کی تسخیر سے لے کر مصر کے قابودان پاشا ہونے تک اس نے خیرالدین باربروسہ کی معیت میں بحیرہ روم کی تمام جنگوں میں شرکت کی ۔ پرے ویزے کی جنگ میں وہ عثمانی بیڑے کے بائیں بازو کا کمان دار تھا اور اس حیثیت سے جنگ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ 1551ء میں قابودان دریائی سنان پاشا کے ساتھ طرابلس الغرب کی فتح میں حصہ لیا۔ بحری جنگوں میں حصہ لینے کے علاوہ سیدی علی رئیس نے ترسانہ میں بھی مختلف خدمات انجام دیں ۔ غلطہ کے ترسانہ کاکدخدا ہوا اور پھر خاصہ رئیس یعنی بادشاہ کے جہازی دستہ کا کماندار ہوا اور آخر میں پیری رئیس کے بعد 1552ء میں سلیمان قانونی نے مصر کا قابودان مقرر کر کے ان کشتیوں کو واپس لانے کیلئے بصرہ بھیجا جو پیری رئیس وہاں چھوڑ آیا تھا۔ اس مہم میں اس کے پرتگیزوں سے کئی معرکے ہوئے اور اس کا بیڑہ ایک طوفان کی زد میں آکر گجرات کے ساحل پر پہنچ گیا۔ جہاز چونکہ تباہ یا شکستہ ہو چکے تھے اس لئے سیدی علی کو احمد آباد ، ٹھٹھہ ، ملتان ، لاہور ، دہلی ، کابل ، بخارا، مشہد ، قزوین اور بغداد کے راستے خشکی کا سفر اختیار کرنا پڑا اور چار سال بعد استنبول پہنچ کر بادشاہ کو اپنی مہم کی رپورٹ پیش کی ۔
سیدی علی بھی پیری رئیس کی طرح اہل قلم تھا بلکہ حاجی خلیفہ کے الفاظ میں سیدی علی کے عثمانی بحریہ میں کوئی دوسرا شخص ایسا نہیں آیا جو علمی لحاظ سے اس کا مقابلہ کرسکے ۔ سیدی علی علم ہیئت اور جہازرانی سے متعلق مراۃ کائنات ، خلاصۃ الہیئت ، کتاب المحیط کے نام سے تین کتابوں کا مصنف بھی ہے ۔ ان میں کتاب المحیط بحرہند میں جہاز رانی سے متعلق ہے ۔ ان کے علاوہ سیدی علی مراۃ الممالک کے نام سے ایک سفرنامہ کا مصنف بھی ہے جس میں اس نے گجرات سے ترکی تک اپنی واپسی کے دلچسپ حالات لکھے ہیں ۔ سیدی علی ترکی کا ایک قادر الکلام شاعربھی تھا اور تخلص "کاتبی" کرتا تھا۔
طورغوت
طورغوت جس کو طورغود بھی لکھا جاتا ہے سلیمان قانونی کے دور کا ایک ممتاز اور نڈر جہازران تھا۔ ابتداء میں وہ بھی باربروسہ کی طرح بحری قزاقی کرتا تھا ۔ایک بار اس نے تیس جہازوں سے جزیرہ کورسیکا پر حملہ کیا لیکن جنیوا کے مشہور امیرالبحر ڈوریا نے شکست دے کر گرفتار کر لیا۔ لیکن خیرالدین باربروسہ نے دھمکی دی کہ اگر طورغوت کو رہا نہ کیا گیا تو ڈوریا کا وطن شہر جنیوا برباد کر دیا جائے گا تو ڈوریا نے اس کو رہا کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اٹلی اور اسپین کے ساحلی علاقے اس کے نام سے کانپتے تھے ۔ اس نے ایک مرتبہ سلیمان قانونی سے ناراض ہو کر مراکش کے سلطان کی ملازمت اختیارکر لی تھی۔ پھر خیرالدین کے انتقال کے بعد سلیمان نے اس کو واپس بلا لیا اوراعلیٰ منصب دیا۔1551ء میں اس نے طرابلس فتح کیا جو مبارزین مالٹا کے قبضے میں تھا۔ فتح کے بعد سلیمان قانونی نے اس کو طرابلس کا حاکم مقرر کردیا۔ 1565ء جب ترکوں نے مالٹا پرحملہ کیا تووہ بھی اپنا بیڑا لے کر مالٹا پہنچ گیا اور اسی جنگ میں شہید ہوگیا۔ ترکی زبان میں بحری مہموں سے متعلق جو تاریخی ناولیں لکھی گئیں ان میں خیرالدین باربروسہ کے بعد سب سے مقبول موضوع طورغوت ہے ۔
[1] تاریخ حصہ سوم از امین اوقتاسی ، استنبول 1972ء ص 47
[2] انسائیکلوپیڈیا آف اسلام (انگریزی) نیا ایڈیشن مقالہ "بحریہ" از اسمٰعیل حقی اوزون چارشلی نیز دائرالمعارف مقالہ "بحریہ" (اردو)
عثمانی سلطنت میں کسی مخصوص کام کیلئے جو علاقہ مخصوص کر دیا جاتا تھا اس کو سنجق بے کہا جاتا تھا ۔ اس علاقہ کا حاکم بھی سنجق بے کہلاتا تھا
[ii] انسائیکلوپیڈیا آف اسلام (انگریزی) مقالہ "کمال رئیس"
[iii] تاریخ اسلام حصہ سوم از اکبر شاہ نجیب آبادی ص 597
[iv] انسائیکلوپیڈیا آف اسلام (انگریزی، جدیدایڈیشن ) مقالہ اسمٰعیل حقی اوزدن چارشلی
[v] خیرالدین پاشا کے حالات کیلئے دیکھئے انسائیکلوپیڈیا آف اسلام نیز تاریخ حصہ سوم از امین اوقتالی ص 45 تا 49