عجب نہیں کہ حسن پرملال اب نہیں رہا

نمرہ

محفلین
عجب نہیں کہ حسن پرملال اب نہیں رہا
کبھی ترا تھا جس قدر خیال، اب نہیں رہا
غم جہاں نے فلسفے پہ خاک ایسی ڈال دی
جواب اک ملا نہیں ، سوال اب نہیں رہا
کبھی تھی ندرت خیال سے غزل میں روشنی
کبھی سخن میں تھا ہمیں کمال، اب نہیں رہا
یہاں تلک کیا بعید خود کو ہست و بود سے
ہو شوق ہجر یا غم وصال، اب نہیں رہا
چلو بھلا ہوا کہ عمر ہو گئی ہے تیز رو
چہار سو وہ فرصتوں کا جال اب نہیں رہا
معاف کر کے اس کو کیا دمک اٹھی ہے زندگی
کہ دل کے آئنے میں ایک بال اب نہیں رہا
غرورِحسن وہ جو شہر بھر میں اک مثال تھا
تمھاری بے رخی سے بے مثال اب نہیں رہا
تو کیا عجب کہ مانگتا ہے دل کچھ اور فاصلے
تمھارا قرب ، حیف، کچھ محال اب نہیں رہا
کرے یہ کون تصفیہ، نظر وہ کچھ بدل گئی
کہ امتداد وقت سے جمال اب نہیں رہا
غضب ہے، آخری ستارہء شب فراق بھی
وہ جس کو دیکھتے تھے خال خال، اب نہیں رہا

 
Top