عثمانی روح کا حامل بوسنیائی شہر 'موستار'۔۔

حسان خان

لائبریرین
ستاری موست۔۔
یہ پُل سولہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوا تھا اور اس شہر کی سب سے مشہور و ممیز عمارت ہے۔
دورانِ جنگ کروٹ فوج نے اسے 'عثمانیوں کی نشانی' ہونے کی وجہ سے ڈائنامائٹ سے اڑا دیا تھا۔ ۲۰۰۴ء میں اس کی دوبارہ تعمیر ہوئی ہے۔
حوالہ: http://en.wikipedia.org/wiki/Stari_Most
IMGP1164-Edit.jpg

IMGP1167.jpg

IMGP1171_2_3.jpg

IMGP1174.jpg

IMGP1182.jpg

IMGP1184.jpg

IMGP1187_8_9.jpg

IMGP1190_1_2.jpg

IMGP1197.jpg

IMGP1198.jpg

IMGP1199.jpg

IMGP1201.jpg

IMGP1203.jpg

IMGP1204.jpg

IMGP1206.jpg

ایک قبرستان۔۔ جس کی اکثر قبور ۱۹۹۲ اور ۱۹۹۶ کے درمیان دورانِ جنگ کھودی گئی تھیں۔
IMGP1207.jpg

IMGP1209.jpg

IMGP1210.jpg

IMGP1211.jpg

جاری ہے۔۔۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
IMGP1223.jpg

IMGP1225.jpg

IMGP1229.jpg

منبع
(مندرجہ بالا ساری تصاویر ایک پولِش عکاس کی ہیں۔)

انیسویں صدی عیسوی کے اواخر میں یہ شہر اور اس کے مکین کچھ ایسے نظر آتے تھےِ۔
دیکھا جا سکتا ہے کہ کس وجہ سے سرب اور کروٹ باشندے بوسنیائی لوگوں کو تحقیراً تُرک کہتے ہیں۔
Mostar-1900.jpg

منبع

ہنگامِ غروب شہر کا جادوئی منظر
Velez_by_night.jpg

منبع
 

زبیر مرزا

محفلین
زبردست حسان جیتے رہو اللہ تعالٰی آپ کو بے شمار خوشیوں اور کامیابیوں سے نوازے اور آپ تمام دنیا کی
سیر کرواور ہمارے لیے معلومات ، تصاویر اور تحفے لے کر آو
 

حسان خان

لائبریرین
شکریہ زبیر مرزا بھائی۔۔۔

بطور پاکستانی مسلمان ہونے کے مجھے اس بات پر بہت افسوس ہوتا ہے کہ بوسنیا اور بوسنیائی معاشرہ ہماری اجتماعی یادداشت کا حصہ نہیں ہے۔ یہاں اگر ہم 'مسلمانوں' کی بات کرتے ہیں تو ہماری نگاہوں میں ہمیشہ بری مثالیں ہی سامنے آتی ہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ اسلامی مذہبی روایات اور تہذیب و تمدن کا کوئی ناطہ ہے یا یہ کہ جنونیت اور تنگ نظری سے چھٹکارا پا کر اور جدید دنیا کے باشعور انسان ہو کر بھی ہم اچھے مسلمان ہو سکتے ہیں۔
میرا ماننا ہے کہ ہماری موروثہ مذہبی روایات اور تمدن جمالیاتی لحاظ سے اتنے خوبصورت ہیں کہ کوئی وجہ نہیں کہ اُنہیں صرف جنونی شدت پسندوں تک محصور کر لیا جائے اور اپنے بطور مسلمان پیدا ہونے پر شرم محسوس کی جائے۔

ہو سکتا ہے کسی کو میرے اس نکتۂ نظر سے اختلاف ہو، لیکن چونکہ میں بوسنیائی مسلمان معاشرے کو، اگر کاملاً نہیں تو بہت حد تک، اپنے پاکستان کے لیے نمونہ سمجھتا ہوں، اس لیے کچھ دنوں سے میری کوشش ہے کہ بوسنیا، اُس کی تاریخ اور وہاں کے معاشرے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کروں اور بقدرِ مقدور اُنہیں اپنے دوستوں تک پہنچاؤں۔ شاید اس سے ہمیں اپنا پاکستانی معاشرہ سدھارنے کی تحریک ملے۔
 
آخری تدوین:

