جاسم محمد
محفلین
عثمان بزدار پر قتل کا الزام، تحقیقات میں حقائق سامنے آگئے
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے خود پر لگنے والے الزامات کی تردید کی ہے—فائل فوٹو۔
کراچی: گزشتہ دنوں ایک خبر میڈیا پر چلتی رہی جس کے مطابق عمران خان کی جانب سے نامزد وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور ان کا خاندان چھ لوگوں کے قتل میں ملوث رہا ہے جبکہ عثمان بزدار نے دیت دیکر یہ سارا معاملہ نمٹایا۔
ان خبروں کے بعد پاکستان تحریک انصاف پر تنقید ہوئی اور پارٹی اور عثمان بزدار نے اس الزام کی تردید کی۔
جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں بتایا گیا کہ 1998 میں یہ واقعہ ضرور پیش آیا تھا جس میں چھ لوگوں کا قتل بھی ہوا اور ایف آئی آر بھی درج ہوئی، معاملہ عدالت بھی گیا اور عثٕمان بزدار اس واقعے میں ملوث بھی تھے۔
تاہم تحقیقات کے مطابق یہ عثمان بزدار وہ نہیں، جو اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں بلکہ اس واقعے کے عدالتی فیصلے اور پولیس رپورٹ میں جس عثمان بزدار کا نام ہے وہ کوئی اور شخص ہے۔
تفصیلات کے مطابق 1998 میں موجودہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار بلدیاتی انتخابات میں ممبر ضلع کونسل کا الیکشن لڑ رہے تھے اور الیکشن والے دن ایک سرکاری اسکول میں دو مقامی قبیلوں کے درمیان لڑائی ہوئی اور فائرنگ کے نتیجے میں چھ افراد ہلاک اور 4 زخمی ہوگئے۔
نامزد وزیراعلیٰ پنجاب پر مقدمہ قتل میں دیت ادا کرکے صلح کرنے کا انکشاف
واقعے کی ایف آئی آر 10 جون 1998 میں معاویہ بزدار کی مدعیت میں درج کی گئی جنہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ 40 اور 45 مسلح افراد الیکشن کے دن پولنگ اسٹیشن پر موجود تھے جنہوں نے انہیں دھمکی دی کہ عثمان بزدار کے علاوہ کسی کو ووٹ نہیں دینے دیں گے۔
معاویہ بزدار کے مطابق جب وہ پولنگ اسٹیشن کی طرف بڑھے تو مسلح افراد نے فائرنگ شروع کردی، جس کے نتیجے میں 6 لوگ ہلاک اور چار زخمی ہوگئے۔
اس واقعے کے بعد عثمان بزدار اور ان کے والد پر قتل کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام لگا اور ان کیخلاف ایف آئی آر درج کی گئی جس پر پولیس نے تحقیقات کیں۔
جیو نیوز کے پاس موجود1999 کی پولیس کی حتمی رپورٹ کے مطابق عثمان بزدار اور ان کے والد فتح بزدار کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں ملااور وہ بے قصور پائے گئے۔
پولیس نے ابتدائی کارروائی میں ہی عثمان بزدار اور ان کے والد کو الزام سے بری کردیا تاہم بعد میں اس معاملے کی کارروائی عدالت میں بھی چلی۔
عدالت نے دیت سے معاملہ نمٹانے کی وجہ سے تمام 30 نامزد ملزمان کو بری کردیا۔
عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے سردار عثمان بزدار کے نام کی منظوری دیدی
اہم بات یہ ہے کہ عدالتی فیصلے میں عثمان بزدار کا نام ملزمان کی فہرست میں موجود ہے لیکن اس عدالتی فیصلے میں جس عثمان بزدار کا ذکر ہے وہ شاہ علی کے بیٹے ہیں جو پنجاب اور بلوچستان کے سرحدی علاقے سورا کے رہائشی ہیں جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے والد کا نام فتح محمد بزدار ہے جو کہ ڈی جی خان کے قبائلی علاقے بھارتی کے رہاشی ہیں۔
عدالتی فیصلے میں عثمان بزدار کا نام دیکھ کر یہ کہا گیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار قتل میں ملوث پائے گئے مگر عدالتی فیصلے میں شامل عثمان بزدار کوئی اور ہے، نام ایک جیسا ہونے کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہوئی۔
