امیر مینائی عجب عالم ہے اُس کا، وضع سادی، شکل بھولی ہے - امیر مینائی

کاشفی

محفلین
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)

عجب عالم ہے اُس کا، وضع سادی، شکل بھولی ہے
کبھی جاتی ہے دل میں، کیا رسیلی نرم بولی ہے

ادائیں کھیلتی ہیں رنگ، تلوار اُس نے کھولی ہے
لہو کی چلتی ہیں پچکاریاں، مقتل میں ہولی ہے

بہار آئی، چمن ہوتا ہے مالا مال دولت سے
نکالا چاہتے ہیں زرگرہ غنچوں نے کھولی ہے

عجب ملبوس ہے ہم وحشیوں کا رختِ عریانی
گریباں ہے، نہ پردہ ہے، نہ دامن ہے، نہ چولی ہے

صراحی دور میں آتی ہے، زاہد ہوں جو محفل میں
جُھکالیں اپنی آنکھیں، دخترِ رز کی یہ ڈولی ہے

امیر ، اس بیوفا دنیا کی صورت پر نہ تم جاؤ
بڑی عیّار ہے، مکّار ہے، ظاہر میں بھولی ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
امیر مینائی کی خوبصورت غزل شریکِ محفل کرنے کا بہت شکریہ کاشفی صاحب۔ ذرا مقطع کے مصرع ثانی کو دوبارہ دیکھیے گا کیا یہاں "بڑی عیار ہے" نہیں ہے؟
امیر ، اس بیوفا دنیا کی صورت پر نہ تم جاؤ
بڑی عیّار، مکّار ہے، ظاہر میں بھولی ہے
 
Top