ابوشامل

محفلین
بہت خوب حسان۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم پڑھتے نہیں، اور اگر پڑھتے بھی ہیں تو اپنے دلائل اور اپنے نظریے کو تقویت دینے اور اس کے لیے دلائل اکٹھے کرنے کی خاطر۔ جب تک ہم اس روش کو نہیں بدلیں گےہم تاریخ پڑھنے سے کچھ حاصل نہیں کر سکتے اور ۔اپنے ماضی کو دیکھ کر مستقبل کی راہ بھی متعین نہیں کر سکتے۔ یہی دیکھ لیں کہ ہم نے مغلیہ عہد کے طرز تعمیر کے بارے میں چاہے ککھ نہ پڑھا ہو لیکن مبارک علی کی کتابیں پڑھ پڑھ کر اس دور کے بارے میں اپنی زبانیں بڑی لمبی اور تیز کرلی ہیں :)
 

حسان خان

لائبریرین
@ابو شامل برادر، میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔

مجھے خودبیزاری سے زیادہ شاید ہی کوئی اور چیز بری لگتی ہو۔۔ مجھے اس سے مسئلہ نہیں کہ کسی مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والے شخص کا مذہبی عقائد پر ایمان معدوم گیا ہو، اور مجھے اس کی بھی فکر نہیں کہ کسی مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والا مذہبی تعلیمات پر عمل نہیں کرتا، لیکن مجھے یہ بات قطعی ہضم نہیں ہوتی، بلکہ شدید کوفت ہوتی ہے جب کوئی مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والا شخص اپنے مسلمان اجداد کے مذہبی تمدن سے اپنی وابستگی پر شرمندگی کا اظہار کرتا ہے یا اپنے ہی لوگوں کو اور اپنی ہی چیزوں کو کمتر یا حقیر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ اسلامی عقائد اور اسلامی تعلیمات تو پورے اسلام کی صرف اوپری پرت ہیں۔ کسی مسلمان کو یہ دو چیزیں قبول نہیں، تو نہ ہوں۔ لیکن اسلام چودہ سو سالہ غنی تمدن بھی ہے، ایک عظیم تاریخی واقعہ بھی ہے، اسلام ہمارا ماضی ہے، اسلام ہماری زبان بھی ہے، اسلام ہمارا ادب بھی ہے، اسلام ہماری ثقافت بھی ہے، اسلام ہمارا رسم الخط بھی ہے، اسلام ہم سب کی نسلی شناخت بھی ہے، اسلام ہمارے نام بھی ہیں، اسلام عربی، فارسی اور اردو ہے۔۔ غرض اسلام تو بہت کچھ ہے۔ آخر اپنی اس 'مسلمانیت' پر شرمندہ ہونے یا اسے جھٹلانے کی کیا ضرورت ہے؟
مثلاً یہودیوں کو لیجیے۔ اُن کی اکثریت مذہبی تعلیمات سے بالکل بے بہرہ ہے۔ لیکن اس سے کیا اُنہوں نے ایک دفعہ بھی اپنے یہودی ہونے پر شرمندگی ظاہر کی ہے؟ِ قطعی نہیں۔۔ ایک یہودی چاہے خدا کے وجود کا بھی معتقد نہ ہو، لیکن وہ ڈنکے کی چوٹ پر سر سے پیر تک یہودی ہوتا ہے اور اپنے لوگوں سے قلبی وابستگی رکھتا ہے۔ قابلِ ذکر ہے کہ اسرائیل بھی سیکولر صہیونیوں کی تخلیق ہے نہ کہ مذہبی یہودیوں کی۔۔ جب ایک ملحد یہودی بھی مفتخر یہودی ہی رہتا ہے تو آخر ہم مسلمان (چہ مذہبی و چہ غیر مذہبی) اپنے پیدائشی اور تمدنی پس منظر پر افتخار کرتے ہوئے کیوں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ دینِ اسلام غلط ہو یا محض افسانہ ہو۔۔ لیکن اسلامی تاریخ و تمدن تو زندہ اور خوبصورت حقیقت ہے۔ اُس سے وابستگی پر کیوں نہ دل کی گہرائیوں سے فخر کیا جائے؟
مجھے بوسنیائی قوم اس لیے بھی اچھی لگتی ہے کہ یہودیوں کی طرح انہوں نے بھی اپنے مسلمان ہونے کو اپنی نسلی اور قومی شناخت بنا لیا ہے لہذا غیر مذہبی ترین بوسنیائی بھی پاکستانیوں کی طرح خودبیزاری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اپنے مسلمان ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے۔

