عثمان بزدار کو بخش دو

جاسم محمد

محفلین
محمد حنیف کا کالم: بزدار کو بخش دو
محمد حنیف صحافی و تجزیہ کار

_105411855_09cb4248-d5e3-449a-8e21-c882f9815a06.jpg

غلطی سے ٹی وی لگا لیا، 15 منٹ میں کوئی ایک درجن چینل بدلے اور پتہ چل گیا کہ کائنات میں جو بھی خرابیاں ہیں اس کے ذمہ دار عثمان بزدار ہیں جو پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں۔

پنجاب کے وزیراعلیٰ بننے سے پہلے وہ کیا تھے کم لوگ ہی جانتے ہیں۔ انھیں عمران خان نے وزیراعلیٰ کیوں بنایا یہ بات اور بھی کم لوگ جانتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ بننا جہانگیر ترین نے تھا وہ نااہل ہوئے تو انھوں نے اپنا بندہ بنوا لیا۔ کوئی کہتا ہے کہ بس گھڑے میں سے پرچی نکالی گئی ہے۔

زیادہ سیانے لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان نے شہباز شریف کو پیغام دینا ہے کہ تو بڑا خادم اعلیٰ بنا پھرتا تھا، اب جو میرا خادم ہو گا اس کا حکم چلے گا۔ کوئی کہتا ہے کہ اسلام آباد کو اقتدار کا راستہ لاہور سے ہو کر جاتا ہے اس لیے ایسا بندہ چاہیے جس کا کوئی گروپ نہ ہو، جو تشکّر کے بوجھ تلے دبا رہے اور ہر صبح آنکھیں ملتا ہوا اٹھے اور اپنے آپ کو یاد دلائے کہ میں وزیراعلیٰ ہوں۔

ابھی چند دن قبل ہمارے صحافی بھائی بزدار صاحب کی پروٹوکول کی گاڑیاں گن رہے تھے۔ بار بار کوئی کہتا تھا یہ ہے کوئی سادگی، یہ ہے تبدیلی؟ پھر کہیں سے کوئی کلپ ہاتھ آتا گیا جس میں پولیس کے آئی جی صاحب کوئی ٹرافی وصول کرنے کے بعد ان کی طرف مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہیں اور وہ دوسری طرف چل پڑتے ہیں۔

سیاسی تجزیہ نگار بھی ہر دوسرے دن یاد دلاتے ہیں کہ عمران خان کی ٹیم کے کمزور ترین رکن ہیں انھیں انتظامی امور کا کوئی تجربہ نہیں۔ فن خطابت سے ناواقف ہیں، صحافیوں کے ساتھ بات کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا۔ انگریزی چھوڑیں ان کی تو اردو بھی مشکوک ہے۔ کسی نے ابھی تک یہ نہیں کہا کہ بزدار صاحب کو چھری کانٹے سے کھانا کھانا نہیں آتا، یہ جب باہر سے آنے والے حکمرانوں کے ساتھ طعام کریں گے تو پاکستان کی بےعزتی ہو گی۔

مجھے ان سب اعتراضات سے تعصب کی بو آتی ہے۔ وہ تعصب جو شہریوں میں دیہات سے آنے والوں کے لیے پایا جاتا ہے۔ یہ وہی تعصب ہے جو انگریزی بولنے والے اردو بولنے والوں سے روا رکھتے ہیں۔ وہی احساسِ برتری ہے جو اردو بولنے والے پنجابی بولنے والوں کے سامنے محسوس کرتے ہیں اور اسی طرح کی رعونت جو پنجابی بولنے والی سرائیکیوں کے ساتھ برتتے ہیں۔

تعصبات کی سماجی سیڑھی میں بزدار صاحب سب سے نیچے ہیں۔ پسماندہ علاقے کے بھی ہیں اور سرائیکی بھی۔ عمران خان کے مخالفین اور مجھے لگتا ہے کہ ان کے کئی حامی بھی اکثر یہ سوچتے پائے جاتے ہیں کہ عمران خان کو آخر عثمان بزدار میں ایسا کیا نظر آتا ہے۔ عمران خان جواب دے چکے ہیں کہ وسیم اکرم، لیکن یار لوگوں کو یقین ہی نہیں آتا۔

_105262096_b37dd6b5-d766-4378-b29d-a70a97196a9b.jpg

اوپر سے نئے پاکستان میں پرانا صحافیوں کا وطیرہ بن گیا ہے کہ وہ چاروں طرف خبروں کے لیے نظر دوڑاتے ہیں جو سب سے بیچارہ ٹارگٹ دکھائی دیتا ہے اس پر چاند ماری شروع کر دیتے ہیں۔ یہاں کراچی سے لے کر خیبر تک ہر دوسرے دن پشتون اپنے لاپتہ پیاروں کے لیے، اپنے معذور بچوں کے لیے انصاف مانگتے ہیں۔ ان کی باتیں آپ کو کسی چینل پر نظر نہیں آئیں گی۔

