نیرنگ خیال
لائبریرین
عجب حالت ہماری ہو گئی ہے
یہ دنیا اب تمہاری ہو گئی ہے
سخن میرا اداسی ہے سرِ شام
جو خاموشی پہ طاری ہو گئی ہے
بہت ہی خوش ہے دل اپنے کیے پر
زمانے بھر میں خواری ہو گئی ہے
وہ نازک لب ہے اب جانے ہی والا
مری آواز بھاری ہو گئی ہے
دل اب دنیا پہ لعنت کر کہ اس کی
بہت خدمت گزاری ہو گئی ہے
یقیں معزور ہے اب اور گماں بھی
بڑی بے روزگاری ہو گئی ہے
وہ اک بادِ شمالی رنگ جو تھی
شمیم اس کی سواری ہو گئی ہے