میری کسی بھی بات سے اختلاف رکھنے کی پوری اجازت ہے۔
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
بطور پاکستانی مسلمان ہونے کے مجھے اس بات پر بہت افسوس ہوتا ہے کہ بوسنیا اور بوسنیائی معاشرہ ہماری اجتماعی یادداشت کا حصہ نہیں ہے۔ یہاں اگر ہم 'مسلمانوں' کی بات کرتے ہیں تو ہماری نگاہوں میں ہمیشہ بری مثالیں ہی سامنے آتی ہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ اسلامی مذہبی روایات اور تہذیب و تمدن کا کوئی ناطہ ہے یا یہ کہ جنونیت اور تنگ نظری سے چھٹکارا پا کر اور جدید دنیا کے باشعور انسان ہو کر بھی ہم اچھے مسلمان ہو سکتے ہیں۔
بوسنیائی مسلمانوں میں ایسی کیا خاص بات ہے؟ مسلمان تو چین ، تھائی لینڈ اور کوریا میں بھی موجود ہیں۔ انکو بھی اپنی اجتماعی یادداشت کا حصہ بنا لیں۔ :)

میرا ماننا ہے کہ ہماری موروثہ مذہبی روایات اور تمدن جمالیاتی لحاظ سے اتنے خوبصورت ہیں کہ کوئی وجہ نہیں کہ اُنہیں صرف جنونی شدت پسندوں تک محصور کر لیا جائے اور اپنے بطور مسلمان پیدا ہونے پر شرم محسوس کی جائے۔
مسلمان یہودیت کی طرح کوئی قومیت نہیں ہے۔ مسلمان امتی ضرور ہیں لیکن کسی ایک قوم کا حصہ نہیں ہیں۔ کیا میں کسی چینی یا جاپانی مسلمان کو اپنا ثقافتی و تمدنی بھائی مان سکتا ہوں؟

ہو سکتا ہے کسی کو میرے اس نکتۂ نظر سے اختلاف ہو، لیکن چونکہ میں بوسنیائی مسلمان معاشرے کو، اگر کاملاً نہیں تو بہت حد تک، اپنے پاکستان کے لیے نمونہ سمجھتا ہوں، اس لیے کچھ دنوں سے میری کوشش ہے کہ بوسنیا، اُس کی تاریخ اور وہاں کے معاشرے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کروں اور بقدرِ مقدور اُنہیں اپنے دوستوں تک پہنچاؤں۔ شاید اس سے ہمیں اپنا پاکستانی معاشرہ سدھارنے کی تحریک ملے۔
ہاہاہا! ہماری ثقافت، تمدن اور سماج میں عربوں کی خصلتیں ہیں ، عثمانی ترکوں کی نہیں۔ ترکوں نے تو 1924 سے پبلک میں سر کا پردہ بین کیا ہوا ہے۔ یہاں آپ ایک دن یہ کر کے دکھا دیں۔ اگر اگلے ہی دن اسلامی انقلاب نہ آیا تو میرا نام بدل دیں۔ :ROFLMAO:
 

arifkarim

معطل
مثلاً یہودیوں کو لیجیے۔ اُن کی اکثریت مذہبی تعلیمات سے بالکل بے بہرہ ہے۔ لیکن اس سے کیا اُنہوں نے ایک دفعہ بھی اپنے یہودی ہونے پر شرمندگی ظاہر کی ہے؟ِ قطعی نہیں۔۔ ایک یہودی چاہے خدا کے وجود کا بھی معتقد نہ ہو، لیکن وہ ڈنکے کی چوٹ پر سر سے پیر تک یہودی ہوتا ہے اور اپنے لوگوں سے قلبی وابستگی رکھتا ہے۔
یہی تو میں نے اوپر کہا کہ اسلامی اور عیسائی قومیت کا یہودی قومیت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہودیت دراصل بنی اسرائیل کے قبائل سے ہے جو کسی زمانہ میں ایک قوم تھے اور پھر پوری دنیا میں بکھر گئے اور آج اپنے آبائی وطن اسرائیل میں آباد ہیں۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کی تاریخ اس سے قدرے مختلف ہے۔ ہمارا تعلق کسی خاص قوم سے نہیں بلکہ محض دین یا مذہب کی تبدیلی سے ہے۔ جیسے اہل فارس 14 صدیوں سے مسلمان ہونے کے باوجود اہل عرب کو اپنا قومی بھائی کیوں مانیں؟ ہم بھارتی یا پاکستانی مسلمان بوسنی یا ترک مسلمانوں کو اپنے مامے کا پتر کیوں سمجھیں؟
http://en.wikipedia.org/wiki/Israelites