سینکڑوں افراد کا مبینہ قاتل عمرہ کرنے کی اجازت مانگتا پھرتا ہے۔ کراچی شہر بلکہ پاکستان کی سب سے بلند عمارت میں آگ لگ جاتی ہے، کوئی خبر نہیں چلتی کیونکہ عمارت کا مالک اشتہار دیتا ہے اور یہ ہمارے اردگرد کی خبریں ہیں۔ قومی سلامتی کے ذمہ داروں کا تو ذکر ہی کیا کیونکہ وہاں تو بڑوں کے بھی پر جلتے ہیں۔

اس میں لے دے کر بچتا ہے تو عثمان بزدار جو کچھ نہ کرے تو کہتے ہیں نکما ہے، کچھ کرے تو کہتے ہیں غلط کیا۔ نہ بولے تو کہتے ہیں کہ اس کے پاس کچھ کہنے کو ہی نہیں اور بولے تو کہتے ہیں بونگیاں مار رہا ہے۔ بزدار بیچارہ کیا کرے؟

قصور خود پی ٹی آئی والوں کا بھی ہے۔ انھوں نے امیدیں ایسی بنا لی ہیں کہ عمران خان کا ساتھی اسد عمر کے لیول کا ہو۔ یعنی جرنیل کے گھر پیدا ہو۔ اینگرو کا بڑا افسر رہا ہو۔ اب ہر صبح اٹھ کر سٹرنگز کے گانے سن کر جوش میں آتا ہو، پھر پاؤلو کوہیلو کے قول ٹویٹ کرتا ہو اور پھر تھک ہار کر دال والے ہوٹل پر دیسی گھی کے تڑکے والی دال کھاتے ہوئے ویڈیو بنا کر شام تک وائرل ہو کر سو جاتا ہو۔

فی الحال دال والی ویڈیو دیکھو اور عثمان بزدار کی جان بخشو۔
بزدار کو بخش دو
 

جاسمن

لائبریرین
ابھی چند دن قبل ہمارے صحافی بھائی بزدار صاحب کی پروٹوکول کی گاڑیاں گن رہے تھے۔ بار بار کوئی کہتا تھا یہ ہے کوئی سادگی، یہ ہے تبدیلی؟
کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ اس کا گواہ بہاولپور بھی ہے۔ اتنے ہی بینرز اور پینا فلیکس جو شہباز شریف کے لئے لگتے تھے اور ہم ملکی وسائل کے زیاں پہ کڑھتے تھے سو اب بھی ہم کُڑھ رہے تھے۔ چالیس چالیس گاڑیاں۔ ڈاکٹروں کی ٹیم پہ مشتمل ایک گاڑی جس میں سوار ڈاکٹر صبح نو سے تین بجے تک ساتھ رہے لیکن پانی کا ایک گلاس انہیں نہیں پوچھا گیا۔ البتہ ماڈل بازار کے لئے اعلان ہوا۔۔۔جس کے بارے میں کچھ دن تو خبر تھی کہ ابھی پورا نہیں ہوا۔ حالیہ خبر کا پتہ نہیں۔ یہ وہی ماڈل بازار ہے جس میں ہلکی پھلکی چھوٹی چھوٹی دکانوں کے مالک باقاعدہ چیخوں کے ساتھ دھاڑیں مار مار کے روتے رہے۔۔۔سامنے فائر بریگیڈ تھا کہ جو وہیں اپنی عمارت سے بھی آگ بجھا سکتا تھا لیکن۔۔۔

اسی تجزیہ نگار بھی ہر دوسرے دن یاد دلاتے ہیں کہ
یہ تو اب الیکٹرانک میڈیا کا وطیرہ ہے۔۔۔۔ہر ایک کے ساتھ یہی کرتے ہیں۔ صرف وزیراعلیٰ کے ساتھ ہی نہیں۔۔۔

مجھے ان سب اعتراضات سے تعصب کی بو آتی ہے۔ وہ تعصب جو شہریوں میں دیہات سے آنے والوں کے لیے پایا جاتا ہے۔
درست۔

یہ وہی تعصب ہے جو انگریزی بولنے والے اردو بولنے والوں سے روا رکھتے ہیں۔
درست

وہی احساسِ برتری ہے جو اردو بولنے والے پنجابی بولنے والوں کے سامنے محسوس کرتے ہیں اور اسی طرح کی رعونت جو پنجابی بولنے والی سرائیکیوں کے ساتھ برتتے ہیں۔
ہم نے ایسا نہیں دیکھا۔ ہمارے ارد گرد، دوستوں، احباب میں تینوں زبانیں بولنے والے ہیں۔ ہم نے ایسا کبھی محسوس نہیں کیا۔