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے خود پر لگنے والے الزامات کی تردید کی ہے—فائل فوٹو۔
کراچی: گزشتہ دنوں ایک خبر میڈیا پر چلتی رہی جس کے مطابق عمران خان کی جانب سے نامزد وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور ان کا خاندان چھ لوگوں کے قتل میں ملوث رہا ہے جبکہ عثمان بزدار نے دیت دیکر یہ سارا معاملہ نمٹایا۔
ان خبروں کے بعد پاکستان تحریک انصاف پر تنقید ہوئی اور پارٹی اور عثمان بزدار نے اس الزام کی تردید کی۔
جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں بتایا گیا کہ 1998 میں یہ واقعہ ضرور پیش آیا تھا جس میں چھ لوگوں کا قتل بھی ہوا اور ایف آئی آر بھی درج ہوئی، معاملہ عدالت بھی گیا اور عثٕمان بزدار اس واقعے میں ملوث بھی تھے۔
تاہم تحقیقات کے مطابق یہ عثمان بزدار وہ نہیں، جو اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں بلکہ اس واقعے کے عدالتی فیصلے اور پولیس رپورٹ میں جس عثمان بزدار کا نام ہے وہ کوئی اور شخص ہے۔
تفصیلات کے مطابق 1998 میں موجودہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار بلدیاتی انتخابات میں ممبر ضلع کونسل کا الیکشن لڑ رہے تھے اور الیکشن والے دن ایک سرکاری اسکول میں دو مقامی قبیلوں کے درمیان لڑائی ہوئی اور فائرنگ کے نتیجے میں چھ افراد ہلاک اور 4 زخمی ہوگئے۔
نامزد وزیراعلیٰ پنجاب پر مقدمہ قتل میں دیت ادا کرکے صلح کرنے کا انکشاف
واقعے کی ایف آئی آر 10 جون 1998 میں معاویہ بزدار کی مدعیت میں درج کی گئی جنہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ 40 اور 45 مسلح افراد الیکشن کے دن پولنگ اسٹیشن پر موجود تھے جنہوں نے انہیں دھمکی دی کہ عثمان بزدار کے علاوہ کسی کو ووٹ نہیں دینے دیں گے۔
معاویہ بزدار کے مطابق جب وہ پولنگ اسٹیشن کی طرف بڑھے تو مسلح افراد نے فائرنگ شروع کردی، جس کے نتیجے میں 6 لوگ ہلاک اور چار زخمی ہوگئے۔
اس واقعے کے بعد عثمان بزدار اور ان کے والد پر قتل کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام لگا اور ان کیخلاف ایف آئی آر درج کی گئی جس پر پولیس نے تحقیقات کیں۔
جیو نیوز کے پاس موجود1999 کی پولیس کی حتمی رپورٹ کے مطابق عثمان بزدار اور ان کے والد فتح بزدار کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں ملااور وہ بے قصور پائے گئے۔
پولیس نے ابتدائی کارروائی میں ہی عثمان بزدار اور ان کے والد کو الزام سے بری کردیا تاہم بعد میں اس معاملے کی کارروائی عدالت میں بھی چلی۔
عدالت نے دیت سے معاملہ نمٹانے کی وجہ سے تمام 30 نامزد ملزمان کو بری کردیا۔
عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے سردار عثمان بزدار کے نام کی منظوری دیدی
اہم بات یہ ہے کہ عدالتی فیصلے میں عثمان بزدار کا نام ملزمان کی فہرست میں موجود ہے لیکن اس عدالتی فیصلے میں جس عثمان بزدار کا ذکر ہے وہ شاہ علی کے بیٹے ہیں جو پنجاب اور بلوچستان کے سرحدی علاقے سورا کے رہائشی ہیں جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے والد کا نام فتح محمد بزدار ہے جو کہ ڈی جی خان کے قبائلی علاقے بھارتی کے رہاشی ہیں۔
عدالتی فیصلے میں عثمان بزدار کا نام دیکھ کر یہ کہا گیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار قتل میں ملوث پائے گئے مگر عدالتی فیصلے میں شامل عثمان بزدار کوئی اور ہے، نام ایک جیسا ہونے کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہوئی۔