قابلِ ذکر ہے کہ اسرائیل بھی سیکولر صہیونیوں کی تخلیق ہے نہ کہ مذہبی یہودیوں کی۔۔ جب ایک ملحد یہودی بھی مفتخر یہودی ہی رہتا ہے تو آخر ہم مسلمان اپنے تمدنی اور پیدائشی پس منظر پر افتخار کرتے ہوئے کیوں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ مذہبِ اسلام غلط ہو یا، معذرت کے ساتھ، محض افسانہ ہو۔۔ لیکن اسلامی تاریخ و تمدن تو زندہ اور خوبصورت حقیقت ہے۔ اُس سے وابستگی پر کیوں نہ دل سے فخر کیا جائے؟
کیونکہ آپ یہاں یہودیت کا اسلام اور عیسائیت سے بالکل غلط موازنہ کر رہے ہیں۔ گو کہ یہود میں بھی آج مختلف قومیں آباد ہیں لیکن چونکہ انکی شروعات ایک اکیلے بنی اسرائیل سے ہوئی تھی اسلئے وہ اپنے آپ کو ایک ہی قوم کا حصہ سمجھتے ہیں اور اسکا یہود مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہود کے نزدیک جسکی ماں یہودی ہے وہ یہودی ہے۔ بیشک وہ بڑے ہوکر کوئی سا بھی دین اختیار کر لے، اسکی قومیت یہودی ہی رہے گی جبتک وہ خود اسے تبدیل نہیں کرتا!
http://en.wikipedia.org/wiki/Jewish_ethnic_divisions
http://en.wikipedia.org/wiki/Who_is_a_Jew?

مجھے بوسنیائی قوم اس لیے بھی اچھی لگتی ہے کہ یہودیوں کی طرح انہوں نے بھی اپنے مسلمان ہونے کو اپنی نسلی اور قومی شناخت بنا لیا ہے لہذا غیر مذہبی ترین بوسنیائی بھی پاکستانیوں کی طرح خودبیزاری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اپنے مسلمان ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے۔
میرا نہیں خیال کہ کسی کا مسلمان ہونا کسی قوم کیلئے فخر کا باعث ہے۔ اسلام تو محض ایک دین الٰہی ہی۔ اسکا تعلق موت کی بعد والی زندگی سےہے نہ کہ موجودہ دنیا کی خودساختہ انسانی قومیتوں سے۔ تمام انسانوں کا وجود افریقہ سے ہوا ہے۔ یوں ہم تمام انسان ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں۔ خالی مسلمان کو اپنا بھائی کہنا انسانیت کیساتھ دھوکہ ہے۔ اسکا اندازہ اسی بات سے لگا لیں کہ جب ہمارے سامنے کسی جانور کا قتل ہوتا ہے تو فطری طور پر ہمیں زیادہ تکلیف نہیں ہوتی لیکن یہی اگر کسی بھی انسان کیساتھ ہو تو ہمارا دل ہل جاتا ہے اور بعض اعصابی کمزور افراد تو ساری زندگی کیلئے اس سے متاثر ہو کر بیمار پڑ جاتے ہیں۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Homo_sapiens