تعصبات کی سماجی سیڑھی میں بزدار صاحب سب سے نیچے ہیں۔ پسماندہ علاقے کے بھی ہیں اور سرائیکی بھی۔
یہ بھی غلط ہے۔ نہ ہی کوئی ان کے علاقہ کی وجہ سے ان کے بارے میں رائے قائم کرتا ہے نہ ہی ان کے سرائیکی ہونے کی بنا پر۔ البتہ اس طرح کی تحریریں آگ نہ بھی لگائیں تو کہیں کہیں کچھ نہ کچھ اثر کرتی ہیں۔ کسی کے ذہن میں پہلے نہ آیا ہو تو سمجھنے لگے کہ ہاں جی واقعی تعصب برتا جا رہا ہے۔ بالکل نہیں۔ ہم شروع میں خوش تھے کہ چلو ایک ایسا بندہ آرہا ہے جسے چھوٹے علاقوں کے مسائل بھی پتہ ہوں گے۔

اوپر سے نئے پاکستان میں پرانا صحافیوں کا وطیرہ بن گیا ہے کہ وہ چاروں طرف خبروں کے لیے نظر دوڑاتے ہیں جو سب سے بیچارہ ٹارگٹ دکھائی دیتا ہے اس پر چاند ماری شروع کر دیتے ہیں۔ یہاں کراچی سے لے کر خیبر تک ہر دوسرے دن پشتون اپنے لاپتہ پیاروں کے لیے، اپنے معذور بچوں کے لیے انصاف مانگتے ہیں۔ ان کی باتیں آپ کو کسی چینل پر نظر نہیں آئیں گی۔
یہ بھی درست ہے۔ ہمارا میڈیا واقعی بہت ہی کم نہ ہونے کے برابر اس طرح کے مسائل کو جگہ دیتا ہے۔

اس میں لے دے کر بچتا ہے تو عثمان بزدار جو کچھ نہ کرے تو کہتے ہیں نکما ہے، کچھ کرے تو کہتے ہیں غلط کیا۔ نہ بولے تو کہتے ہیں کہ اس کے پاس کچھ کہنے کو ہی نہیں اور بولے تو کہتے ہیں بونگیاں مار رہا ہے۔ بزدار بیچارہ کیا کرے؟
اگر کچھ کام نظر آئیں گے تومیڈیا خاموش نہ بھی ہو تو بھی عوام کی رائے تو بہتر ہوگی۔

قصور خود پی ٹی آئی والوں کا بھی ہے۔ انھوں نے امیدیں ایسی بنا لی ہیں کہ عمران خان کا ساتھی اسد عمر کے لیول کا ہو۔ یعنی جرنیل کے گھر پیدا ہو۔ اینگرو کا بڑا افسر رہا ہو۔ اب ہر صبح اٹھ کر سٹرنگز کے گانے سن کر جوش میں آتا ہو، پھر پاؤلو کوہیلو کے قول ٹویٹ کرتا ہو اور پھر تھک ہار کر دال والے ہوٹل پر دیسی گھی کے تڑکے والی دال کھاتے ہوئے ویڈیو بنا کر شام تک وائرل ہو کر سو جاتا ہو۔
بہرحال عوام اس طرح کی اونگی بونگی امیدیں نہیں لگاتے۔ انھیں تو کام ہوتا نظر آئے بس۔
 

فرقان احمد

محفلین
بظاہر عثمان بزدار صاحب میں کوئی بڑی خامی نہیں ہے تاہم کوئی ایسی غیر معمولی اہلیت بھی اب تک دکھائی نہیں دی ہے جو ان کو اپنے پیشرو سے بہتر ثابت کرے۔ اُن کے بارے میں کیے گئے اکثر تبصرہ جات قبل از وقت ہیں؛ ان کی اہلیت کو پرکھنا ہے تو پھر مناسب وقت بھی دینا ہو گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
بظاہر عثمان بزدار صاحب میں کوئی بڑی خامی نہیں ہے تاہم کوئی ایسی غیر معمولی اہلیت بھی اب تک دکھائی نہیں دی ہے جو ان کو اپنے پیشرو سے بہتر ثابت کرے۔ اُن کے بارے میں کیے گئے اکثر تبصرہ جات قبل از وقت ہیں؛ ان کی اہلیت کو پرکھنا ہے تو پھر مناسب وقت بھی دینا ہو گا۔
پاکستان میں عموماً اقتدار منتقل کرنے سے قبل ٹریننگ کروائی جاتی ہے۔ عثمان بزدار اس معاملہ میں منفرد کیس ہیں۔ ان کو اب انگلی پکڑ کر بتایا جا رہا ہے کہ انہوں نے کرنا کیا ہے۔
 
Top