میری کسی بھی بات سے اختلاف رکھنے کی پوری اجازت ہے۔
شکریہ۔ مجھے آپ سے اختلاف ہے۔
 

ابوشامل

محفلین
@ابو شامل برادر، میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔

مجھے خودبیزاری سے زیادہ شاید ہی کوئی اور چیز بری لگتی ہو۔۔ مجھے اس سے مسئلہ نہیں کہ کسی مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والے شخص کا مذہبی عقائد پر ایمان معدوم گیا ہو، اور مجھے اس کی بھی فکر نہیں کہ کسی مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والا مذہبی تعلیمات پر عمل نہیں کرتا، لیکن مجھے یہ بات قطعی ہضم نہیں ہوتی، بلکہ شدید کوفت ہوتی ہے جب کوئی مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والا شخص اپنے مسلمان اجداد کے مذہبی تمدن سے اپنی وابستگی پر شرمندگی کا اظہار کرتا ہے یا اپنے ہی لوگوں کو اور اپنی ہی چیزوں کو کمتر یا حقیر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ اسلامی عقائد اور اسلامی تعلیمات تو پورے اسلام کی صرف اوپری پرت ہیں۔ کسی مسلمان کو یہ دو چیزیں قبول نہیں، تو نہ ہوں۔ لیکن اسلام چودہ سو سالہ غنی تمدن بھی ہے، ایک عظیم تاریخی واقعہ بھی ہے، اسلام ہمارا ماضی ہے، اسلام ہماری زبان بھی ہے، اسلام ہمارا ادب بھی ہے، اسلام ہماری ثقافت بھی ہے، اسلام ہمارا رسم الخط بھی ہے، اسلام ہم سب کی نسلی شناخت بھی ہے، اسلام ہمارے نام بھی ہیں، اسلام عربی، فارسی اور اردو ہے۔۔ غرض اسلام تو بہت کچھ ہے۔ آخر اپنی اس 'مسلمانیت' پر شرمندہ ہونے یا اسے جھٹلانے کی کیا ضرورت ہے؟
مثلاً یہودیوں کو لیجیے۔ اُن کی اکثریت مذہبی تعلیمات سے بالکل بے بہرہ ہے۔ لیکن اس سے کیا اُنہوں نے ایک دفعہ بھی اپنے یہودی ہونے پر شرمندگی ظاہر کی ہے؟ِ قطعی نہیں۔۔ ایک یہودی چاہے خدا کے وجود کا بھی معتقد نہ ہو، لیکن وہ ڈنکے کی چوٹ پر سر سے پیر تک یہودی ہوتا ہے اور اپنے لوگوں سے قلبی وابستگی رکھتا ہے۔ قابلِ ذکر ہے کہ اسرائیل بھی سیکولر صہیونیوں کی تخلیق ہے نہ کہ مذہبی یہودیوں کی۔۔ جب ایک ملحد یہودی بھی مفتخر یہودی ہی رہتا ہے تو آخر ہم مسلمان (چہ مذہبی و چہ غیر مذہبی) اپنے پیدائشی اور تمدنی پس منظر پر افتخار کرتے ہوئے کیوں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہیں؟ ہو سکتا ہے کہ دینِ اسلام غلط ہو یا محض افسانہ ہو۔۔ لیکن اسلامی تاریخ و تمدن تو زندہ اور خوبصورت حقیقت ہے۔ اُس سے وابستگی پر کیوں نہ دل کی گہرائیوں سے فخر کیا جائے؟
مجھے بوسنیائی قوم اس لیے بھی اچھی لگتی ہے کہ یہودیوں کی طرح انہوں نے بھی اپنے مسلمان ہونے کو اپنی نسلی اور قومی شناخت بنا لیا ہے لہذا غیر مذہبی ترین بوسنیائی بھی پاکستانیوں کی طرح خودبیزاری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اپنے مسلمان ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے۔

میری کسی بھی بات سے اختلاف رکھنے کی پوری اجازت ہے۔

حسان بہت خوبصورت بات کہی آپ نے۔ مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ ہم نے اسلام کو اپنے سسٹم کی حیثیت سے نہیں بلکہ مذہب کی حیثیت سے اپنایا ہے، اب جو غیر مذہبی ہے اسے ہر اس چیز سے نفرت ہوگئی ہے جو اس سے وابستہ ہے۔ جب ہم مسلمان قوم بنیں گے تو ہمیں یہ بات سمجھ آئے گی کہ اسلام نے ہمیں کیا کیا دیا ہے۔ پھر بدقسمتی سے ہم تعلیم میں بھی بہت پیچھے ہیں۔ اسلامی تاریخ پر جو تحقیق ہمارے کرنے کا کام ہے وہ مغرب سے آنے والے کر رہے ہیں۔
میرے ایک دوست ہیں، بہت آزاد خیال آدمی ہیں، انہوں نے ایک مرتبہ مجھے کہا تھا کہ جب تک میں نے مسجد قرطبہ نہیں دیکھی تھیں، مجھے اسلام سے اتنی محبت نہیں تھی، لیکن جب میں نے یہ عظیم تعمیراتی شاہکار دیکھا تو اس کے بعد مجھے پہلی بار اپنے مسلمان ہونے پر فخر محسوس ہوا ۔
 
Top